عمران خان:
سندھ کی تاریخ میں چِنکارا ہرنوں کا غیر قانونی شکار کرنے کے سنگین مقدمہ میں نامزد ملزمان پر تاریخ میں پہلی بار بھاری جرمانہ عائد کردیا گیا ہے۔ جبکہ اسی آڑ میں اس مقدمہ میں نامزد با اثر ملزمان کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیئے گئے۔ سندھ کی کیرتھر پہاڑیوں کے دامن میں خوبصورتی کا باعث یہ چِنکارا ہرن انتہائی نایاب اور قیمتی جانور ہے۔ سندھ کی جنگلی حیات کے ایکو سسٹم یعنی لائف سائیکل میں اس کا اہم کردار ہے۔ بے دریغ شکار نے اس کی نسل کو معدومی کے قریب لا کھڑا کیا ہے۔ اس کے باجود سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ اس کے غیر قانونی شکار کے انسداد میں ناکام ہے ۔
واضح رہے کہ رواں سال جولائی میں 7 چنکارا ہرن اور ایک خرگوش کا غیر قانونی شکار کرنے والوں سے محکمہ وائلڈ لائف سندھ نے پاکستانی تاریخ میں پہلی بار 27 لاکھ روپے کا بھاری جرمانہ وصول کیا۔ جولائی میں ملزمان نے تھرپارکر کے ایک گائوں کے قریب یہ شکار کیا تھا، جس پر مقامی لوگوں نے اسی وقت 3 افراد کو پکڑ کر محکمہ جنگلی حیات کے حوالے کیا تھا۔ سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ نے جنگلی حیات کو نقصان پہنچانے والے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ شکار کیے گئے ہرنوں میں 4 نر اور 3 مادہ تھیں۔
موصول دستاویزات کے مطابق مقدمہ کا پس منظر کچھ یہ تھا کہ جولائی میں محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے سیکریٹریٹ سے ڈاکٹر بدر جمال مہندرو کی جانب سے ایک مراسلہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ریاض احمد رند ڈپٹی کنرویٹر میرپور خاص، عبدالغور سرہندی گیم آفیسر تھرپارکر اور بسیرو خاصخیلی گیم واچر میرپور خاص کو فوری طور پر معطل کرکے انہیں ہیڈ کوارٹر رپورٹ کرنے کی ہدایات جار ی کی گئی ہیں۔ جبکہ ان کی جگہ محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ کے ڈپٹی کنزرویٹر لاڑکانہ میر اعجاز تالپور کو میرپور خاص کے ڈپٹی کنزرویٹر کا اضافی چارج دیا گیا۔ مراسلے میں میر اعجاز تالپور کے لئے مزید ہدایات جاری کی گئی کہ وہ معطل ہونے والے افسران اور غیر قانونی شکار کے واقعہ کے حوالے سے انکوائری کرکے مکمل حقائق کے ساتھ رپورٹ آئندہ 10 دنوں میں ارسال کردیں۔
اس ضمن میں ڈپٹی کنزرویٹر میر اعجاز تالپور کی جانب سے واقعہ کی ابتدائی رپورٹ تیار کرکے حکام کو ارسال کردی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ واقعہ کے بعد کی جانے والی کارروائی میں شکاریوں کی ایک جیپ، شکاری بندوق کے ساتھ 7 عدد مردہ نایاب ہرن اور ایک عدد نایاب بڑی جسامت والا سیاہ خرگوش بر آمد کیا گیا۔ جبکہ اسی رپورٹ میں شکاری ملزمان کے حوالے سے جو تفصیلات فراہم کی گئیں، ان کے مطابق ان میں عمر کوٹ کا وڈیرہ علی احمد ولد سائیں بخش منگریو، ضلع تھرپار کر تحصیل چھاچھرو کا وڈیرہ عبدالغنی ولد کانبو خان نوہری، ضلع عمر کوٹ کا بزنس مین سلیم باری ولد علی محمد آرائیں، تحصل چھاچھرو کا وڈیرہ سلیم ولد امام بخش نوہری اور چھاچھرو نوہری برادری سے تعلق رکھنے والا محمد حسن ولد محمد عثمان جو تھر کول اتھارٹی میں ڈرائیور ہے، شامل تھے۔
دستیاب معلومات کے مطابق مارکیٹ میں اس وقت چنکارا ہرن کی جوڑے کی قیمت ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے، جس کی وجہ سے اس جانور کا بے دریغ شکار کیا جا رہا ہے اور اس کو غیر قانونی طور پر پکڑا جا رہا ہے۔ متعلقہ محکمہ کی ایک اور بد عنوانی کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے کہ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے بعض افسران بالا مشیروں اور وزیروں کو خوش کرنے کے لئے یا ان کو تحفے دینے کے لئے ذاتی طور پر مقامی لوگوں اور عملے کی ملی بھگت سے چنکارا ہرن منگواتے ہیں اور ان کو تحفے میں دیئے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کی نسل معدوم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یعنی محافظ ہی اس کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ اس جانور کو بچانے کے لئے رینجرز بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے، چونکہ رینجرز کی چیک پوسٹیں بھارت کے ساتھ سرحدی علاقوں پر ہیں۔ ان علاقوں میں آتے جاتے چنکارا ہرن، شکاریوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں اور یہ ان کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ چونکہ ان دور دراز علاقوں تک محکمہ وائلڈ لائف کی پہنچ نہیں ہے، اس لئے ان کو اطلاع نہیں مل پاتی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض افسران نگر پارکر، رن آف کچھ، عمر کوٹ سے چنکارا ہرن کو پکڑ کر لے آتے ہیں اور محکمہ وائلڈ لائف سے ان کا لائسنس بنوالیتے ہیں۔ تاہم اس میں بھی محکمے کی غفلت شامل ہے، کیونکہ لائسنس جاری کرتے ہوئے ان سے اتنا پوچھنے کی توفیق نہیں کی جاتی ہے کہ آپ یہ ہرن کہاں سے لائے ہیں؟
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کوچنکارا کی نسل کو بچانا ہے تو لائسنس کے اجرا پر مکمل پابندی عائد کرنی ہوگی اور جو بنوائے، اس سے مکمل پوچھ گچھ کی جائے۔ کیونکہ برسوں سے محکمہ وائلڈ، ہرن کا لائسنس چند روپے کے ریونیو کے لئے جاری کرتا ہوا آرہا ہے۔ لیکن جو شخص لائسنس بنوا رہا ہوتا ہے اس سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ تمہارے پاس ہرن کہاں سے آیا؟ اس وقت چنکارا ہرن کے شکار پر قانونی طور پر پابندی ہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اس کو گھر میں پالنا چاہے تو اس کو بھی محکمہ وائلڈ لائف سے اجازت نامہ یعنی لائسنس حاصل کرنا پڑتا ہے۔ جس کے لئے 2 پاسپورٹ سائز تصویریں اور قومی شناختی کارڈ کی شرط اور ایک ہزار روپے مقرر ہیں۔ اس کے علاوہ چنکارا ہرن کے جوڑے کے حصول سے متعلق جانچ پڑتال محکمانہ کارروائی ہے۔ ذرائع کے مطابق ہر سال پورے سندھ سے 100سے 150 چنکارا جوڑوں کے لائسنس جاری کئے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سال میں 200 ہرن فروخت ہو جاتے ہیں یا غیر قانونی طور پر اسمگل ہوتے ہیں۔ وزیروں اور مشیروں کو نذرانے کے طور پر دیئے جانے والے ہرنوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ اوسطاً محکمہ وائلڈ لائف 300 کی تعداد میں ہرن خرد برد کر دیتا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے جو اعداد و شمار سامنے آتے ہیں، وہ المناک ہیں۔ یعنی ہر سال سندھ سے 300 کے قریب ہرن کم ہو رہے ہیں۔ اس سے خدشہ ہے کہ جلد ہی چنکارا ہرن موجود نہیں ہوںگے۔ صرف ایک ہزار روپے کا لائسنس اور سالانہ ڈیڑھ لاکھ روپے ریونیو حاصل کرنے کے لئے انمول جانور کی نسل کو خطرات میں ڈالا جا رہا ہے جو صوبائی حکومت اور ہر شہری کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ سندھ وائلڈ لائف آرڈیننس 1972 کی امینڈمینٹ 2001 کے تحت اس کے غیر قانونی شکار پر ایک سے ڈیڑ ھ لاکھ روپے جرمانہ اور ایک سال تک کی قید کی سزا مقرر ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے غیر قانونی شکار کے حوالے سے آرڈیننس کو پاس ہوئے تقریباً 13 سال ہو گئے ہیں۔ لیکن آج تک نہ تو کسی بھی شکاری پر جرمانہ کیا گیا ہے اور نہ ہی سزا دی گئی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان 20 سے 25 برسوں کے دوران کسی نے اس قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ہوگی۔ یہ بات ڈپارٹمنٹ کے اعلیٰ افسران اور ڈپارٹمنٹ کے دیگر عملے کے شکاریوں کے ساتھ ملوث ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔ جبکہ پڑوسی ملک میں بھارت میں اس کی بقا کے لئے سر توڑ محنت کر کے اسے ناپید ہونے سے بچا لیا گیا ہے۔ اور اس وقت ہزاروں کی تعداد میں بھارت کے مختلف علاقوں میں ہزاروں چنکارا ہرن پائے جاتے ہیں۔ تاہم سندھ میں جو صورتحال چل رہی ہے اس سے خدشہ ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں چنکارا ہرن کو شاید صرف تصویروں میں ہی دیکھ سکیں گی۔ اگر صرف لائسنس جاری کر کے ریونیو کمانے کے بجائے غیر قانونی شکار اور اسمگلنگ پر ہی جرمانے لگانے شروع کردیئے جائیں تو محکمہ وائلڈ لائف اس سے کہیں زیادہ رقم حاصل کر سکتا ہے۔
اس حوالے سے جب محکمہ وائلڈ لائف سندھ کے کنزرویٹر حسین بخش بھگت سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ، چنکارا ہرن کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سندھ میں جہاں جہاں چنکارا ہرن پائے جاتے ہیں، ان علاقوں کو صوبائی حکومت کی جانب سے محفوظ علاقے ’’پروٹیکٹیڈ ایریاز‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یعنی ان علاقوں میں اس کے شکار اور پکڑے پر پابندی عائد ہے۔ ان میں کیرتھر نیشنل پارک، تھر پار کر، نارا ڈیزرٹ شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس کے غیر قانونی شکار پر جرمانے بھی بڑھا دیئے ہیں۔
واضح رہے کہ جن علاقوں میں چنکارا ہرن کی کثرت پائی جاتی تھی اب وہاں یہ جانور نایاب ہے۔ اور جن علاقوں میں یہ جانور موجود نہیں تھا، وہاں اس کی افزائش نسل کر کے اور منصوبہ بندی کے ذریعے اس کی کثیر تعدادپید کر لی گئی ہے۔ اس کی ایک مثال کچھ اس طرح سے ہے کہ سندھ اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں اس جانورکی کثیر تعداد ہزاروں سال سے موجود تھی۔ جبکہ خلیجی ممالک یعنی متحدہ عرب امارات وغیرہ میں یہ جانور ناپید تھا۔ اس لئے عرب شیوخ یہاں پر اس جانور کا شکار کرنے آیا کرتے تھے۔ گزشتہ کچھ دہائیوں سے یہ صورتحال بھی دیکھنے میں آئی کہ ایک عرب شیخ نے پاکستانی حکومت کو اپنے فارم میں افزائش نسل کئے ہوئے 300 چنکارا ہرن تحفے میں دیئے جن کو چولستان کے صحرا میں آزاد چھوڑ دیا گیا۔ یہ انہی چنکارا ہرن کی نسل میں سے تھے جو یہ عرب شیخ ایک دہائی قبل پاکستان سے لے گیا تھا اور بعد ازاں اس نے اس جانور کی اپنی فارم میں بہترین افزائش نسل کر کے ان کی تعداد میں بے پناہ اضافہ کر لیا تھا۔
چنکارا ہرن ہزاروں سال سے پاکستان، بھارت، ایران اور بنگلہ دیش کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ اندرون سندھ کے صحرائی اور پتھریلی علاقوں اور بلوچستان میں سبی رینج جبکہ پنجاب میں چولستا ن کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ہزاروں سال سے اس کا معمول ہے کہ یہ سرحدو ں سے بے نیاز بھارتی علاقوں سے پاکستانی علاقوں سے اور پھر سندھ سے ہوتا ہوا بلوچستان کے پتھریلے علاقوں سے ایران کے صحرائی اور پتھریلے علاقوں کی طرف جاتا رہا ہے۔ صرف کچھ دہائیوں قبل تک بھی بھارتی راجستان، پنجاب کے چولستان اور سندھ کے علاقوں نگر پارکر، تھر پارکر، رن آف کچھ، خیر پور، نواب شاہ، نارا، کیرتھر اور عمر کوٹ وغیرہ میں دیکھنے والوں کو چنکارا ہرن دکھائی دیتے تھے۔ تاہم اب گھنٹوں تک تلاش میں رہنے کے باجود سندھ کے ان علاقوں میں دیکھنے والے کو چنکارا ہرن دکھائی نہیں دیتے۔ چنکارا ہرن کا قد کھڑی پوزیشن میں 65 سینٹی میٹر اور وزن تقریباً 23کلو گرام ہوتا ہے۔ اس کا رنگ خاکی برائون ہوتا ہے۔ نر کے سینگوں کی لمبائی زیادہ سے زیادہ تقریباً 35 سے 40 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے اور کم سے کم 25 سے 30 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ مادہ ہرن سال میں ایک سے دو بچے دیتی ہے۔ اس کی بلوغت کی عمر دو سال میں ہو جاتی ہے۔ مون سون کے سیزن میں نر اور مادہ افزائش نسل کرتے ہیں۔ یہ 4 سے 5 یا زیادہ سے زیادہ 8 سے 10 کے گروپ میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ چنکارا ہرن فطری طور پر زیادہ شور شرابہ پسندنہیں کرتے ہیں، اسی لئے صرف ان کے گروپ میں ایک ہی خاندان کے جانور شامل ہوتے ہیں۔ اسی لئے انسانی آبادی سے زیادہ سے زیادہ دور رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے جنگلی شکاری جانوروں میں ایشیائی چیتا، بھیڑیا، لگڑ بھگڑ، سیاہ گوش، ڈیزرٹ کیٹ، جنگل کیٹ اور لومڑی وغیرہ شامل ہیں۔
جب تقسیم ہند ہوئی تو اس سے چنکارا کا معمول بھی متاثر ہوگیا۔ آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی آبادیوں نے بھی اس کو محدود ہونے پر مجبور کردیا۔ تاہم اس کو شدید خطرات اس وقت لاحق ہوئے جب اس کا بے دریغ شکار شروع کیا گیا اور اس کی اسمگلنگ شروع کی گئی۔ 1985ء تک یہ سلسلہ عروج پر رہا، جس کے نتیجے میں اس خوبصورت اور معصوم جانور کی تعداد تیزی سے کم ہوتی چلی گئی۔ خطرے کا اندازہ اس وقت ایک غیر سرکاری تنظیم کے سروے سے ہوا جس میں بتایا گیا تھا کہ چنکارا کی نسل خطرے سے دوچار ہے اور تجاویز دی گئی تھیں کہ اس کی بقا کے لئے حکومت کو فوری طور پر اقدامات کرنے پڑیں گے۔ جس کے بعد حکومت سندھ کی ہدایت پر محکمہ وائلڈ لائف نے اس کی نسل کے تحفظ کیلئے ایک منصوبے کا آغاز کر دیا جس میں دو سینٹر ایسے بنائے گئے جہاں پر چنکارا کی افزائش نسل کی جانی تھی۔ ان میں سے ایک سینٹر کھار ملیر میں اور دوسرا حب ڈیم کے قریب کیرتھر پارک بنایا گیا۔ 1984ء سے 1999ء تک پروجیکٹ مناسب انداز میں چلتا رہا۔ تاہم اس کے بعد محکمے کے متعلقہ فیلڈ افسر نے اپنی توجہ اس پرجیکٹ پر کم کردی اور اس غفلت کے باعث پروجیکٹ ناکام ہوتا چلا گیا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ 1999ء تک اس پروجیکٹ میں چنکارا ہرن کی تعداد 80 سے 90 کے درمیان تھی۔ لیکن اب یہ تعداد 25سے بھی کم ہوگئی ہے۔
حالیہ واقعہ کے حوالے سے ’’امت‘‘ کو وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر نے بتایا کہ چند روز قبل سندھ کے علاقے میں محفوظ قرار دی جانے والی چنکارا وائلڈ لائف سینچری میں قیمتی اور نایاب ترین ہرنوں کے شکار کا واقعہ پیش آیا۔ جس میں کھلے عام ہرنوں کو شکار کیا گیا۔ اس واقعے سے متعلق وڈیوز اور تصاویر تحریری تفصیلات کے ساتھ منظر عام پر آئیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے بعض کرپٹ افسران ان ہرنوں کو شکاریوں سے بچانے کے لئے نہیں پہنچے۔ بعد ازاں اس معاملے کو جنگلی حیات اور ماحولیات کے تحفظ کے پیش نظر سندھ ہائی کورٹ میں بھی اٹھایا گیا، جہاں سے ملوث شکاریوں اور سہولت کار افسران کے خلاف سخت اور غیر جانبدار کارروائی کے احکامات جاری کردیئے گئے۔
ذرائع کے بقول حیرت انگیز طور پر اس قدر واضح حقائق سامنے آنے کے باجود ملزمان کو گرفت میں نہیں لایا جاسکا۔ جبکہ ملوث افسران کو بھی صرف معطل کرنے پر اکتفا کیا گیا۔ اس ضمن میں محکمہ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ جب بھی سندھ کے با اثر وڈیرے، وزیر، مشیر اور ارکان اسمبلی اپنے لئے یا اپنے خاص مہمانوں کی تواضع کے لئے شکار کے پروگرام بناتے ہیں تو ہرن، تیتر، بٹیر، مہمان سائبیرین پرندوں کے علاوہ خرگوش کثیر تعداد میں مار دیئے جاتے ہیں۔ اس کھیل کو کامیاب بنانے کے لئے علاقائی گیم آفیسر، گیم واچر یا ڈپٹی کنزرویٹر کو صرف اطلاع دی جاتی ہے۔ تاکہ وہ دو ر ہی رہیں، بلکہ سہولت کاری فراہم کریں۔ جبکہ اصل معاملات پہلے سے ہی کراچی میں قائم محکمہ تحفظ جنگلی حیات و جنگلات کے کنزرویٹر آفس، سیکریٹری آفس اور منسٹر آفس سے طے کروا لیے جاتے ہیں۔