امت رپورٹ:
حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں کھولا گیا بیک ڈور چینل فی الحال بند ہو گیا ہے۔ اس نوعیت کی پس پردہ کوششوں کا سلسلہ اب نئی تقرری کے بعد ہی دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔ جبکہ الیکشن کے معاملے پر کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لانے سے متعلق نواز شریف کے تازہ اعلان نے کپتان کی فرسٹریشن بڑھا دی ہے۔ ایسے میں خان نے مزید ’’خطرے ناک‘‘ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس دوران ایک بار پھر نواز شریف نے واپسی کی تیاریاں کر لی ہیں۔
بیان کردہ ایشوز کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس موسم سرما پر سیاسی گرما گرمی حاوی رہے گی۔ جڑواں شہروں کی خنکی جب باقاعدہ جاڑے میں تبدیل ہو رہی ہوگی تو ایسے میں عمران خان کا لانگ مارچ راولپنڈی میں ڈیرے ڈال رہا ہوگا۔ لانگ مارچ کے نئے شیڈول کے مطابق قافلے کو بیس سے اکیس نومبر تک راولپنڈی پہنچنا ہے، جہاں عمران خان کے بقول وہ لانگ مارچ کی کمان سنبھالنے کے لئے موجود ہوں گے۔ یہ ٹھیک وہ وقت ہوگا، جب اہم تقرری کا اعلان متوقع ہے۔ واقفان حال کے مطابق عمران خان نے لانگ مارچ کے راولپنڈی پہنچنے کا شیڈول اسی اہم تقرری کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا ہے۔ چنانچہ شروع سے ہی قافلے کو دانستہ کچھوے کی چال چلایا جارہا ہے۔ شنید ہے کہ اپنی منفی طرز سیاست کے زیر اثر کپتان نئی تقرری کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرے گا۔ ان ہی تاریخوں میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان آمد متوقع تھی۔ اب اطلاعات ہیں کہ سعودی ولی عہد نے اپنا دورہ پاکستان ملتوی کر دیا ہے۔ نئی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
ذرائع سے ملنے والی خبروں میں دورہ ملتوی کرنے کی ٹھوس وجہ تو بیان نہیں کی گئی، تاہم اس خدشے کا اظہار دو روز پہلے وزیر دفاع خواجہ آصف کر چکے ہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’’عمران خان کے پہلے دھرنے نے چین کے صدر کا دورہ ملتوی کرایا تھا اور اب وہ سعودی ولی عہد کے دورے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں اپنا اقتدار جانے کا اس قدر دکھ ہے کہ پاکستان کا نقصان کرنے سے باز نہیں آرہے۔‘‘ شاید ان کا خدشہ درست ثابت ہورہا ہے۔
ادھر یہ واضح ہونے کے بعد کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے مزید توسیع لینے کی باتیں محض افواہ تھیں اور اب نئے آرمی چیف کی آمد آمد ہے، پی ٹی آئی کی صفوں میں خاصی ہلچل ہے۔ خاص طور پر عمران خان بہت پریشان ہیں جنہوں نے موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں مزید چھ ماہ توسیع کی تجویز دی تھی۔ لیکن پانسہ پلٹ گیا ہے۔ یہ طے ہو چکا کہ نئی تقرری وزیر اعظم شہباز شریف نے ہی کرنی ہے۔ لندن سے آمدہ ان خبروں نے کپتان کی پریشانی بڑھا دی ہے کہ سینئر ترین جنرل اگلا آرمی چیف ہوگا۔ اگرچہ خیال کیا جارہا ہے کہ نئے سپہ سالار کا اعلان بیس سے پچیس نومبر کے درمیان کیا جائے گا، تاہم ایک امکان یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ اعلان اگلے تین چار روز میں کر دیا جائے۔ اس صورت میں عمران خان کے لانگ مارچ کے راولپنڈی پہنچنے پر بنائی گئی حکمت عملی متاثر ہوسکتی ہے کہ تب تک قافلہ زیادہ سے زیادہ گوجرخان تک پہنچا ہوگا۔ دوسری صورت میں لانگ مارچ کی رفتار تیز کرنی پڑ جائے گی۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ واضح ہونے کے ساتھ ہی کہ جنرل باجوہ مزید توسیع نہیں لے رہے، بیک ڈور چینل بھی فی الحال بند ہو گیا ہے۔ قبل ازیں کوشش کی جارہی تھی کہ نئی تقرری سے پہلے عمران خان اور اتحادی پارٹیوں کو کسی طرح میز پر بٹھا دیا جائے۔ تاکہ آئندہ انتخابات سے متعلق کسی ایک تاریخ پر فریقین کا اتفاق ہو جائے، یوں ملک میں سیاسی استحکام لایا جا سکے۔ بیک ڈور چینل کے ذریعے سیاسی معاملات بہتر بنانے کی کوششوں میں صدر مملکت عارف علوی بھی پیش پیش رہے۔ تاہم اب انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ ان کی یہ کوششیں ناکام رہیں۔ لاہور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ انہوں نے کوشش کی کہ مذاکرات ہوں اور انتخابات کا راستہ نکل آئیم لیکن مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے۔ انتخابات کا بھی کوئی حل نہیں نکلا۔
اگرچہ ہفتے کے روز صدر مملکت اور عمران خان کے علاوہ ایک اہم شخصیت کی بیک وقت لاہور میں موجودگی کو لے کر افواہیں چلیں کہ شاید بیک ڈور چینل کے ذریعے حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین پھر مذاکرات کا کوئی دور ہوا ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ فی الحال بیک چینل بات چیت کا باب بند ہو چکا ہے۔ اب نئی اہم تقرری کے بعد ہی یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اتحادی حکومت کسی صورت قبل ازوقت انتخابات کی تاریخ دینے کے موڈ میں نہیں۔ جبکہ عمران خان اس سے کم پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ اور وہ لانگ مارچ کے راولپنڈی پہنچنے پر اپنے پلان کی فائنل حکمت عملی اختیار کرنے کا ذہن بنا چکے ہیں۔ اس دوران سابق وزیراعظم نواز شریف ایک بار پھر پاکستان واپس آنے کا پروگرام ترتیب دے چکے ہیں۔ نون لیگ برطانیہ کے صدر زبیر گل کا دعویٰ ہے کہ سابق وزیراعظم نے واپسی کے لیے تیئس دسمبر کی ٹکٹ بک کرا لی ہے۔ اگر نواز شریف کی دسمبر کے آخر میں واپسی ہو جاتی ہے تو پاکستانی سیاست میں موجود گرما گرمی مزید بڑھ جائے گی۔