سید علی حسن:
مقتول ناظم جوکھیو کے اہلخانہ پیپلز پارٹی کے وزرا کے دبائو پر قتل میں ملوث رکن صوبائی اسمبلی سمیت 6 ملزمان سے صلح پر مجبور ہوئے۔ مقتول کے بچوں کی ہائر ایجوکیشن تک تعلیم، کھانے پینے اور میڈیکل وغیرہ کے اخراجات کی ادائیگی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ناظم جوکھیو کے اہلخانہ کی جانب سے عدالت میں صلح و حلف نامے جمع کرادیئے گئے ہیں۔ جلد ہی رکن صوبائی اسمبلی سمیت 6 ملزمان کے آزاد ہوجانے کے امکانات ہیں۔ مقتول کے بھائی و مدعی مقدمہ افضل جوکھیو کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اللہ کہ رضا کیلئے معاف کیا۔ ہماری صلح وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، صوبائی وزرا سعید غنی، ساجد جوکھیو اور برادری کے لوگوں نے کرائی۔ کمپرومائز کے دوران ہم نے کسی قسم کے پیسے یا سہولیات کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ بلکہ ان لوگوں نے خود سے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے‘۔ مدعی کے وکیل مظہر علی جونیجو کا کہنا ہے کہ ’صلح کی درخواست پر عدالت میں مقتول کی والدہ کا بیان ریکارڈ ہونا باقی ہے۔ مقتول کی والدہ صلح کیلیے راضی نہیں۔ وہ انصاف چاہتی ہیں۔ اس نوعیت میں کمپرومائز کیلئے جمع کرائی گئی درخواست خارج بھی ہو سکتی ہے اورملزمان پرکیس بھی چلایا جاسکتا ہے‘۔
غیر ملکیوں کو تلور کا شکار کرنے سے روکنے پرقتل ہونے والے ناظم جوکھیو کے اہلخانہ نے بااثر ملزمان سے صلح کرلی۔ 2 نومبر 2021ء کو ناظم جوکھیو کو قتل کیا گیا تھا۔ جس کا مقدمہ 3 نومبر 2021ء کو مقتول کے بھائی افضل جوکھیو کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ ابتدا میں مقتول کے اہلخانہ کی جانب سے قاتلوں کو سزائیں دلانے پر زور دیا گیا اور پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم اور رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کو مرکزی کردار نامزد کیا گیا تھا۔ تاہم بعد میں بااثر ملزمان کے دباؤ پر پہلے مدعی مقدمہ نے ملزمان کو کلین چٹ دی۔ پھر مقتول کی اہلیہ شیرین جوکھیو نے بھی ملزمان کو معاف کرنے کا حلف نامہ جمع کرادیا۔ پولیس کی جانب سے ملزمان کو بچانے کی کوششیں اور تاخیری حربوں کی وجہ سے تاحال مقدمہ کا ٹرائل شروع نہیں ہوسکا ہے۔ جبکہ مقدمہ سیشن عدالت سے دہشت گردی کی عدالت اور اب سیشن عدالت میں زیر سماعت ہے۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر کی عدالت میں صلح نامے مقتول ناظم جوکھیو کی بیوہ شیرین جوکھیو کی جانب سے جمع کرائے گئے۔ صلح نامہ کے فریقین کے مطابق ملزمان کو اللہ کے نام پر معاف کردیا ہے۔ وہ ملزمان کے خلاف کیس نہیں چلانا چاہتے۔ ناظم جوکھیو کے اہلخانہ اور ملزمان کے وکلا کی جانب سے تین درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ حلف نامے بھی جمع کرائے گئے ہیں۔ حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ ’ہم نے 6 ملزمان جام اویس، معراج، سلیم، دودا، سومار اور احمد خان کو معاف کردیا ہے۔ اگر عدالت ان ملزمان کو بری کردے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں‘۔
ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیو کا کہنا تھا کہ ’’حلف نامہ میں کیس سے متعلق تمام حقائق سے آگاہ ہوں۔ میرے چار چھوٹے بچے ہیں۔ عدالت مجھے ان بچوں کا سربراہ مقرر کرے۔ ملزمان اور ہمارے درمیان صلح ہوچکی ہے۔ عدالت صلح نامہ منظور کرتے ہوئے ملزمان کو رہا کرے‘‘۔ مذکورہ درخواستوں پر عدالتی احکامات پر نادرا، متعلقہ مختیار کار اور ایس ایچ او نے اپنی رپورٹس جمع کرادی ہیں۔ جبکہ مدعی مقدمہ افضل جوکھیو اور مقتول کی اہلیہ کے بیانات بھی قلمبند کرلئے گئے ہیں۔ مقتول کی اہلیہ نے اپنے بچوں کیلئے ملزمان سے قصاص اور دیت دلوائے جانے کی استدعا کی ہے۔ ابھی مقتول کی والدہ کا بیان ریکارڈ ہونا باقی ہے۔ جو 28 اکتوبر کی سماعت پر کیا جائے گا۔ جس کے بعد ہی کمپرومائز کی درخواست پر فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔
مدعی مقدمہ و مقتول کے بھائی افضل جوکھیو نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’ملزمان اور ہمارے درمیان کمپرومائز ہوگیا ہے اور ہم نے اللہ کہ رضا کیلئے انہیں معاف کردیا ہے۔ ہماری صلح وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، صوبائی وزرا سعید غنی، ساجد جوکھیو اور برادری کے لوگوں نے کرائی۔ یہ لوگ ہمارے پاس آئے تھے اور صلح کرنے کا کہا تھا۔ کمپرومائز کے دوران ہم نے کسی قسم کے پیسے یا سہولیات کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ بلکہ ان لوگوں نے خود سے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ مقتول کے بچوں کی ہائر ایجوکیشن تک کے تعلیم کے تمام اخراجات، کھانے پینے کے ماہانہ اخراجات اور میڈیکل وغیرہ کے اخراجات ادا کریں گے‘‘۔ ایک سوال پر افضل جوکھیو نے کہا ’’پہلے ہم انصاف چاہتے تھے۔ مگر پھر بعد میں وزرا اور برادری کے بہت کہنے پر صلح کرلی۔ مقتول کی اہلیہ اور میری بھابھی نے بچوں کا سوچ کر کمپرومائز کیا ہے۔ میں نے اور بھابھی نے عدالت میں اپنے بیانات ریکارڈ کرا دیئے ہیں۔ ہم نے بچوں کیلئے ملزمان سے دیت اور قصاص مانگا ہے۔ عدالت میں میری والدہ کا بیان ریکارڈ ہونا باقی ہے۔ اس کے بعد ہی عدالت کمپرومائز کی درخواست پر فیصلہ سنائے گی‘‘۔
مقتول کے اہلخانہ کے وکیل مظہر علی جونیجو ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’مقتول ناظم جوکھیو کے اہلخانہ کی طرف سے کیس میں لڑ رہا تھا۔ اب مجھے کیس کے گواہان میں شامل کرلیا گیا ہے۔ کیونکہ ناظم جوکھیو کے قتل سے قبل اس نے مجھے کال کی تھی اور بتایا تھا کہ اگر مجھے قتل کیا گیا تو میرا قاتل جام عبدالکریم ہوگا۔ اس وجہ سے مجھے گواہوں میں شامل کیا گیا۔ مقتول کے اہلخانہ نے پہلے بھی صلح نامے جمع کرائے تھے۔ جس کی بنیاد پر جام عبدالکریم سمیت دیگر ملزمان کو آزاد کیا گیا۔ جبکہ جام اویس سمیت 6 ملزمان کے خلاف کیس آگے بڑھایا گیا۔ اس وقت میں نے درخواست جمع کرائی تھی کہ اگر ان ملزمان پر جرم ثابت ہوجاتا ہے تو آزاد ہونے والے ملزمان کو بھی نوٹس جاری کرکے بطور ملزمان کیس چلایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جیو فینسنگ اور میرے موبائل کی رپورٹس میں جام عبدالکریم سمیت دیگر ملزمان کے قتل میں ملوث ہونے کی شہادتیں موجود ہیں۔ مجھے اب گواہ بنایا گیا ہے۔ مگر اب بھی ہر سماعت پر اہلخانہ کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتا ہوں۔ اب اہلخانہ کی جانب سے صلح اور حلف نامے جمع کرادیئے گئے ہیں۔ مدعی افضل جوکھیو اور مقتول کی اہلیہ کے بیانات بھی ریکارڈ ہوگئے ہیں۔
مقتول کی اہلیہ نے کہا ہے کہ بچوں کی پرورش کیلئے دیت اور قصاص دی جائے۔ ملزمان سے صلح کے وقت اہلخانہ کی جانب سے پیسوں وغیرہ کسی قسم کی کوئی ڈیمانڈ نہیں کی گئی۔ تاہم ملزمان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ بچوں کی پرورش اور تعلیم کے اخراجات ادا کریں گے۔ اب عدالت پر ہے۔ اگر وہ حکم دے گی کہ ملزمان قصاص اور دیت ادا کریں تو پھر ملزمان ادا کرنے کے پابند ہوں گے‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’ابھی مقتول کی والدہ کا بیان ریکارڈ ہونا باقی ہے۔ مقتول کی والدہ صلح کیلئے راضی نہیں۔ وہ اپنے بیٹے کے قتل کا انصاف چاہتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ شہید اپنا کیس خود لڑ رہا ہے۔ اب والدہ کیس چلانا چاہتی ہیں۔ اس نوعیت میں کمپرومائز کیلئے جمع کرائی گئی درخواست خارج بھی ہوسکتی ہے اور ملزمان پر کیس بھی چلایا جاسکتا ہے‘‘۔
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ اہلخانہ پر صلح کیلئے دباؤ تھا۔ صلح سے 10 دن قبل اہلخانہ کی جانب سے تحفظ فراہمی کی درخواست بھی جمع کرائی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ ان کو خطرہ ہے۔ مگر اس کے باوجود انہیں سیکیورٹی اور تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ جس کے بعد صلح ہوگئی اور حلف نامے جمع کرادیے گئے‘‘۔ ایک اور سوال پران کا کہنا تھا کہ ’’کیس کے مرکزی ملزم جام اویس کو سہولیات دی جارہی ہیں اور وہ میڈیکل کے بہانے اسپتال کے بجائے گھر پر رہ رہا ہے۔ گزشتہ 4 سماعتوں سے اس کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ جبکہ عدالت نے اس کے پروڈکشن آرڈر جاری کردیئے ہیں۔ گزشتہ سماعت پر بھی اسے پیش نہیں کیا گیا۔ سپریٹنڈنٹ خود بھی عدالت میں رپورٹ لیکر پیش نہیں ہوا۔ اس نے گلستان جوہر میں واقع دارالصحت اسپتال کا جھوٹا میڈیکل سرٹیفکیٹ بنواکر کورٹ پولیس اہلکار کے ذریعے عدالت میں جمع کرایا ہے۔ جیل حکام کسی بھی بیمار ملزم کو سرکاری اسپتال داخل کراتے ہیں۔ مگر اس کا میڈیکل سرٹیفکیٹ دارالصحت اسپتال کا کروایا گیا ہے۔ اگر اسپتال انتظامیہ سے پوچھا جائے تو جیل حکام کا سارا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔ کیونکہ جام اویس کو اسپتال میں داخل کیا ہی نہیں گیا ہے‘‘۔