امت رپورٹ: دوسری اور آخری قسط
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے حکم پر جنوری دو ہزار گیارہ میں نادرا نے خواجہ سرائوں کے لئے شناختی کارڈ فارم میں ایک تیسرا خانہ متعارف کرایا تھا۔ یوں خواجہ سرائوں کو تیسری صنف کے طور پر ملک میں پہلی بار شناخت ملی تھی۔ اس خانے میں ’’مخنث‘‘ لکھا جاتا تھا۔ تاہم خواجہ سرائوں کو شناخت کے ساتھ باقاعدہ حقوق ستمبر دو ہزار بارہ میں ملے۔ جب چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کو نمٹاتے ہوئے فیصلہ دیا کہ خواجہ سرائوں کو وراثت سمیت وہ تمام حقوق حاصل ہیں۔ جس کی ضمانت آئین میں تمام شہریوں کو دی گئی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا تھا کہ خواجہ سرائوں کو خاص طور پر تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں کی وراثت اور کسی بھی پیشے کو اپنانے کے حق سمیت ان کے دیگر جائز حقوق سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے۔ عدالت نے ہدایت کی تھی کہ فیصلہ چیف سیکریٹریز کے ساتھ تمام صوبوں کے انسپکٹر جنرلز کو ان کی معلومات کے لئے بھجوا دیا جائے اور خواجہ سرائوں کے بنیادی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے۔ یوں دس برس قبل خواجہ سرا کمیونٹی کو سپریم کورٹ نے ان کے بنیادی حقوق دلادیئے تھے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا سبب دو ہزار نو میں ٹیکسلا میں ہونے والا ایک واقعہ بنا تھا۔ جب پولیس نے ایک پارٹی پر چھاپہ مار کر چند خواجہ سرائوں کو گرفتار کرلیا تھا۔ لیکن اس واقعہ پر انسانی حقوق کے کسی گروپ یا این جی او کے کان پر جوں نہیں رینگی تھی جو، اب ٹرانس جینڈر ایکٹ کی حمایت میں پیش پیش ہیں۔ دلچسپ امر ہے کہ ایسے میں جب مغرب زدہ این جی اوز کو سانپ سونگھا ہوا تھا۔ ایک اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد اسلم خاکی میدان میں اترے اور انہوں نے دو ہزار نو میں خواجہ سرا برادری کی جانب سے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ ڈاکٹر خاکی نے پاکستان کے آئین کے تحت خواجہ سرائوں کی قانونی شناخت اور ان سے مساوی سلوک کی دلیل دی۔ اور تین برس تک چلنے والے اس کیس کے ذریعے آخر کار خواجہ سرائوں کو ان کے بنیادی حقوق دلانے میں کامیاب ہوگئے۔ یوں ٹرانس جینڈر حقوق کی نام نہاد علمبردار این جی اوز کے بجائے خواجہ سرائوں کو آئین کے تحت ان کے حقوق دلانے میں ایک اسلامی اسکالر نے بنیادی رول ادا کیا تھا۔ اس پٹیشن میں خواجہ سرائوں کی نمائندہ تنظیم ’’شی میل رائٹس آف پاکستان‘‘ کی سربراہ الماس بوبی بھی فریق تھیں۔
سپریم کورٹ کے احکامات پر ایک دہائی قبل خواجہ سرائوں کو آئین کے مطابق ان کے جو بنیادی حقوق دے دیئے گئے۔ اس کے تحت خواجہ سرائوں کو نہ صرف وراثت میں حصہ ملنے لگا۔ بلکہ نادرا، بیت المال، پولیس اور دیگر سرکاری محکموں میں نوکریاں ملیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں کوٹہ مختص ہوا۔ شناختی کارڈ فارم میں ’’مخنث‘‘ کے طور پر خانہ رکھ کر باقاعدہ قومی شناخت دے دی گئی۔ تو پھرسوال ہے کہ ایسے میں ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ نافذ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
یہی سوال ’’شی میل رائٹس آف پاکستان‘‘ کی سربراہ الماس بوبی بھی اٹھاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’میں پچھلے اٹھارہ برس سے اپنی خواجہ سرا کمیونٹی کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتی چلی آرہی ہوں۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے ذریعے خواجہ سرائوں کو حقوق دلانے میں سرخرو بھی ہوئی۔ لیکن حیران ہوں کہ ’’ٹرانس جینڈر‘‘ کے نام پر یہ لوگ کہاں سے بیچ میں آگئے؟‘‘۔ الماس بوبی کے بقول صاف ظاہر ہے کہ ان کا مقصد خواجہ سرائوں کو حقوق دلانا نہیں، جو پہلے ہی انہیں مل چکے تھے۔ بلکہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنا ہے۔
الماس بوبی کے بقول یہ بھی ملین ڈالر کا سوال ہے کہ جب ایک دہائی قبل سپریم کورٹ کے حکم پر نادرا نے خواجہ سرائوں کے لئے شناختی کارڈ فارم میں ’’مخنث‘‘ کا الگ خانہ بنادیا تھا، تو پھر اس خانے میں ’’مخنث‘‘ کی جگہ ’’ایکس (X)‘‘ کا خانہ کیوں رکھا گیا۔ ان کی دانست میں یہ اس لئے کیا گیا کہ نام نہاد ٹرانس جینڈرز کے لئے یہی اصطلاح مغرب میں بھی استعمال کی جا رہی ہے۔ جو این جی اوز غیر ملکی فنڈز لے رہی ہیں۔ اب وہ ’’ایکس‘‘ کے طور پر جس قدر زیادہ شناختی کارڈ بنواکر مغرب کو شو کرائیں گی۔ ان کے فنڈز میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ شناختی کارڈ فارم میں ’’ایکس‘‘ کا خانہ شامل کرنے سے ’’مخنث‘‘ کہلائے جانے والے حقیقی خواجہ سرائوں کا حق بھی مارا جارہا ہے۔ کیونکہ ’’ایکس‘‘ کے تحت شناختی کارڈ بنواکر ہم جنس پرست اب خواجہ سرائوں کی چھتری کے نیچے آنا چاہتے ہیں۔ الماس بوبی کے بقول نام نہاد ٹرانس افراد کی دلیل ہے کہ کوئی نارمل عورت یا مرد خود کو ایکس یا ٹرانس جینڈر کیوں کہلوائے گا؟ اس پر ان کا جواب ہے کہ یقینا کوئی بھی نارمل عورت یا مرد ایسا نہیں کر رہا۔ بلکہ یہ کام صرف ہم جنس پرستی کے شوقین کر رہے ہیں۔ الماس بوبی کے مطابق کھوکھلی دلیلیں دینے والوں میں سے کسی کے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ خواجہ سرائوں کے لئے شناختی کارڈ فارم میں مختص کئے جانے والے ’’مخنث‘‘ کے خانے کو ’’ایکس‘‘ کے خانے سے کیوں تبدیل کیا گیا؟
الماس بوبی کے مطابق پاکستان میں دو ہزار سترہ میں جب آخری مردم شماری ہوئی تو دس ہزار چار سو افراد کو خواجہ سرا کے طور پر رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔ تب خود کو ٹرانس جینڈر کمیونٹی کہلوانے والے لوگوں میں سے اکثر نے اپنے شناختی کارڈز نہیں بنوائے تھے۔ کیونکہ ان میں سے کافی لوگ شادی شدہ تھے۔ بہت سوں نے ابھی شادیاں کرنی تھیں۔ جبکہ ’’مخنث‘‘ کا خانہ بھر کے شناختی کارڈ بنوانے کی صورت میں ان کی شادیوں پر سوالیہ نشان لگ جاتا۔ تاہم ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ کے نافذ ہونے سے جہاں اب نام نہاد ٹرانس جینڈرز ’’ایکس‘‘ کے طور پر اپنے شناختی کارڈ بنوا رہے ہیں۔ وہیں متعدد ٹرانس جینڈر حتیٰ کہ ماضی میں جنہوں نے ’’مخنث‘‘ کے طور پر اپنے شناختی کارڈ بنوائے تھے۔ وہ بھی اپنی پیدائشی جنس نادرا جاکے تبدیل کرا رہے ہیں۔ یوں ہم جنس پرستوں کی باہمی شادیوں کا راستہ ہموار ہوا ہے۔ کیونکہ ٹرانس جینڈر ایکٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ Self Perceived Identity (اپنے طور پر سمجھی جانے والی شناخت) کے تحت کوئی بھی فرد اگر نادرا جاکر کہتا ہے کہ وہ مرد، عورت یا ایکس کا شناختی کارڈ بنوانا چاہتا ہے تو اس سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ اسی لئے ان کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ میں ترمیم کر کے ایک میڈیکل بورڈ کا قیام ضروری قرار دیا جائے۔ تاکہ اگر کوئی فرد اپنی پیدائشی شناخت یا صنف تبدیل کرانے کا خواہشمند ہے تو اسے طبی عمل سے گزار کر یہ تعین کیا جا سکے کہ واقعی اس کی پیدائشی جنس میں قدرتی طور پر ایسی کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے یا نہیں۔ لیکن اس جائز ترمیم کے خلاف باقاعدہ ایک پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔
اس سوال پر کہ ایسی کوئی مثال ہے کہ کسی ہم جنس پرستی کے شوقین یا خواجہ سرا نے اپنا شناختی کارڈ عورت یا مرد کے طور پر بنوایا ہو؟ الماس بوبی کا کہنا تھا ’’ایسے بہت سے لوگ ہیں۔ جنہوں نے مخنث ہونے کے باوجود صرف عورت یا لڑکی کا شناختی کارڈ بنوالیا ہے۔ ایسے کئی افراد کے شناختی کارڈ خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ میں نے انہیں یہاں تک کہا کہ خدا کا خوف کرو۔ تم نے جب مرنا ہے تو جنازہ مرد کے طور پر ہی پڑھا جائے گا۔ کیونکہ خواجہ سرا کا نماز جنازہ مردانہ ہوتا ہے۔ بہت سوں نے میری بات سے متاثر ہوکر اپنے شناختی کارڈ تبدیل کرالئے اور متعدد ایسے ہیں کہ خواجہ سرا ہونے کے باوجود اب بھی انہوں نے اپنا شناختی کارڈ عورت کے طور پر برقرار رکھا ہے۔ مثلاً ہمارے راولپنڈی میں ایک ثمرن نامی خواجہ سرا نے صرف عورت کے طور پر اپنا شناختی کارڈ بنا رکھا ہے۔ اسی طرح فیصل آباد کا شہزادی نامی خواجہ سرا، عورت کے طور پر پہلے شناختی کارڈ اور بعد میں پاسپورٹ بنواکر سعودی عرب، بحرین اور مختلف ممالک کا دورہ کر چکا ہے۔ پنڈ دادن خان کے خواجہ سرا آرزو نے بھی ٹرانس جینڈر ایکٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عورت کے طور پر اپنا شناختی کارڈ بنا رکھا ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں ہیں۔ اب ایسے مرد خواجہ سرا جن کے پاس عورت کے طور پر شناختی کارڈ ہے۔ وہ کسی بھی نارمل مرد سے شادی کر سکتے ہیں۔ اس نوعیت کے معاملات ابھی چھپ کر ہو رہے ہیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ میں ترمیم نہ ہونے کی صورت میں ایسی شادیاں قانونی طور پر عام ہوجائیں گی۔ میرے علم میں ہے کہ ایسے کئی ہم جنس پرست شادیاں کر کے انگلینڈ، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک چلے گئے ہیں‘‘۔