نواز طاہر:
پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان کے نشے کی لت اور پولیس کی روایتی لاپرواہی سے ایک ہی گائوں کے آٹھ گھرانے چندگھٹوں کے دوران اجڑ گئے۔ نہ صرف ان گھرانو ں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ بلکہ گرد و نواح میں بھی خوف و ہراس پھیل گیا۔ ابتدائی طور پر نارنگ منڈی کا رہائشی ملزم فیض رسول اور غفلت کے مرتکب پولیس اہلکار گرفتار تو کر لئے گئے۔ لیکن تاحال ملزم کا موبائل فون برآمد نہیں کیا جاسکا اور اس کیس کی تفتیش میں پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
واضح رہے کہ یہ دلخراش واقعہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب لاہور سے پچھتر کلومیٹر کے فاصلے پر نارنگ منڈی کے گائوں ہچڑ میں پیش آیا۔ جہاں فصل، مویشیوں کے باڑے (حویلی) اور فلنگ اسٹیشن پر سوئے ہوئے آٹھ افراد کو یکے بعد دیگرے کلہاڑی اور تیز دھار آلے سے قتل کیا گیا۔ تحریکِ انصاف کے سب سے معمر رکن قومی اسمبلی بریگیڈیئر ریٹائرڈ راحت امان اللہ بھٹی کا بھی یہ آبائی گائوں ہے اور وہی اس کیس کی بنیادی پیروی بھی کر رہے ہیں۔ اس کی تصدیق نارنگ منڈی پولیس اور مقامی لوگوں نے بھی کی ہے۔ لیکن تاحال امان اللہ بھٹی، پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کے باوجود غفلت کے مرتکب کچھ پولیس ملامین کیخلاف قانونی کارروائی کروانے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ البتہ ڈیڑھ گھنٹے کے دوران آٹھ افراد قتل کیے جانے کے اس مقدمے میں تھانہ نارنگ کے ایس ایچ او اور تین اسسٹنٹ سب انسپکٹروں اور تھانے کے محرر کو مرکزی ملزم سمیت گرفتار کیا جاچکا ہے اور بارہ اکتوبر تک ان کا جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کرلیا گیا ہے۔
آٹھ افراد کے قتل کے بعد زخمی حالت میں بھاگنے والے نواحی گائوں چھوٹا ننگل کے اخلاق احمد کی رپورٹ پر تھانہ نارنگ میں ملزم فیض رسول کے خلاف قتل اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ مقدمہ میں انسپکٹر جنرل پولیس کے حکم پر ضمنی نمبر دو کے تحت غفلت کے مرتکب ایس ایچ او نارنگ انسپکٹر عبدالوہاب، اے ایس آئی محمد لطیف، مشتاق احمد، محمد رفیع اور محرر عمار الحسن کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ دو سو اکیس و ایک سو ایس اور پولیس آڈر مجریہ سنہ دو ہزار دو کے سیکشن ایک سو پچپن سی کے تحت نامزد ملزم قرار دیا گیا ہے اور گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی جی نے غفلت کے مرتکب پولیس ملازمین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم رکن قومی اسمبلی راحت امان اللہ بھٹی، پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ ہاشم ڈوگر ، وزیراعلیٰ پنجاب کے نوٹس لینے اور مقامی افراد کے بیانات کی تصدیق کے بعد جاری کیا تھا۔
تھانہ نارنگ میں درج ہونے والے مقدمہ نمبر سات سو چونسٹھ میں مدعی اخلاق احمد کی طرف سے بیان کی کہانی ایک طرف ڈرامائی ہے تو دوسری جانب ملزم کی سفاکیت کی بھی مظہر ہے۔ جبکہ مقدمہ کے واقعات پنجاب پولیس کی غفلت اور پرواہی کی انتہا بیان کرتے ہیں کہ اگر پولیس لاپرواہی نہ کرتی تو آٹھ افراد کی جانیں بچ سکتی تھیں۔ موضع ہچڑ سے ملحقہ گائوں کوٹ عبداللہ سے ہچڑ کے ذرائع نے بتایا کہ ملزم فیض رسول زیادہ تر اکیلا ہی دیکھا جاتا تھا۔ اسے زیادہ وقت خود سے باتیں کرتے پایا گیا اور وہ دوسرے لوگوں سے بیزار بھی رہتا تھاْ البتہ اس کے پاس مختلف اوقات میں کچھ موٹر سائیکل سوار دیکھے گئے ہیں۔ غالباً یہ وہ لوگ ہوسکتے ہیں جو ملزم کو نشہ فراہم کیا کرتے تھے۔ ان ذرائع کے مطابق ملزم فیض نارووال میں یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران نشے کا عادی ہوا تھا۔ تفتیشی افسر انسپکٹر صفدر نے بھی تصدیق کی ہے کہ ملزم فیض ’’آئس‘‘ کے نشے کا عادی ہے۔
ایف آئی آر میں مدعی اخلاق کے مطابق ملزم فیض نے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب پونے ایک بجے چاول کی فصل کی نگرانی کیلئے کھیت میں سوئے ہوئے معمر شخص سرفراز اور اس کے رشتے دار عمیر کو کلہاڑی اور تیز دھار والے راڈ سے قتل کیا۔ جس کے بعد سوا ایک بجے کے قریب حویلی (مویشیوں کے باڑے ) میں سوئے ہوئے چالیس سالہ تنویر، اکرم، فیصل اور شہروز کو بھی پہلے دو افراد کی طرح قتل کیا۔ یہاں سے ملزم نے کچھ فاصلے پر واقع عنصر فلنگ اسٹیشن پر نگرانی کیلئے ڈیوٹی دینے والے ایک اہلکار اسد کو دو بجے سوتے میں پہلی واردات کی طرح موت کے گھاٹ اتارا اور پھر وہاں سے سیدھا رحمان فلنگ اسٹیشن پر پہنچا، جہاں اس نے سوئے ہوئے دلاور رحمانی کو قتل کرنے کے بعد مجھ ( اخلاق ) پر بھی راڈ سے حملہ کیا۔ لیکن میں خون میں لت پت بھاگ پڑا۔ میری چیخوں کی آواز سن کر فیض رسول نے وہاں کھڑی موٹر سائیکل اٹھائی اور یہاں سے فرار ہو نے لگا تو ڈیوٹی سے موضع پریم گڑھی اپنے گائوں واپس آنے والے کانسٹیبل ظفر اقبال نے پستول کے بل پر ملزم کو خون آلود حالت میں پکڑ لیا۔
کوٹ عبداللہ کے ایک رہائشی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ملزم نے یونیورسٹی میں زولوجی پڑھنے کے دوران کچھ عرصے ٹیوشن بھی پڑھائی تھی۔ لیکن نشے کا عادی ہونے پر اور کچھ حرکات عجیب و غریب ہونے پر پڑھنے والے اسے چھوڑ گئے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے باپ کی طرح نشے میں زیادہ دھت رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ٹیوشن پڑھانے سے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ مستقبل سہانا نہیں اور سماج میں انصاف نہیں۔ اسی بنا پر گائوں کے لوگ اسے پاگل کہا کرتے تھے اور وہ جب چاہتا تھا لوگوں سے جھگڑا کرلیتا تھا۔ جبکہ میٹرک تک وہ انتہائی ذہین، ملنسار تھا اور میٹرک میں اسکول میں ٹاپ کیا تھا۔ لیکن نارنگ منڈی میں دوران تعلیم اس کی سوسائٹی بگڑ گئی۔ اس ک باوجود وہ نارنگ منڈی میں ایف ایس سی میں پاس ہونے والے چند لڑکوں میں سے ایک تھا اور پھر ناروال یونیورسٹی میں جا کر بتدریج ا س کی سوسائٹی ہی بدل گئی۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے تنہا تمام افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔ لیکن اس واردات پر کسی کو بھی یقین نہیں آرہا کہ ساتھ والے گائوں سے ایک تنہا انسان آئے اور یکے بعد دیگرے اتنی جانیں لے لے اور کسی آواز نہ نکلے اور کوئی مزاحمت نہ کرسکے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ ملزم کے بارے میں پولیس کو بار بار آگاہ کیا جاتا رہا، لیکن پولیس نے نوٹس نہیں لیا بلکہ ایک بار پکڑ چھوڑ بھی دیا تھا۔ اس کی تصدیق رکن قومی اسمبلی راحت امان اللہ کے قریبی ذرائع نے بھی کی ہے اور تفتیشی افسرانسپکٹر صفدر پرویز بھی اس کی تصدیق کررہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ملزم کے بارے میں نہ صرف تھانہ نارنگ کومطلع کیا گیا، بلکہ پولیس پیٹرولنگ سنٹر بھاگو ڈیال کو فون پر مطع کیا گیا تو انچارج انسپکٹر صفدر نے کارروائی کے بجائے الٹامذاق بھی اڑایا۔ پیر کی شب آٹھ بجے تک ملزم کے ممکنہ ساتھیوں کی تلاش کیلئے پولیس ایک گائوں میں چھاپے کیلئے موجود تھی ۔
اس سے پہلے پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ ہاشم ڈوگر نے بتایا تھا کہ واقعے کی اطلاع ملنے پر وہ خود بھی وہاں پہنچے تھے۔ مقامی لوگوں کی پولیس کے حوالے سے تمام شکایات درست تھیں، جن کی رو سے تھانہ نارنگ کے ایچ ایچ او اور تین چھوٹے تھانیداروں اور محرر کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں حوالات میں بند کروایا گیا ہے۔ ایم این اے کے مطابق ملزم کی ذہنی حالت کے بارے میں میڈیکل سرٹیفکیٹ ان تک نہیں پہنچا ہے۔
اس کے برعکس پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ ابھی ملزم کے سماجی اور ذہنی معائنے کیلیے میڈیکل بوڑد بھی تشکیل نہیں جاسکا ہے۔ جس کی ایک وجہ عید میلاد النبیؐ کی سرکاری تعطیل بھی ہوسکتی ہے۔ تفتیشی افسر کے مطابق ملزم سے آلاتِ قتل تو موقع پر ہی برآمد کرلئے گئے تھے۔ لیکن اس سے ابھی موبائل فون کی برآمدگی کرنا باقی ہے۔ جب تک وہ برآمد نہیں ہوتا، کئی الجھی گتھیاںسلجھانے اور تفتیش میں پیش رفت نہیں ہوسکے گی۔ تفتیشی افسر کے مطابق یہ درست ہے کہ مقامی لوگ اسے پاگل قراردیتے ہیں اور یہی وجہ ہے آٹھ میں سے چار مقتولین کے ورثا نے لاشوں کے پوسٹمارٹم بھی نہیں کروائے اور تدفین کروادی۔ لیکن ہم نے اپنے اور قانون کے مطابق کارروائی کرنی ہے۔ تفتیشی افسر کے مطابق ملزم ’’آئس‘‘ کا بہت زیادہ استعمال کرتا تھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق ملزم سے رواییی تیسرے درجے کی تفتیش اس لئے نہیں کی جارہی کہ اسے میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش کیا جانا باقی ہے۔ دوسری جانب اس کیس کی پیروی کرنے والے رکن قومی اسمبلی کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ ابھی تک پولیس نے پیٹرولنگ پوسٹ پرغیرذمے داری اور غفلت برتنے والے اہلکاروں کیخلاف کارروائی نہیں کی، جس کیلئے کوشش کی جارہی ہے۔