سید علی حسن:
جھانسا دے کر مسلمان لڑکیوں سے شادی کرنے والا قادیانی ٹولہ سرگرم ہوگیا۔ کراچی کے علاقے ماڈل کالونی میں مسلمان لڑکی سے خود کو مسلمان ظاہر کرکے قادیانی کے نکاح کا کیس سامنے آیا ہے۔ جس پر دفاع ختم نبوت کونسل پاکستان نے قادیانیوں کے خلاف قانونی جنگ شروع کر دی ہے۔ دھوکے سے شادی کرنے والے قادیانی کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ شادی کے ایک سال بعد بنائی گئی سند کا غلط استعمال کرنے پر دارالافتا اہلسنت نے ملزم کی قبول اسلام کی سند کو کالعدم قرار دے دیا۔ ملزم تاحال نکاح سے قبل قبول اسلام کے دستاویزی شواہد پیش کرنے میں ناکام ہے۔ لڑکی کی بازیابی کیلئے والدین دہائیاں دے رہے ہیں۔ والدین نے قادیانیوں کی جانب سے بیٹی پر تشدد کرکے عدالت میں جھوٹا بیان دلوائے جانے کا خدشہ ظاہر کر دیا۔ دفاع ختم نبوت کونسل کے چیئرمین قاری ضیاء اللہ سیالوی نے کہا ہے کہ اس کیس سے قبل بھی دو سے تین کیس ہمارے پاس آچکے ہیں۔ جس میں قادیانیوں نے دھوکے سے مسلم خواتین سے شادی کی۔ زیادہ تر قادیانی مذہبی لوگوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور شعائر اسلام کا استعمال کرکے دھوکا دے رہے ہیں۔ اس وقت ماڈل کالونی قادیانیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔
دفاع ختم نبوت کونسل پاکستان نے قادیانیوں کے خلاف قانونی جنگ شروع کر دی ہے۔ کراچی ماڈل کالونی میں مسلمان لڑکی سے خود کو مسلمان ظاہر کر کے قادیانی کے نکاح کرنے کا کیس سامنے آیا ہے۔ اس کیس میں مدعی و خاتون کے بھائی ممتاز خان کا ساتھ دفاع ختم نبوت کونسل پاکستان دے رہا ہے۔ کیس میں صغیر احمد نامی شخص پر الزام عائد ہے کہ اس نے قادیانی ہونے کے باوجود خود کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمان لڑکی سحرش نواب سے نکاح کیا۔ مقدمہ درج ہونے کے بعد صغیر احمد نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شرقی سے عبوری ضمانت حاصل کی۔ جسے بعد میں عدالت نے منسوخ کر دیا۔ اس کے بعد ملزم کو پولیس نے گرفتار کیا اور تفتیش مکمل کرنے کے بعد عدالت میں پیش کیا۔ جہاں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے ملزم کو عدالتی تحویل جیل بھی دیا ہے اور تفتیشی افسر سے چالان طلب کرلیا ہے۔ ابتدائی طور پر مقدمہ اغوا کا درج ہوا ہے۔ تاہم تفتیش کے بعد پولیس چالان میں مزید دفعات کا اضافی کرتی ہے یا نہیں یہ چند روز میں سامنے آجائے گا۔
’’امت‘‘ کو حاصل دستاویزات کے مطابق 23 ستمبر 2022ء کو مدعی ممتاز خان کی جانب سے تھانہ ماڈل کالونی میں مقدمہ الزام نمبر 239/2022 درج کرایا گیا۔ مدعی مقدمہ نے شکایت درج کراتے ہوئے بتایا کہ ’’میں ماڈل کالونی کا رہائشی ہوں اور پرائیویٹ ملازمت کرتا ہوں۔ میری بہن ملیر کینٹ کے اسکول میں پڑھاتی ہے۔ وہ صبح اسکول گئی جس کے بعد واپس گھر نہیں آئی۔ اس پر اس کے موبائل نمبر پر کال کرتے رہے۔ مگر اس کا نمبر مسلسل بند جارہا تھا۔ اسکول سے معلوم کیا تو بتایا گیا کہ آپ کی بہن کو مسلسل غیر حاضری پر اسکول سے نکال دیا گیا ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ میری بہن کو صغیر احمد والد بشیر احمد نامی شخص بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ لے گیا ہے۔ معلومات حاصل کرنے پر پتہ چلا کہ صغیر احمد غیر مسلم ہے اور اس کے گھر کے باہر قادیانی کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ میرا دعویٰ صغیر احمد کے خلاف میری بہن کو بہلا پھسلا کر اغوا کرکے لے جانے کا ہے۔ لہذا قانونی کارروائی کی جائے۔ بعد ازاں یہ بات سامنے آئی کہ صغیر احمد نے 23 فروری 2021ء کو مسلمان استانی سحرش سے نکاح کیا تھا۔ جبکہ اس نے جو سند پیش کی۔ اس کے مطابق اس نے 29 ستمبر 2022ء کو اسلام قبول کیا۔ دارالافتا اہلسنت کی جانب سے جاری ریفرنس نمبر kan-3578 اور اظہار اسلام کی سند کے مطابق صغیر احمد ولد بشیر احمد نے 29 ستمبر 2022ء کو دارالافتا اہلسنت آکر بلا جبر و اکراہ اپنی رضامندی سے اسلام قبول کرنے کا اظہار کیا اور اپنے سابقہ قادیانی مذہب سے بیزاری کا اقرار بھی کیا۔ تاہم ملزم کی جانب سے مذکورہ سند کو غلط بیانی سے استعال کرنے پر دارالافتا اہلسنت نے سند کو منسوخ کر دیا ہے۔ جس کے مطابق صغیر احمد ولد بشیر احمد کے اظہار اسلام سے متعلق 29 ستمبر 2022ء کو دارالافتا اہلسنت سے جو سند جاری کی گئی۔ وہ ہمارے سامنے اس شخص نے جو اظہار اسلام کیا تھا اس پر جاری کی گئی تھی۔ لہذا اس سند کو اس تاریخ سے قبل اس شخص کے کسی بھی معاملے میں بطور ثبوت و سند ہرگز تسلیم نہ کیا جائے۔ یہ شخص 29 ستمبر 2022ء کو ہمارے پاس آیا تھا۔ ہم اس کے صرف اسی دن کے اظہار اسلام کی گواہی دے سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کس دن یہ شخص مسلمان ہوا۔ اس کے بارے میں ایک دن پہلے کی بھی ہم تصدیق نہیں کرسکتے۔ لہذا جب تک اس شخص کے قبول اسلام کی تاریخ کے دن کے گواہ ہمارے سامنے نہ آئیں۔ ہم اپنی سند کو کالعدم قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ صغیر احمد نے رواں سال 11 مارچ 2022ء کو قادیانی جماعت کو 11 سو روپے فنڈز بھی دیئے ہیں۔ جبکہ الیکشن کمیشن کی حتمی انتخابی فہرست 2022ء میں صغیر احمد کا نام قادیانیوں کی فہرست میں پایا گیا ہے۔ مقدمہ درج ہونے کے بعد صغیر نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شرقی کی عدالت سے عبوری ضمانت حاصل کی تھی۔ جسے 12 اکتوبر کو عدالت نے منسوخ کرتے ہوئے گرفتاری کا حکم دیا۔ ضمانت منسوخ ہونے کے بعد ماڈل کالونی پولیس کی جانب سے صغیر احمد کو گرفتار کیا گیا۔ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے ملزم کو عدالتی تحویل میں جیل بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے تفتیشی افسر سے 26 اکتوبر کو مقدمہ کا چالان بھی طلب کرلیا ہے۔
خاتون سحرش نواب کا ایک ویڈیو بیان بھی سوشل میڈیا پر جاری ہوا ہے۔ جس میں سحرش نواب کا کہنا ہے کہ ’’میں نے اپنی مرضی سے صغیر احمد سے نکاح کیا تھا۔ میرے شوہر صغیر احمد پہلے قادیانی تھے۔ میں نے ان کی تبلیغ کی اور انہیں اسلام کے بارے میں بتایا۔ جس پر شوہر نے اسلام قبول کیا اور اس کے بعد ہم نے 23 فروری 2021ء کو کورٹ میرج کی۔ میرے شوہر نے دارالافتا اہلسنت سے قبول اسلام کی سند بھی لی ہے۔ میرے بھائی نے میرے اغوا کا مقدمہ جو درج کرایا ہے وہ جھوٹا ہے۔ میں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ میرے شوہر نے مقدمہ میں عدالت سے ضمانت لی تھی۔ جس کے بعد سماعت پر پیش ہونے کیلئے عدالت گئے تو کچھ لوگوں نے انہیں عدالت میں پیش نہیں ہونے دیا۔ عدالت میں پیش نہ ہونے پر ان کی ضمانت منسوخ کردی گئی۔ وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے شوہر کو گرفتار کرلیا۔ میرا مطالبہ ہے کہ شوہر کو بازیاب کروایا جائے‘‘۔
ادھر والدین اپنی بیٹی کی بازیابی کیلئے دہائیاں دے رہے ہیں۔ خاتون کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کو قادیانی کی جانب سے اغوا کیا گیا۔ خاتون کی والدہ نے آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا ’’میں بوڑھی اور معذور ہوں۔ میری آنکھوں میں بھی موتیا ہے۔ میری بیٹی کیلئے آواز اٹھائی جائے۔ قادیانی میرے بیٹی کو لیکر گیا۔ میری بیٹی کو بازیاب کروایا جائے۔ اس شخص کو جتنی سزا دی جائے کم ہوگی‘‘۔ والدین نے قادیانیوں کی جانب سے بیٹی پر تشدد کرکے عدالت میں جھوٹا بیان دلوائے جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
اس حوالے سے مدعی مقدمہ کے وکیل اور دفاع ختم نبوت کونسل پاکستان کے قانونی مشیر منظور احمد میو راجپوت نے ’’امت‘‘ کو بتایاکہ ملزم صغیر کے خلاف بہت سے دستاویزی شواہد موجود ہیں۔ پہلا نکاح نامہ کے مطابق 23 فروری 2021ء کو قادیانی ہونے کے باوجود صغیر نے مسلم قوانین کے تحت نکاح کیا۔ اس وقت اس نے اسلام قبول کرنے کے شواہد پیش نہیں کئے۔ دوسری درخواست ضمانت جس کے ساتھ ملزم کو حلف نامہ جمع کرانا ہوتا ہے۔ اس میں بھی اس نے نکاح سے قبل یا نکاح کے وقت اسلام قبول کرنے کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی بتایا کہ وہ کب مسلمان ہوا۔ تیسری اس کی جانب سے قادیانی جماعت خانے کو دیئے گئے چندے کی رسید ہے۔ اگر یہ مسلمان ہے تو اس نے رواں سال مارچ میں قادیانی جماعت کو چندہ کیوں دیا۔ چوتھی الیکشن کمیشن کی لسٹ ہے۔ جس میں وہ قادیانی مردوں کی فہرست میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ بھی مضبوط دستاویزی شواہد موجود ہیں کہ اس نے قادیانی ہونے کے باوجود دھوکے سے مسلم خاتون سے نکاح کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم کو جیل بھیج دیا گیا ہے اور عدالت نے 26 اکتوبر کو تفتیشی افسر سے چالان طلب کیا ہے۔ تفتیش مکمل کرکے چالان عدالت میں پیش کیا جانا ہے اور شواہد کی روشنی میں چالان میں نئی دفعات بھی شامل کئے جانے کی امید ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خاتون کا جو ویڈیو بیان سامنے آیا ہے۔ اس میں اس نے کہا کہ اپنی مرضی سے نکاح کیا ہے۔ مگر اس نے یہ نہیں کہا کہ نکاح کے وقت یا اس سے قبل صغیر نے اسلام قبول کیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ نکاح کے وقت وہ قادیانی ہی تھا۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 کے تحت قادیانی غیر مسلم ہیں اور مسلمان خاتون کی کسی غیر مسلم مرد سے شادی نہیں ہو سکتی۔ ایسے جرم کے مرتکب پر دفعہ 365 کے ساتھ ساتھ 493 اے سیکشن لگتی ہے۔ اس دفعہ کے مطابق پاکستان پینل کورٹ کے تحت کوئی بھی آدمی کسی عورت کو اپنی بیوی کہہ کر اس سے ملتا رہے، جب کہ وہ اس کی بیوی نہ ہو تو اس کے لیے 10 سے 25 سال تک سزا ہے۔ جب صغیر احمد قادیانی ہے تو یہ اپنا نکاح نامہ مسلم فیملی لاء 1961ء کے تحت رجسٹرڈ نہیں کروا سکتا۔
چیئرمین دفاع ختم نبوت کونسل پاکستان قاری محمد ضیاء اللہ سیالوی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہا کہ ماڈل کالونی میں مسلمان لڑکیوں کو محبت کا جھانسا دیکر شادی کرنے والا قادیانی ٹولہ سرگرم ہے۔ حال ہی میں یہ کیس سامنے آیا ہے کہ قادیانی صغیر نے مسلم قوانین کے تحت مسلمان خاتون سے نکاح کیا حالانکہ اس کے پاس ایسے کوئی بھی ثبوت نہیں جس سے ثابت ہو کہ اس نے نکاح سے قبل یا نکاح کے وقت اسلام قبول کیا ہو۔ اس نے قبول اسلام کی جو سند پیش کی اس میں 29 ستمبر 2022ء کو قبول اسلام کی تاریخ موجود ہے۔ جبکہ نکاح اس نے 23 فروری 2021ء میں کیا اور سند اس نے مقدمہ درج ہونے کے بعد حاصل کی۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس نے دھوکہ دہی کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کیس سے قبل بھی دو سے تین کیس ہمارے پاس آچکے ہیں۔ جس میں قادیانیوں نے دھوکے سے مسلم خواتین سے شادی کی۔ مگر ان میں متاثرہ خاندان نے بدنامی کے ڈر سے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ زیادہ تر قادیانی مذہبی لوگوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور شعائر اسلام کا استعمال کرکے دھوکا دے رہے ہیں۔ اس وقت ماڈل کالونی قادیانیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ جہاں ان کے دو جماعت خانے ہیں اور وہ شعائر اسلام کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قادیانیوں سے خطرناک قادیانی نوا ہوتا ہے۔ قادیانیوں کو اس طرح کے جرم کرنے کے بعد قانون سے بچانے میں سابق ایس ایچ او ماڈل کالونی سعادت بٹ نے بہت ساتھ دیا ہے۔ معلومات پر ہمیں پتہ چلا کہ سابق ایس ایچ او ماڈل کالونی سعادت بٹ بھی قادیانی تھا۔ جس کی وجہ سے وہ قادیانیوں کا ساتھ دیتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے قانونی جنگ شروع کر دی ہے اور ملزمان کو سزائیں دلانے تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔