مرنے والے ڈاکوؤں سے اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے۔فائل فوٹو

’’گھوٹکی پولیس میں ڈاکوئوں کے مخبرہونے کا انکشاف‘‘

میرعابد بھٹو:

گھوٹکی پولیس کے ڈاکوؤں کے ساتھ تعلقات اور رابطوں کی وجہ سے ڈکیتوں کے خلاف آپریشن مسلسل ناکام ہو رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پولیس اپنی ساکھ بچانے کے لئے ڈاکوؤں کے ساتھ جعلی مقابلے بھی ظاہر کرنے لگی ہے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ گھوٹکی پولیس کی نا اہلی کے باعث کچے کا علاقہ نوگو ایریا اور سندھ اور پنجاب کے ڈاکوؤں کی محفوظ آماج گاہ بن گیا ہے۔ کچے کےعلاقے میں ڈاکوؤں کے پاس کروڑوں روپے کی مالیت کا جدید اسلحہ موجود ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔

سندھ اور پنجاب کے بدنام زمانہ ڈاکو جانو انڈھڑ اور راحب شر کے گروپس کے ایک ہونے کے بعد ڈاکوؤں نے کچے میں مضبوط نیٹ ورک قائم کرلیا ۔ ڈاکوؤں نے ثنا اللہ نامی ڈاکو گروہ کا ترجمان بھی مقرر کیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکوؤں کے پاس انٹرنیٹ کی بھی سہولت میسر ہے۔ کچے میں بیٹھ کر سوشل میڈیا کا بھی استعمال کر رہے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کر رہے ہیں۔ مغویوں کی ویڈیو ریکارڈ کرکے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے تاوان طلب کیا جاتا ہے۔ جدید اسلحہ کی نمائش اور مغویوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے سے گھوٹکی کے شہریوں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔

ذرائع کے مطابق کچے میں ڈاکوؤں کو صحت کی سہولت بھی موجود ہے۔ زخمی ڈاکوؤں کو علاج معالجہ بھی کیا جاتا ہے۔ ڈاکوؤں نے ملک کے مختلف علاقوں سے سادہ لوح افراد کو اغوا کرنے کے لئے مختلف زبان بولنے والی لڑکیوں کو بھی ہائر کیا ہوا ہے اور نسوانی آواز سے مختلف علاقوں سے سادہ لوح افراد کو باآسانی اغواکرنے کے بعد کچے میں قید کرکے تاوان طلب کیا جاتا ہے۔ لیکن ڈاکوؤں کے اس مضبوط نیٹ ورک کو توڑنے کے لئے گھوٹکی پولیس مسلسل ناکام ہورہی ہے اور کوئی حکمت عملی اب تک نہیں بنائی گئی۔ جس کی وجہ سے ڈاکوؤں کا نیٹ ورک مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ پولیس کے پاس ناکارہ اسلحہ ہونے کے وجہ سے اہلکار کچے کے علاقے میں آپریشن کرنے سے کترانے لگے ہیں۔

ذرائع کے مطابق گھوٹکی پولیس کی اسلحہ خریداری میں مسلسل مبینہ کرپشن کے باعث اہلکاروں کو ناکارہ اسلحہ ہی فراہم کیا جارہا ہے۔ اسلحہ خریداری کی مد میں مبینہ کروڑوں روپے کے گھپلے لگائے جاتے ہیں، اسلحہ نیا خرید کرنے کے بجائے ناکارہ اور مرمت شدہ خرید کر پولیس اہلکاروں کے حوالے کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب ڈاکوؤں کے پاس اینٹی ایئر کرافٹ گن، راکٹ لانچر سمیت دیگر جدید اسلحہ موجود ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پولیس کی کچھ کالی بھیڑوں ہی کی مدد سے کچے میں ڈاکوؤں کو ملک بھر سے جدید اسلحہ کی رسائی ہو رہی ہے۔ ڈی آئی جی سکھر نے دو ماہ قبل ڈاکوؤں کے ساتھ تعلقات پر کچے کے تھانے راؤنتی تھانے پرتعینات سابقہ ایس ایچ او غلام عباس سندرانی کو نوکری سے بھی برطرف کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ گھوٹکی پولیس میں کالی بھیڑیاں موجود ہیں جن کے خلاف اب تک کوئی کاروائی نہیں ہوسکی ہے۔ یاد رہے کہ راؤنتی کچے میں 20 روز قبل پولیس کی ناقص حکمت عملی اور پولیس کی ڈاکوؤں سے مبینہ رابطے کے باعث ڈاکوؤں نے بڑا حملہ کرکے ڈی ایس پی اوباڑو عبدالمالک بھٹو، ایس ایچ او رمیرپور ماتھیلو عبدمالک کمانگر، ایس ایچ او کھینجو دین محمد لغاری، پولیس اہلکار سلیم چاچڑ اور جتوئی پتافی کو شہید کر دیا تھا۔
ادھر ڈاکو رانو شر نے سوشل میڈیا کے ذریعے کہا ہے کہ گھوٹکی پولیس کے جو پانچ جوان شہیدہوئے ہیں ان کے ذمہ دار بھی ساتھی پولیس اہلکار تھے، جنہوں نے ڈاکوؤں کو انفارمیشن لیک کی۔ ڈاکو رانو شر کا مزید کہنا تھا کہ ’’میں موبائل نمبرز دیتا ہوں، ان کا ڈیٹا نکالا جائے جس پر بہتر پیش رفت ہو گی اور پولیس کے اندر رہنے والے کالی بھیڑیوں کو بھی ظاہر کر کے ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے۔‘‘
واضح رہے کہ پولیس اہلکاروں کے شہید ہونے کو بیس روز گزر جانے کے باوجود تحقیقات مکمل نہیں کی جاسکی ہیں۔ جبکہ حملے کے وقت موقع سے بھاگ جانے والے پولیس اہلکاروں سے بھی تفتیش نہیں کی گئی ہے۔ شہید پولیس اہلکاروں کے راؤنتی تھانے پر درج ہونے والے مقدمہ کی کاپی پہلے بدنام ڈاکو جانو انڈھڑ کو پولیس کی طرف سے فراہم کی گئی تھی، جس نے اپنے فیس بک پیچ پر وائرل بھی کی۔ پولیس کی طرف ڈاکو کو ایف آئی آر کی کاپی فراہم کرنے کی بھی تحقیقات نہیں کی گئی۔ جبکہ ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو کی اس ناقص حکمت عملی پر آئی جی سندھ اور ڈی آئی جی سکھر کی طرف سے کوئی نوٹس نہیں لیا گیا اور نہ ہی تحقیقات کے لئے ٹیم تشکیل دی گئی۔
ذرائع کے مطابق ایس پی گھوٹکی تنویر تنیور پر مسلسل تنقید اور امکانی کروائی سے بچنے کے لئے تین روز قبل تھانہ بیلو میرپور ماتھیلو کی حدود میں ایس ایچ او اے سیکشن انسپکٹر محمد ایوب ڈوگر اور ایس ایچ او میرپور ماتھیلو صفیع اللہ انصاری نے کاروائی کرتے ہوئے دو ڈاکوؤں حاکم شراورآغا شر کو پولیس مقابلہ میں مارنے کا دعویٰ کیا۔

ڈاکوؤں کے ترجمان ثنا اللہ شر نے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے حاکم شر اور آغا شر، کا اپنے رشتہ داروں کے ساتھ تنازعہ چل رہا تھا۔ پولیس نے دھوکے سے حاکم شر اور آغا شر کو ہلاک کیا ہے۔ تاہم گھوٹکی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے حاکم شر اور آغا شر کو پولیس مقابلے میں مارا ہے اور مارے جانے والے ڈاکوؤں سے شہید ڈی ایس پی عبدالمالک بھٹو کی استعمال شدہ جی تھری ہتھیار بھی برآمد کیا ہے۔ پولیس کے مطابق مارے جانے والے ڈاکو حاکم شر کے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے تھی اور شہید پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے میں بھی ملوث تھا۔