احمد خلیل جازم:
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب میں گورنر راج لگایا جا سکتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم میں اس کی گنجائش موجود ہے۔ آئینی طور پر اس کیلیے قرارداد منظور کرانی پڑتی ہے۔ چونکہ کسی بھی صوبے کا گورنر صدر کا نمائندہ ہوتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں اور خصوصاً تہتر کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صدر کا عہدہ صرف پارلیمنٹ کے بل پر دستخط کرنے تک ہی محدود ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت صوبہ پنجاب میں رانا ثناء اللہ کے وارنٹ گرفتاری اور عمران خان کے متوقع لانگ مارچ کے تناظر میں پنجاب میں گورنر راج کا سوچ رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس پر پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت مکمل ہوچکی ہے۔
اس حوالے سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن یاسین آزاد نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہا کہ ’’گورنر راج کے نفاذ کیلیے آئینی طورپرقومی اور صوبائی اسمبلی سے قرارداد منظور کرانی پڑتی ہے۔ لیکن اس وقت موجودہ صورتحال میں پنجاب کے وزیر داخلہ نے وفاقی وزیر داخلہ کو گرفتار کرنے کا کہا ہے اور وارنٹ بھی ایشو کیے جاچکے ہیں۔ حالانکہ وہ کورٹ کے وارنٹ ہیں۔ جیسے عمران خان کے خلاف وارنٹ ایشو ہوئے تھے۔ ویسے ہی وارنٹ ہیں۔ اس کی کورٹ سے ضمانت ہوسکتی ہے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ پنجاب کا وزیر داخلہ بعض اوقات کچھ کہتا ہے اور بعض اوقات کچھ۔ نواز شریف کی جیل میں ملاقاتوں پر قانونی کارروائی کا عندیہ دیتا ہے۔ جیل حکام کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کا کہتا ہے تو دیکھا جائے تو ایسا نہیں ہے کہ صوبہ فیڈریشن پر اٹیک کرے اور فیڈریشن معذرتیں پیش کرے۔ پاکستان کا دستور صرف فیڈریشن کیلیے نہیں، پورے پاکستان کیلیے ہے۔ اور آئین کی پابندی کرنا تمام صوبوں اور فیڈریشن کی ذمے داری بنتی ہے۔
یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ جب پی ٹی آئی نے پہلے لانگ مارچ کیا تو پرویز خٹک خیبرپختون کے چیف منسٹر تھے۔ انہوں نے باقاعدہ طور پر فیڈریشن پر ایک قسم کا اٹیک کیا تھا۔ ویسے تو چھوٹے چھوٹے معاملات پر سوموٹو ایکشن لے لیا جاتا ہے۔ لیکن اس طرح کے معاملات میں ہم خاموش ہوجاتے ہیں۔ ہمیں ایسے معاملات پر خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ ہمیں صوبوں کو یہ احساس دلانا چاہیے کہ وہ ایسا کام نہیں کرسکتے جس سے پاکستان کمزور ہو۔ کمزور تو ہم نے ویسے ہی کردیا ہے۔ ایک ایک ادارے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک سابق پرائم منسٹر آئینی اداروں کو دھمکیاں دیتا ہے۔ اسٹیبلشمٹ کو برا بھلا کہتا ہے۔ کوئی سننے والا نہیں ہے۔ تو گورنر راج جبھی ہوتا ہے جب کسی صوبے کے حالات انتہائی خراب ہوجائیں۔ صوبہ بغاوت پر اتر آئے۔ ایمرجنسی نافذ ہونا ضروری ہو۔ ایسی صورت میں حکومت قومی اسمبلی کا جوائنٹ سیشن بلا کر ایمرجنسی نافذکرنا چاہے تو کسی بھی صوبے میں کرسکتی ہے۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ صوبے میں مختلف پارٹیوں کی حکومت ہو تو آپ فیڈریشن پر اٹیک کرسکتے ہیں؟ آپ کے پڑوس میں پچاس سے زائد ریاستیں ہیں۔ وہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ فیڈریشن پر حملہ کیا جائے۔ یہ ہمارے ملک میں عجیب تماشا بنا ہوا ہے‘‘۔ اس سوال پر کہ صدر کا اس میں کیا کردار ہوتا ہے؟
یاسین آزاد کا کہنا تھا ’’صدر کا اس میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ اس نے اسے ایک مخصوص وقت میں منظور کرنا ہے۔ اگر وہ اسے لٹکاتا ہے تو فیڈریشن دوبارہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر اسے فوری طور پر نافذ کردے گی۔ اگرچہ اٹھارویں ترمیم میں گورنر راج کا نفاذ اتنا آسان نہیں۔ لیکن اگر صورتحال انتہائی خراب ہوجائے۔ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ختم ہوجائے تو پارلیمنٹ کے دونوں ایوان قرارداد پاس کردیتے ہیں۔ فیڈریشن کے پاس اس وقت سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اکثریت ہے تو وہ فوری قرارداد پاس کرسکتے ہیں۔ پھر کیا ہوگا۔ پھر تو وہ آئینی طور پر کیا جائے گا۔ میں پولیٹکل ورکر بھی ہوں۔ میں اس وقت کسی کی نمائندگی نہیں کرتا۔ ضمیر اور قانون کی بات کر رہا ہوں۔ کیا پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری نہیں کہ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر تمام معاملات حل کریں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے عدالت جاتے ہیں۔ پھر جب عدالت کا فیصلہ آئے تو عدالتوں پر لعن طعن کرتے ہیں۔ تمام پارٹیاں پاکستان کی بقا نہیں بلکہ اپنی انا کی جنگ لڑ رہی ہیں‘‘۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ’’وفاق کا یہ استحقاق ہے کہ وہ گورنر راج نافذ کر سکتا ہے۔ لیکن یہ عدالتوں میں چیلنج ہو سکتا ہے اور عدالتیں اس کے خلاف فیصلہ دے سکتی ہیں۔ گورنر رول کے کچھ لوازمات ہوتے ہیں کہ صوبے میں آئینی نظام مفلوج ہوجائے یا پھر کوئی معاشی ایمرجنسی ہو۔ اس صورت میں تو یہ رول ممکن ہے۔ لیکن بہرحال عدالت اسے دیکھ سکتی ہے۔ گورنر رول نافذ کرنا کوئی مشکل نہیں اور اس کا طریقہ کار آئین میں درج ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عدالت میں اس کا دفاع کیسے کیا جائے گا؟ اور عدالت اس کا فیصلہ کرنے میں کتنا وقت لے گی‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’صدر کا اس میں یہی کردار ہوگا کہ وہ مشاورت کے لیے وفاقی حکومت کو ایک بار کہہ سکتے ہیں۔ لیکن ان کا زیادہ کردار نہیں ہوگا۔ ویسے بھی گورنر صوبے میں صدر کا ہی نمائندہ ہوتا ہے۔ لیکن وفاقی حکومت اگر چاہے گی تو لامحالہ انہیں یہ کرنا ہی پڑے گا۔ میرا کہنا صرف اتنا ہے کہ گورنر رول نافذ کرنا آسان ہے۔ لیکن اس کے دفاع کے لیے آپ کے پاس مضبوط دلیل ہو۔ جس سے عدالت میں ثابت کرسکیں کہ یہ ضروری تھا‘‘۔