اقبال اعوان:
فیض آباد میں 26 نومبر کو تحریک انصاف کے ممکنہ دھرنے کے لیے کراچی سمیت سندھ بھر سے کارکنان لے جانا، پی ٹی آئی رہنمائوں کے لیے کٹھن چینلج بن گیا ہے۔ علاقائی رہنما ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ جبکہ کارکنوں کا کہنا ہے کہ کرایہ، رہائش، کھانے کے اخراجات کہاں سے پورے کریں۔ پارٹی کی جانب سے اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ اپنے خرچے پر جائیں۔ کراچی سے سکھر کے لیے قافلہ آج جمعرات کی شب روانہ ہو گا اور اگلے روز سکھر سے راولپنڈی کے لیے نکلے گا۔ واضح رہے کہ لانگ مارچ کے خاتمے اور 26 نومبر کو دوبارہ پنڈی سے دھرنے کے آغاز کے اعلان کے دوران کراچی تحریک انصاف کے رہنمائوں نے عمران خان سے ملاقات کی تھی اور عمران خان نے کہا تھا کہ صحت یاب ہوکر کراچی سمیت سندھ بھر کا دورہ کروں گا۔ جبکہ رہنمائوں نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی سے سکھر تک قافلے میں بڑی تعداد میں لوگ آئیں گے۔ اس بار مختلف صوبوں اور شہروں کے قافلوں کو مانیٹرنگ کیا جائے گا۔ اس لیے کراچی کو زیادہ فوکس کیا گیا ہے کہ حیدرآباد، مورو، میرپورخاص، بدین، ٹھٹھہ، ٹنڈو الہ یار، ہالا، نواب شاہ، خیرپور، سکھر تک کم لوگوں کی آنے کی امید ہے۔ کراچی کے انصاف ہائوس میں ہر علاقے کا ذمہ دار آکر بتا رہا ہے کہ اگر پارٹی جانے والوں کے اخراجات اٹھاتی ہے تو زیادہ تر مزدور پیشہ یا غریب طبقہ جانے کو تیار ہے۔ تاہم جانے کے اخراجات نہ ملنے پر انکار کر رہے ہیں۔
کراچی بھر سے لوگوں کو نکالنا مشکل ہورہا ہے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پارٹی ٹرین یا کوچوں کو بک کرا کے دیتی اور نہ ہی کھانے پینے کا خرچہ برداشت کرتی ہے۔ تاہم ایم این اے، ایم پیز، علاقائی عہدیدار، ذمہ دار کوئی ذمہ داری پوری کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ پارٹی کے پاس فنڈز نہیں ہیں۔ ملیر کے ایک پی ٹی آئی ذمہ دار کا کہنا تھا کہ کراچی میں رہنمائوں کی گروپ بندی سے کارکن کنارہ کشی کر رہے ہیں کہ ہر کوئی اپنی مرضی کر رہا ہے۔ بس اعلان کر دیا جاتا ہے کہ فلاں دن جائیں گے۔ کراچی سے طریقہ کار کے ساتھ لے جانا اور دھرنے کے خاتمے کے بعد واپس لانے کے حوالے سے کوئی ذمہ داری نہیں اٹھا رہا ہے۔ ایک ذمہ دار کا کہنا تھا کہ جمعرات کی شب جانے کا پروگرام ہے۔ ابھی جگہ نہیں بتائی گزشتہ پروگرام میں سپرہائی وے پر ٹول پلازہ کے قریب بلوایا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے خلاف دھرنے کے بارے میں کارکن پریشان ہیں کہ ان کو استعمال کر کے نئی مصیبتوں میں نہ ڈال دیں۔ کافی دور کا مسئلہ ہے، جو پارٹی لے کر جانے اور اخراجات اٹھانے کو تیار نہیں ہے وہ کس طرح قانونی سپورٹ برے وقت میں کرے گی۔
کراچی میں کارکن عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہے ہیں کہ رہنما اور ایم این اے، ایم پیز اور ذمہ دار تو اپنی بڑی گاڑیوں میں جائیں گے۔ لیکن کارکنوں کے لیے مشترکہ طور پر کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ شاہ فیصل کالونی کے ایک ذمہ دار کا کہنا تھا کہ کراچی سے کم لوگ جانے پر تیار ہوئے ہیں جبکہ کارکنوں کو کہا گیا تھا کہ تیاری کر کے آئیں۔ دھرنا طویل بھی ہو سکتا ہے اور راولپنڈی اور راستے میں موسم سرد ہوگا۔ اب کارکن اپنے اپنے خرچے کر کے کس طرح جائیں۔ مہنگائی میں کرائے، رہائش، کھانے کا کیا کریں؟ گزشتہ دنوں کراچی سمیت سندھ کے کارکن لانگ مارچ میں پہنچے تھے، تو لانگ مارچ ختم کر دیا گیا تھا اور کارکن پریشان ہو کر واپس آئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ بار بار کہا جاتا ہے کہ انصاف ہائوس سے رابطہ کرو، جب ادھر جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ علاقے کے ذمہ دار سے رابطہ کرو وہ بتائیں گے۔ ان کو اخراجات کا بتائو، تو کہا جاتا ہے کہ جو جانا چاہتا ہے وہ اپنے خرچے پر جائے۔ ہمیں پارٹی اخراجات کے لیے فنڈز نہیں دے رہی ہے۔ جبکہ رہنما ساری ذمہ داری علاقائی ذمہ داروں پر ڈال رہے ہیں۔ کراچی میں جس طرح متحدہ پاکستان اور دیگر جماعتوں کی مقبولیت صفر ہو چکی ہے، اسی طرح لوگ تحریک انصاف کے حوالے سے عدم دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں کہ اپنے مفاد کے لیے ان کو بطور چارہ استعمال کیا جارہا ہے۔ نرسری پر واقع انصاف ہائوس کے ذمہ داروں نے اس حوالے سے بتانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ابھی مشاورت جاری ہے اور بڑی تعداد میں لوگ جانے کو تیار ہیں۔