ارشاد کھوکھر:
حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث ملک بھر میں غذائی قلت کا خطرہ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ سندھ میں اب تک 55 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی اراضی زیر آب ہے۔ مختلف اضلاع میں صرف 20 فیصد تک پانی کا اخراج ہو سکا ہے۔ سندھ کے تقریباً 10 اضلاع کے بیشترعلاقے ایسے ہیں، جہاں سے اکتوبرکے آخرتک بھی پانی کا مکمل اخراج نہ ہونے سے گندم، پیاز، دالوں اور دیگر سبزیوں کی بوائی ممکن نظر نہیں آرہی ہے۔ اس صورتحال میں صوبائی حکومت کے ساتھ اعلیٰ وفاقی حکام بھی سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ کیونکہ خریف کی فصلیں پہلے ہی تباہ ہوچکیں۔ اب بروقت بوائی نہ ہونے کی وجہ سے ربیع کی فصلیں بھی متاثر ہونے پر حکومت کیلئے فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانا بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ جبکہ سندھ آبادگار بورڈ کے رہنما عبدالمجید نظامانی کا کہنا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات دو برس تک جاری رہیں گے۔ سندھ کے جن علاقوں میں ابھی بھی ربیع کی فصلوں کی بوائی ممکن ہے۔ ان علاقوں میں بھی آبادگاروں کو حکومت جب تک مختلف مد میں مراعات اور امداد فراہم نہیں کرے گی۔ تب تک ان علاقوں کے آبادگار بھی فصلوں کی بوائی نہیں کرسکیں گے۔
بارشوں سے ہونے والے نقصانات کے متعلق خود سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 14 جون سے شروع ہونے والی مون سون کی بارشوں کی وجہ سے اب تک سندھ میں 37 لاکھ 77 ہزار 272 ایکڑ اراضی پر کھڑی خریف کی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں۔ جن میں زیادہ تر دھان کی فصل شامل ہے۔ جبکہ دیگر فصلوں میں کپاس، مرچ، اوائل میں بوئی گئی پیاز کے ساتھ مختلف سبزیوں کی فصلیں شامل ہیں۔ جبکہ ’’امت ‘‘ کے ذرائع کے مطابق سندھ میں 55 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی فصلیں تباہ ہوچکیں۔ جس کا حتمی تخمینہ پانی کے اخراج کے بعد سامنے آئے گا۔ خریف کی فصلیں تباہ ہونے سے پہلے ہی کافی غذائی بحران پیدا ہوچکا ہے۔
ایسی صورتحال میں اگر ربیع کی فصلیں جن میں خصوصاً گندم کی فصل سب سے اہم ہے، وہ بھی متاثر ہوئی تو آئندہ سال ملک بھر میں غذائی قلت کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ جس کا ادراک صوبائی حکومت کے ساتھ وفاقی حکومت کو بھی ہے۔ اس سلسلے میں دو روز قبل وزیراعلیٰ ہائوس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت اجلاس میں بارشوں سے ہونے والے دیگر نقصانات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ تاہم اجلاس میں زیادہ تربحث اس بات پر ہوئی کہ پانی کے اخراج کو فوری طور پر کیسے ممکن بنایا جائے۔ کیونکہ آئندہ چار پانچ ہفتوں کے اندراگر پانی کا اخراج نہ ہوسکا تو پھر ربیع میں ہونے والی فصلوں میں سے سب سے زیادہ گندم کی فصل کی بوائی ممکن نہیں رہے گی۔ کیونکہ گندم کی فصل کی بوائی کا سیزن اکتوبر سے دسمبر کے پہلے ہفتہ تک ہوتا ہے۔ اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ ابھی تک ضلع قمبر شہداد کوٹ، دادو، جامشورو، خیرپور، نوشہروفیروز، بدین، میرپور خاص، کشمور سمیت مختلف اضلاع میں تقریباً 20 فیصد پانی کا اخراج ہوسکا ہے۔ سب سے زیادہ پانی کا اخراج ضلع سکھر سے ہوا۔ جو تقریباً پچاس فیصد ہے۔ اس صورتحال میں بروقت پانی کا اخراج حکومت کے لئے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ جبکہ سندھ کے 9 اضلاع ایسے ہیں جہاں سے بظاہر بروقت پانی کا اخراج نظر نہیں آرہا ہے۔ ان میں ضلع قمبر شہداد کوٹ کے بعض علاقے، ضلع دادو، خیرپور، نوشہروفیروز، بدین، میرپور خاص کے بعض علاقے، عمر کوٹ کے ساتھ ضلع سانگھڑ کا مشرقی علاقہ، جیکب آباد اور جامشورو کی تحصیل سیوھن شامل ہیں۔ دریں اثنا ذرائع کا کہنا ہے کہ خصوصاً ضلع خیرپور، نوشہروفیروز، سانگھڑ، میرپور خاص اور بدین اضلاع سے پانی کا اخراج نہ ہونے کا بڑا سبب پانی کی قدرتی گزرگاہوں پر تجاوزات ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ ان علاقوں میں چھوٹی نہروں کی کھدائی کرکے پانی کے اخراج کا راستہ بنایا جائے۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ اٹھا کہ اس کی زد میں آنے والے مکین سراپا احتجاج ہوجائیں گے۔ جس سے حکومت کے لئے ایک نئی مصیبت کھڑی ہوجائے گی۔
محکمہ زراعت کے ذرائع کے مطابق سندھ میں 45 سے 50 لاکھ اراضی پر گندم کی فصل اگائی جاتی ہے۔ اور سندھ میں اوسطاً ہر سال 45 لاکھ ٹن تک گندم کی پیداوار ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں سندھ میں گندم کی پیداوار 25 سے 30 فیصد تک متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ مذکورہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ گندم کی فصل کی بوائی اگر 15 دسمبر کے بعد جنوری کے پہلے ہفتہ تک ہوئی تو اس عرصہ میں بوئی جانے والی فصل کی فی ایکڑ پیداوار بروقت بوئی جانے والی گندم کے مقابلے میں پچاس فیصد کم ہوتی ہے۔ پانی کا اخراج نہ ہونے سے نہ صرف گندم بلکہ پیاز کی اواخر فصل کی بوائی بھی ان علاقوں میں نہیں ہو سکے گی۔ جبکہ ٹماٹر، گوبھی، شلجم، دھنیا، پالک، گاجر، میتھی، مولی سمیت دیگر سبزیوں کی پیداوار بھی متاثر ہوگی۔ جہاں تک گندم کی پیداوار کا تعلق ہے تو اس کی فصل متاثر ہونے کے اثرات نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک پر ہوں گے۔
محکمہ آبپاشی کے ذرائع کے مطابق سندھ میں تقریباً سوا کروڑ ایکڑ اراضی بیراجی (نہری) سسٹم کے کمانڈ میں شمار ہوتی ہے۔ جنہیں دریائے سندھ سے گڈو بیراج، سکھر بیراج اور کوٹری بیراج سے نکلنے والی نہروں کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس وقت جو زرعی اراضی زیر آب ہے۔ ان میں تقریباً 99 فیصد اراضی بیراجی کمانڈ والی ہے۔ تاہم سندھ میں کئی علاقے ایسے ہیں۔ جہاں فصلوں کی پیداوار کا انحصار بارشوں کے پانی پر ہوتا ہے۔ جو بارانی علاقوں میں شمار ہوتی ہیں۔ ان میں خصوصاً تھرپارکر، ضلع دادو اور جامشورو کے کوہستانی علاقے اور ضلع سانگھڑ کے بعض صحرائی علاقے شامل ہیں۔ ان ذرائع کا کہنا تھا کہ بارانی علاقوں کی لاکھوں ایکڑ اراضی میں ربیع کی فصلوں کی پیداوار بہتر ہوگی۔ جن میں گندم کے ساتھ گوار، باجرہ، مکئی، چنے وغیرہ کی فصلیں شامل ہیں۔ لیکن بارشوں سے بیراجی کمانڈ والے جو علاقے متاثر ہوئے ہیں، پیداوار کے لحاظ سے اس کا متبادل بارانی علاقے نہیں ہوسکتے۔ تاہم پھر بھی چار پانچ لاکھ ایکڑ بارانی علاقوں میں فصلیں بہتر ہوں گی۔
اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر سندھ آبادگار بورڈ کے رہنما ماہر زراعت عبدالمجید نظامانی نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جو صورتحال ہے۔ اس میں ضلع ٹنڈو محمد خان، ٹنڈوالہ یار، مٹیاری، بینظیر آباد، ٹھٹھہ، سجاول، میرپور خاص اور بدین کے بارشوں سے محفوظ علاقوں کے ساتھ شمالی سندھ کے اضلاع سکھر، گھوٹکی، شکارپور، کشمور اور ضلع خیرپورکی وہ تحصیلیں جو بارش سے زیادہ متاثر نہیں ہوئیں۔ ان میں گندم کے ساتھ ربیع کی دیگر فصلوں کی بوائی بروقت ممکن ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اب ان علاقوں کے آبادگاروں کو بھی اپنی ربیع کی فصلوں کی بوائی کی سکت نہیں رہی۔
مالی طور پر وہ بدحال ہوچکے ہیں۔ اس بارش نے پورے سندھ کو ہلاکے رکھ دیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ فصلوں کی بوائی کیلئے آبادگاروں کو مفت کھاد، بیج ، زرعی مشینری، زرعی ادویات وغیرہ فراہم کرنے کے علاوہ ان کے قرضے بھی معاف کرے۔ اگر قرضے معاف نہیں ہوسکتے تو ان کی وصولیابی کو موخر کیا جائے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ان بارشوں سے کپاس کی فصل کو جو نقصان پہنچنا تھا، وہ پہنچ چکا۔ لہذا اب کپاس کی فصل کی بوائی کو کوئی خطرہ نہیں۔ کیونکہ اس کی بوائی ربیع کے اواخر کی فصلوں میں ہوتی ہے جو مارچ سے شروع ہوتی ہے۔ تاہم اصل مسئلہ گندم کی بوائی کا ہے۔ عبدالمجید نظامانی کا کہنا تھا کہ حالیہ بارشوں سے فصلوں کو جو نقصان پہنچا ہے اس کے اثرات دو برس تک جاری رہیں گے۔ جس کے بعد ہی صورتحال معمول پرآسکتی ہے۔ اس صورتحال میں حکومت اگر فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانا چاہتی ہے تو سب سے زیادہ توجہ زرعی شعبے کی بحالی پر دی جائے۔