میگزین رپورٹ:
وہ نو چندی کی ایک ایسی خوفناک رات تھی کہ جھینگر بھی خاموشی سے کہیں دبکے ہوئے تھے۔ مکلی کا قبرستان اپنی روایتی پراسراریت کے لبادے میں لپٹا ہوا تھا۔ کڑیل نوجوان دارو خان کے ساتھ اس قبرستان میں کیا ہوا ؟ یہ کسی کو کبھی معلوم نہیں ہوسکا۔ اس کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ وہ اپنے کام سے کام رکھنے والا ایسا نوجوان تھا جس کی ابھی مسیں ہی بمشکل بھیگی تھیں۔ میلوں ٹھیلوں میں جاکر زندگی انجوائے کرنا اس کا معمول تھا اور اسی کے تحت وہ نوچندی کی اس خوفناک رات میں مکلی کے قبرستان جا نکلا تاکہ قبرستان میں بنے عبداللہ شاہ اصحابیؒ کے مزار پر جنات کی حاضری اور قوالی سے لطف اندوز ہوسکے۔ مگر اس رات دارو خان پورے ٹھٹھہ کے لیے ایک ایسی لرزہ خیز داستان بن گیا کہ جو اس سے قبل کبھی نہیں سنی گئی تھی۔ رات کو مزار پر جانے والا زندہ دارو خان صبح ادھڑی ہوئی لاش کی صورت میں ایک ایسے مقبرے سے ملا جو خود اسرار کے پردوں میں لپٹا ہوا ہے۔ پانچ سو سال قدیم اس مقبرے کو مکمل عمارت کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ صدیوں پرانے اس قبرستان میں نوچندی کی صرف وہی ایک رات ایسی لرزہ خیز نہیں تھی بلکہ یہاں نوچندی کی ہر رات ایسی ہی ہولناک ہوتی ہے۔
یہاں مختلف مقبروں پر ملنگوں ، مجاوروں اور آسیب زدہ لوگوں کی کہانیاں سمجھ سے ماورا ہیں۔ کالے جادو اور ایسے عمل کرنے والوں کی اس قبرستان میں سرگرمیوں کی حقیقت اپنی جگہ، مگر اس کے علاوہ بھی جنات کی حاضری، پراسرار قتل اور بیری کے درخت کے نیچے اور اوپر بیٹھے کوّے، بلیاں اور سیاہ کتوں جیسی چیزوں کی حقیقت اب بھی ناقابل سمجھ ہیں۔ وہاں موجود ملنگ ان کے بارے میں یا تو کچھ بتاتے ہی نہیں اور اگر بتاتے بھی ہیں تو ایسی باتیں جو یقین کی حدوں کی دوسری طرف ہوں۔ کالا جادو کرنے والے جس شخص کو نصف شب کے وقت ہم لوگوں نے پکڑا تھا وہ بھی ایک معما بن کر رہ گیا۔ اس روز رات زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم نے چوروں کے کنویں کے پاس آکر اپنا راستہ الگ کرلیا تھا۔
صدیوں پرانے اس کنویں کے بارے میں کسی کو بھی نہیں معلوم کہ یہ کس نے بنایا اور کیوں بنایا مگر اپنی عجیب ہیئت پراسرار واقعات اوررات کو یہاں سے آنے والی خوفناک آوازوں کی وجہ سے یہ اب چوروں کے کنویں کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے دونوں طرف صدیوں پرانی قبریں اور خفیہ کمروں اور خانوں والے مقبرے ہیں۔ اوپر سے جھانک کر دیکھیں تو بڑے قطر کے اس کنویں کی تہہ نظر نہیں آتی بلکہ دیواروں میں بنے کمرے نظر آتے ہیں جب کہ کہیں کہیں اچانک کنویں کی دیواروں سے سیڑھیاں بھی جھانکتی نظر آتی ہیں۔ یہ سیڑھیاں ان کمروں تک جانے کے لئے بنائی گئی ہیں جو کنویں کے اندر بنے ہوئے ہیں۔
پرانے لوگوں کا کہنا ہے کہ دراصل یہ کنواں ایک بڑا جیل خانہ تھا جہاں چوروں اور ڈاکوئوں کو قید کیا جاتا تھا اور قید کئے جانے والے یہیں پر سسک سسک کر جان دے دیتے تھے۔ اب بھی ان زیر زمین کمروں میں ایسی باقیات موجود ہوں گی جو اس بات کی گواہی دیں۔ مگر یہ گواہی لینے کے لئے کوئی بھی سیکڑوں فٹ گہرے ایسے اندھے کنویں میں جانے کو تیار نہیں ہوتا جہاں سے رات کے وقت خوفناک آوازیں آتی ہیں۔ البتہ کالے علم کے ایک ماہر کا یہ کہنا ہے کہ مذکورہ کنواں چلہ کاٹنے کی بہترین جگہ ہے۔ رات کے وقت جب ہم لوگ اس کنویں کے پاس پہنچے تو پولیس کا سپاہی ایک گرفتار شخص کو لے کر سامنے موجود چوکیداروں کے پاس چلا گیا اور ہم لوگ واپس شہر لوٹ آئے۔
خیال تھا کہ رات اس سے تھانے میں تفتیش وغیرہ ہوگی اور صبح ہم اس کا پتا کرلیں گے۔ مگر دوسرے دن مکلی کے تھانے میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں تھا۔ دو کمروں پر مشتمل کھنڈر نما تھانے میں دو تھکے ہوئے سپاہی اور ایک ہیڈ محرر قدیم زمانے کی میز پر میلا کچیلا رجسٹر سجائے بیٹھا تھا۔ تھانے کے رجسٹر کے مطابق سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ ناکوئی جرم تھانہ کوئی مجرم۔ رات کو پکڑا جانے والا ملزم نجانے کہاں گیا تھا مگر تھانے میں نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تھانے تک پہنچا ہی نہیں۔ ایک سپاہی نے حتی الامکان اپنی آواز کو خوشگوار بناتے ہوئے ایک خوفناک سا قہقہہ لگایا اور بولا: ’’سائیں! کیا قبرستان میں مردے باہر نکل کر جرم کریں گے ؟ مردے تو باہر نہیں نکل سکتے ، ہیں نا ۔‘‘ مایوس ہوکر جب ہم وہاں سے باہر نکل رہے تھے تو منحنا سا ہیڈ محرر ہمیں چائے کے لئے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔
شام کے وقت قبرستان کے گیٹ پر موجود وہ سپاہی ہمیں دیکھ کر آنکھیں چرانے لگا جو رات کو ساتھ تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ سائیں چھوڑو ، ایک چھوٹی سی غلط فہمی ہوگئی تھی ہم لوگوں سے وہ تو علم والے سائیں لوگ تھے۔ ہم اسے چور سمجھ کر پکڑ لائے۔ معافی تلافی کرکے ہم نے یہیں سے جانے دیا ورنہ بات آگے بڑھ جاتی۔ رات کو کوئی پہنچا ہوا بزرگ ہی اس طرح سے قبرستان میں صحیح سلامت رہ سکتا ہے ورنہ دوسری مخلوق اسے مارڈالے۔ باقی چوکیدار اور لوگ بھی سمجھانے لگے کہ ایسے معاملات میں پڑنا بے وقوفی ہی ہے۔ جس نے جو کرنا ہے وہ تو کرے گا۔ اگر سرکار ان لوگوں کو نہیں روک سکتی تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ایسے خطرات میں ہاتھ ڈالیں۔ یہی بات مجھے پستہ قدر کے ایک موٹے سے ملنگ نے بھی کہی تھی جو قبرستان کے آخری کونے میں جھاڑیوں میں گھرے ایک اور مقبرے پر ملا تھا۔ جھاڑیوں اور آک کے پودوں میں گھری چھوٹی سی پگڈنڈی اس مقبرے تک آتی ہے جہاں ایک مزار اور اس کے ساتھ دو کچے کمرے بنے ہوئے ہیں۔ چادروں کی چھت والے ایک کمرے میں اسپلٹ ایئرکنڈیشن چل رہا تھا اور موسیقی کی ہلکی آوازیں بھی ابھر رہی تھیں۔ کمرے کے دروازے کے ساتھ ہی بیری کا ایک بڑا سا درخت لگا ہوا تھا۔ جس کے نیچے تین چار بالکل سیاہ کتے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ہی دو کالی بلیاں بھی کھڑی مجھے گھور رہی تھیں۔
مغرب کی اذان کے بعد ہلکا ہلکا اندھیرا پھیل چکا تھا اور مجھے واپسی کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ میں نے اس کمرے کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کی جہاں سے موسیقی کی صورت زندگی کے کچھ آثار ابھر رہے تھے تو ایک کالاکتا جارحانہ انداز میں کھڑا ہوکر گھورنے لگا۔ قدو قامت کے علاوہ بھی کتے کا رنگ اور آنکھیں خوفزدہ کرنے کے لئے کافی تھیں۔ پھر مغرب کے بعد تھوڑے تھوڑے اندھیرے نے بھی ماحول کو کم ازکم تنہا آدمی کے لیے زیادہ خوفناک بنا رکھا تھا۔ میں نے دفاع کے لیے زمین پر پڑے ایک دو پتھر اٹھائے اور کتوں کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ بیری کے درخت پر ایک دم ہلچل مچ گئی ایسا لگا کہ تیز ہوا کے جھکڑ نے درخت کو ہلاکر رکھ دیا ہو۔ اتنے میں کمرے سے وہی پستہ قد ملنگ بھی باہر نکل آیا۔
کئی کلومیٹر رقبے پر پھیلے مردوں کے اس شہر میں اس وقت ایک زندہ انسان کو دیکھ کر کافی حوصلہ ہوا۔ اسے دیکھ کر کتا بھی اپنی جگہ پر پہلے کی طرح سر نیچے ڈال کر بیٹھ گیا۔ میں ملنگ کے پاس گیا تو اس کے کپڑوں سے بدبو کے بھبکے اٹھ رہے تھے۔ وہ انگلی سے مزارکی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ ادھر جاکر فاتحہ پڑھو۔ میں نے اس سے راستہ پوچھا اور پھر کتوں کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ کہیں یہ جاتے ہوئے عقب سے حملہ تو نہیں کریں گے؟ اس پراس نے کہا تھا ’’سائیں ! ایک جسمانی بیماری ہوتی ہے اور ایک روحانی بیماری۔ جسمانی بیماری کا علاج ہر جگہ سے ہوجاتا ہے اور اس کا پتا بھی چل جاتا ہے مگر روحانی بیماریلگ جائے تو پھر لوگ مارے مارے پھرتے ہیں۔ کوئی کسی دربار کا کتا بن جاتا ہے اور کوئی کسی بزرگ کے در پر بیٹھ جاتا ہے۔ ہزار مخلوق ہے۔ کسی کو تنگ نہ کرو تو کوئی کسی کو کیوں رنگ کرے گا۔ یہ باتیں کھڑے کھڑے نہیں سمجھ آتیں۔ ان بزرگوں کے پاس بیٹھو تو پتا چلے۔ یہاں وقت گزارو سائیں ۔ چھیڑ چھاڑ مت کرو۔‘‘
ملنگ کی بات سننے کے بعد میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور موبائل ٹارچ کی روشنی میں اندازے سے عبداللہ شاہ اصحابیؒ کے مزار کی طرف سفر کرتے ہوئے میر باقی بیگ کے مقبرے کی طرف جانکلا۔ مقبرے پر لگے آثار قدیمہ کے کتبے کو دیکھ کر پورے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ یہ عین وہی جگہ تھی جہاں دارو خان کی ادھڑی ہوئی لاش پائی گئی تھی۔ میر باقی بیگ کا مقبرہ کئی کمروں اور قبروں پر مشتمل ہے۔ ہر چار دیواری کے اندر داخل ہونے کا ایک ہی راستہ ہے۔ اور پھر بھول بھلیوں کے انداز میں راستے مختلف کمروں تک جاتے ہیں۔ ہر کمرے میں مختلف طاقچے اور ایسے خانے ہیں جو بغور دیکھے بغیر نظر نہیں آتے۔
دارو خان کا خاندان عرصے سے ٹھٹھہ میں آباد ہے۔ ہوٹل کے کاروبار سے وابستہ دارو خان ایک جمعرات عبداللہ شاہ اصحابیؒ کے مزار پر جنات کی حاضری اور قوالی دیکھنے آیا تھا مگر اگلے دن اس سترہ سالہ لڑکے کی لاش میر باقی بیگ کے مقبرے کے ایک کمرے سے ملی۔ جسم کئی جگہ سے ادھڑا ہوا تھا۔ مزار اور میر باقی بیگ کے مقبرے کے درمیان کوئی نصف کلومیٹر کا فاصلہ تو ہوگا، مگر یہ معما کبھی حل نہیں ہوسکا کہ دارو خان آخر کس وجہ سے میر باقی کے مقبرے تک آیا اور وہاں کون تھا ، جس نے اسے مارڈالا؟ اب سب کو بس اتنا ہی یاد رہ گیا ہے کہ وہ نوچندی کی گھور اندھیری رات تھی اور ایسی ہی راتوں میں کالے جادوگر اپنی کمین گاہوں سے نکل کر قبرستانوں میں چلے کاٹنے اورعملیات کرنے جاتے ہیں۔