واشنگٹن(امت نیوز) سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے خلاف امریکی عدالت میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا مقدمہ ان کی ترک منگیتر چنگیز اور خاشقجی کے قائم کردہ انسانی حقوق کے گروپ نے مشترکہ طور پر دائر کیا اور سعودی ولی عہد کے خلاف غیرمتعین ہرجانے کا مطالبہ کیا تھا۔
شہزادہ محمد بن سلمان کو مغرب میں ’’ایم بی ایس‘‘ کی عرفیت سے بھی جانا جاتا ہے۔ سعودی ولی عہد کے وکلاء نے مقدمہ قتل کی حالیہ سماعت پر امریکی عدالت کو بتایا کہ شہزادہ محمد بن سلمان کی بطور سعودی وزیراعظم تقرری کے سب انہیں کسی بھی قسم کی قانونی چارہ جوئی سے سفارتی استثنیٰ مل گیا ہے، لہٰذا اب ان پر یہ مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا، اسے خارج کیا جائے۔
شہزادہ محمد بن سلمان جمال خاشقجی کے 2018 میں قتل پر امریکی مقدمے کا سامنا کررہے ہیں۔
خاشقجی کو مبینہ طور پر سعودی ایجنٹوں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں ایک آپریشن میں قتل کیا تھا جس کے بارے میں امریکی انٹیلی جنس کا خیال ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے اس کا حکم دیا تھا، جو کئی سال سے مملکت کے اصل حکمران ہیں۔
گزشتہ ہفتے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایک شاہی فرمان کے ذریعے انہیں وزیراعظم نامزد کیا تھا جس کے بارے میں ایک سعودی اہلکار نے کہا تھا کہ وہ ان ذمہ داریوں کے مطابق ہے جو ولی عہد پہلے ہی انجام دے رہے ہیں۔
شہزادے کے وکلاء نے عدالت سے مقدمے کو خارج کرنے کی درخواست میں کہا کہ شاہی حکم کے بعد اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان وزیراعظم کی حیثیت کی بنیاد پر استثنیٰ کے حقدار ہیں۔
یاد رہے کہ موقر امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے اپنے کالموں میں سعودی ولی عہد کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔
وہ کچھ دستاویزات حاصل کرنے کے لیے وہاں گئے تھے، جو انہیں ترک خاتون چنگیز سے شادی کے لیے درکار تھیں۔