سید علی حسن:
نادرا کے ستائے شہریوں کیلئے عدالتیں ریلیف کا ذریعہ بن گئیں۔ نادرا دفاتر کے دھکے کھانے کے بعد عدالتی حکم سے یتیم اور معذور افراد سمیت درجنوں شہریوں کے شناختی کارڈ اور ب فارم بن چکے۔ قومی شناختی کارڈ جاری نہ ہونے سے شہریوں کو ملازمتوں، بچوں کی تعلیم، ان کے ب فارم، سفر، بینک اکاؤنٹس کھلوانے اور دیگر دستاویزات بنوانے سمیت کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ متعدد بار نادرا سے رجوع کرنے پر شہریوں کو عدالت سے حکم نامہ لانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اب بھی 60 سے زائد درخواستیں سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ جبکہ وکیل سمیت دیگر اخراجات کی وجہ سے کئی شہری عدالتوں سے رجوع بھی نہیں کر پاتے۔
نادرا کے سخت قوانین کے سبب سینکڑوں شہریوں کو قومی شناختی کارڈ جاری نہ ہونے سے ملازمتوں، تعلیم، سفر، بینک اکاؤنٹس کھلوانے، بچوں کے ب فارم اور دیگر دستاویزات بنوانے سمیت کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں عام شہریوں کے علاوہ یتیم اور معذور افراد سمیت خواتین بھی شامل ہیں۔ نادرا سے متعدد بار رجوع کرنے کے باوجود انہیں قومی شناختی کارڈ جاری، تجدید یا ان بلاک کرکے نہیں دیا جاتا۔ اکثر شہریوں نے عدالتوں میں یہی مؤقف اختیار کیا ہے کہ نادرا حکام کئی بار دھکے کھانے کے بعد آخر میں کہتے ہیں کہ متعلقہ عدالت سے رجوع کرو اور آرڈر لے کر آؤ۔ کئی شہری عدالتوں سے رجوع کرنے کیلئے آنے والے اخراجات کی وجہ سے بھی اپنے کیس داخل نہیں کر پاتے۔ کیونکہ کیس داخل کرنے کیلئے سب سے پہلے وکیل کرنا ہوتا ہے۔ جس کی فیس 50 ہزار سے60 ہزار روپے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سماعت کے موقع پر سفر سمیت دیگر اخراجات آتے ہیں۔ عدالتوں میں نادرا کے خلاف جو کیسز آئے ہیں ان میں شہریوں کو قومی شناختی کارڈ جاری نہ ہونے، شناختی کارڈ بغیر وجہ بتائے بلاک کرنے، شناختی کارڈ کی تجدید نہ کرنے، ب فارم جاری نہ کرنے اور ناموں کی درستگی کی شکایات ہیں۔ اس وقت 60 سے زائد درخواستیں سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ ’’امت‘‘ کو حاصل معلومات کے مطابق رواں برس گزشتہ 7 ماہ کے دوران قومی شناختی کارڈ، ب فارم اور ڈومیسائل جاری کرانے کیلئے عدالت سے رجوع کرنے والے 50 سے زائد شہریوں کی درخواستوں پر فیصلے سنائے گئے۔ ان میں محمد منیر، فاطمہ ظہور، سلمیٰ بی بی، شائشتہ، نور عالم، نور نہار، محمد دادو، محمد حفیظ، سلمیٰ، پروین اختر، محمد احسن، محمد قاسم، زیبا تبسم، فرحانہ قادر، فوزیہ اشرف اللہ، نبیہ علی، عابد حسین، محمد عدیل، کیشور بی بی، مجیب الرحمن، مجیب الحق، محمد صابر، مناہل ناز، نجمہ خاتون، محمد عبدالرؤف، فاطمہ جلال، فہیم خان، نسرین اختر، فرحانہ، غلام قاسم، ذاکر حسین، عائشہ بیگم، سمیرہ ذاکر، محمد عزیز، مومن خان، مہرالنسا، فرحانہ عمر، عجب خان، عنایت اللہ، نور زمان، شکور، نعمت اللہ، سلیم میاں، ہما اعجاز، محمد سلمان، محمد عبداللہ، علینہ ارسلان، عبدالوحید سمیت دیگر شامل ہیں۔
ریکارڈ کے مطابق 24 سالہ یتیم طالبعلم کو عدالتی احکامات کے بعد قومی شناختی کارڈ جاری کیا گیا۔ اس سے قبل نادرا نے والدین کو ساتھ لانے کی شرط رکھ کر اسے شناختی کارڈ جاری کرنے سے انکار کیا تو مجبوراً 24 سالہ محمد احسن ولد پرویز عالم نے سندھ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست جمع کرائی۔ جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ درخواست گزار اورنگی ٹاؤن داتا نگری کا رہائشی ہے۔ قومی شناختی کارڈ کے حصول کیلئے نادرا سے رجوع کرتے وقت نادرا فارم، انگوٹھے کے نشان، دستخط اور اپنا ڈیٹا بھی جمع کرایا تھا۔ مگر نادرا حکام نے قومی شناختی کارڈ جاری کرنے سے انکار کردیا اور والدین کو ساتھ لانے کی ہدایت کی۔ تاہم درخواست گزار اپنے والدین کو نادرا کے پاس پیش نہیں کرسکتا۔ کیونکہ والد نے والدہ کو زبانی طور پر طلاق دے دی تھی اور وہ الگ ہوگیا تھا۔ والد انتقال کرچکے۔ جبکہ والدہ بھی طلاق کے بعد الگ ہوگئی تھیں۔ وہ اب کہاں ہیں اس کا کوئی علم نہیں۔ درخواست گزار کو قومی شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ طالب علم ہے اور تعلیم حاصل کر رہا ہے جس کے حصول میں بھی قومی شناختی کارڈ نہ ہونے سے مسائل درپیش ہیں۔ درخواست گزار نے ثبوت کے طور پر والد اور والدہ کے قومی شناختی کارڈ، حکومت کی جانب سے جاری کردہ برتھ سرٹیفکیٹ، قانونی ورثا کے حلف نامے جمع کرائے تھے۔ جس کے بعد نادرا نے قومی شناختی کارڈ کیلئے ٹوکن بھی جاری کیا تھا۔ مگر بعد میں قومی شناختی کارڈ جاری کرنے سے منع کردیا گیا۔ درخواست گزار کے پاس اب عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔
31 سالہ معذور خاتون کو بھی سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے پر ریلیف ملا۔ سندھ ہائی کورٹ نے فریقین کا موقف سننے کے بعد معذور روبینہ کو قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کا حکم دیا۔ اس سے پہلے وہ قومی شناختی کارڈ کے حصول کیلئے 4 سال دھکے کھاتی رہیں۔ 31 سالہ معذور خاتون روبینہ نے سندھ ہائی کورٹ کو دی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ درخواست گزار نے نادرا سے رجوع کرتے وقت نادرا فارم، انگوٹھے کے نشان، دستخط اور اپنا ڈیٹا بھی جمع کرایا تھا۔ مگر نادرا حکام نے قومی شناختی کارڈ جاری کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ اپنے والدین کو ساتھ لیکر آئیں۔ جو وہ نہیں کر سکتی۔ کیونکہ اس کے والد نے والدہ کو طلاق دے رکھی ہے اور وہ دستاویزات کے حوالے سے کوئی تعاون نہیں کر رہے۔ جبکہ درخواست گزار نے نادرا کے پاس تمام مطلوبہ دستاویزات جمع کرائیں اور کئی بار رجوع کیا۔ مگر ہر بار قومی شناختی کارڈ جاری کرنے سے انکار کردیا گیا۔ درخواست گزار معذور ہے اور قومی شناختی کارڈ نہ ہونے سے اس کو روز مرہ کے معاملات میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ استدعا ہے کہ نادرا کو درخواست گزار کا قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کی ہدایت دی جائے۔
14 سالہ یتیم بچی بھی نادرا کے خلاف قانونی جنگ جیتنے میں کامیاب ہوئی اور عدالتی احکامات پر اسے ب فارم جاری کردیا گیا۔ اس نے تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچنے کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ یتیم بچی ماہم رحمن نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ وہ یتیم ہے اور شتہ داروں کے پاس رہتی ہے۔ وہ 3 ماہ کی تھی جب والد کا انتقال ہوگیا۔ 3 سال بعد والدہ بھی خالق حقیقی سے جا ملیں۔ والدین کے انتقال کے بعد رشتہ دار اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ ماہم مدرسہ تفہیم القرآن اسکول میں پڑھ رہی ہے۔ وہ ہونہار طالب علم اور پوزیشن ہولڈر ہے۔ اس نے 2019ء میں آٹھویں جماعت پاس کی اور اسکول میں نویں جماعت میں داخلہ لیا۔ ماہم اپنی تعلیم بنا کسی تاخیر کے مزید جاری رکھنا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ ماہم مختلف گھروں میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہے۔ تاکہ اپنے تعلیم سمیت دیگر اخراجات برداشت کرسکے۔ بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کی انرولمنٹ جاری کرنے کی پالیسی کے مطابق طالبعلم کے پاس قومی شناختی کارڈ ہونا لازم ہے۔ اگر طالب علم کی عمر 18 سال یا اس سے کم ہے تو ب فارم ہونا لازمی ہے۔ ماہم کی جانب سے کئی مرتبہ نادرا سے ب فارم کیلئے رابطہ کیا گیا۔ مگر نادرا نے کسی قسم کا نہ تو تعاون کیا اور نہ ہی ب فارم بنا کر دیا۔ اسے مشورہ دیا گیا کہ اس معاملے میں متعلقہ عدالت سے رجوع کرو۔ لہذا عدالت نادرا کو ب فارم جاری کرنے کا بھی حکم دے۔ اور ایجوکیشن بورڈ کو ہدایت دی جائے کہ وہ بغیر ب فارم کے اسے امتحان دینے کی اجازت دے۔ مذکورہ درخواست پر سندھ ہائیکورٹ ماہم کو (خالہ) گارجین کے شناختی کارڈ پر دس روز میں ب فارم جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔
گلشن اقبال کے رہائشی محمد علیم ولد محمد لطیف نے بھی قومی شناختی کارڈ جاری نہ کرنے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ قومی شناختی کارڈ کے حصول کیلئے نادرا سے رجوع کیا تھا۔ جس پر 18 اکتوبر 2002ء کو اسے قومی شناختی کارڈ نمبر 42101-1659973-9 جاری کیا گیا۔ بعد ازاں درخواست گزار کی شادی شبانہ خانم سے ہوئی۔ اس کے بعد نادرا نے درخواست گزار کا قومی شناختی کارڈ بلاک کردیا۔ مگر اس کی کوئی خاطر خواہ وجہ نہ بتائی گئی۔ نادرا نہ ہی درخواست گزار کا قومی شناختی کارڈ ان بلاک کر رہا ہے اور نہ نیا شناختی کارڈ جاری کر رہا ہے۔ تمام ضروری دستاویزات نادرا میں جمع کرائی گئیں۔ جس پر نادرا نے بتایا کہ تمہاری فیملی ٹری ریکارڈ میں ظاہر نہیں ہو رہی۔ حالانکہ درخواست گزار کے بہن بھائیوں سمیت تمام اہلخانہ کو قومی شناختی کارڈ جاری کیے گئے ہیں۔ درخواست گزار کی جانب سے قومی شناختی کارڈ کیلئے کئی بار نادرا دفاتر سے رجوع کیا گیا اور تمام ضروری دستاویزات بھی جمع کرائیں۔ مگر کچھ نہیں ہوا۔ قومی شناختی کارڈ نہ ہونے سے درخواست گزار کو روزمرہ کے کاموں میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔ جبکہ بچوں کا تعلیمی مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے۔ لہذا استدعا ہے کہ نادرا کو درخواست گزار کا قومی شناختی کارڈ ان بلاک کرکے نیا قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کا حکم دیا جائے۔
لیاری کے 21 سالہ نوجوان صفوان احمد نے بھی سندھ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست جمع کرا رکھی ہے۔ جس میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ قومی شناختی کارڈ کے حصول کیلئے نادرا سے رجوع کرتے وقت نادرا پالیسی کے مطابق تمام مطلوبہ دستاویزات جمع کرائی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ انگوٹھے کے نشانات، ب فارم، پاسپورٹ اور ان پر درج نمبر 42301-0720252-5 جو نادرا نے جاری کیا تھا، جمع کرائے گئے تھے۔ تاہم بعد میں نادرا نے والد کا قومی شناختی کارڈ بلاک کردیا اور میرا شناختی کارڈ جاری نہیں کیا۔ نادرا سے وجوہات معلوم کرنے کی کوشش کی تو کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ قومی شناختی کارڈ نہ ہونے سے درخواست گزار اور اس کے اہلخانہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ متعدد بار نادرا دفتر کے چکر لگانے پر درخواست گزار کو متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ درخواست گزار کی نادرا سے تمام تر امیدیں ٹوٹ چکی ہیں اور اب عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں رہا۔ لہذا استدعا ہے کہ نادرا کو بغیر کسی تاخیر کے درخواست گزار کا قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کا حکم دیا جائے۔