اسلام آباد (امّت نیوز )مغرب کی سیکولر فکری یلغار نے مسلمانوں کی علمی بنیادوں کو بڑی حد تک متاثر کیاہے جس کے تدارک کے لیےایک عالمگیر طور پر قابل اطلاق اسلامی تہذیب کا احیاء ناگزیرہے۔یہ خلاصہ تھا رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد کے ساتھ، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے سرپرستِ اعلیٰ اور بین الوقوامی شہرت یافتہ پاکستانی مفکر پروفیسر خورشید احمد کی آئی پی ایس پریس کے تحت حال ہی میں شایع ہونے والی کتاب’اسلام اور مغرب کی تہذیبی و سیاسی کشمکش’ کے حوالے سے ‘تہذیب اور سیاست: اسلام کامغرب کے ساتھ تعامل’ کے موضوع پر ہونے والے مکالمے کا ، جس کا انعقاد رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد میں کیا گیا۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقد ہونے والے اس پروگرام سےچیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی اسسٹنٹ پروفیسر صومیہ عزیز، آئی پی ایس کے ریسرچ فیلو اور بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حامد فاروق، لیکچرر احمد حمیدی اور نوجوان محقق احمد بن قاسم نے اظہارِ خیال کیا۔ مقررین کے مطابق پروفیسر خورشید احمد کی کتاب مغربی تہذیب کے حوالے سے اسلام کے سیاسی اور تہذیبی نقطہ نظر کے بارے میں معلومات اور بصیرت کے ایک قیمتی اثاثے کے طور پر کام کرتی ہے۔ کتاب میں شامل متعدد عنوانات کے مطابق مغرب کو انسانی ترقی اور تہذیب کے بحران کا سامنا ہے، جس سے ثقافتی تنازعات پیدا ہو رہے ہیں اور اسلام کے حوالے سے آزادیِ اظہار کے نام پر معاشی عدم مساوات، سماجی ناانصافی اور توہین رسالت جیسے سماجی، سیاسی اور اخلاقی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ کتاب اس بات پر زور دیتی ہے کہ ان مسائل کا حل اسلامی تہذیب میں مضمر ہے، جو مسلم اور غیر مسلم دنیا کو یکساں رہنمائی اور عمل کا مجموعہ فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اسلامی تہذیب کا احیاء وقت کی اہم ضرورت ہے۔پروفیسر انیس احمد نے اقبال اور مودودی جیسے مسلم فکرین کی کوششوں کے تسلسل کو جاری رکھنے میں پروفیسر خورشید احمد کی خدمات کو سراہا جنہوں نے اسلام اور اس کے عقائد کو عالمگیر طور پر قابل اطلاق فلسفے کے طور پر پیش کرنے کے لیے بھرپور انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔انہوں نے پروفیسر خورشید کی کتاب کے تناظر میں کہا کہ سیکولر سوچ سے آنے والی تقسیم نے ذہنی غلامی کا احساس پیدا کیا ہے اور اسلامی افکار و نظریات کی عدم ادراک کی وجہ سے مغربی سیکولر رجحانات کو مسلم معاشروں میں قبول کر لیا گیا ہے۔خالد رحمٰن نے اپنے اختتامی کلمات میں اس بات کی نشاندہی کی کہ تمام انسانی وجود کی طرح مسلم وجود بھی بقا اور ترقی کے مخمصے میں ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کی ایک حالیہ تحقیق کے اعدادوشمار بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2060 تک دنیا کی آبادی میں 34 فیصد اضافے کا تخمینہ ہے اور مجموعی طور پر مسلمان آبادی میں 70 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ جہاں یہ ترقی حوصلہ افزا نظر آتی ہے وہیں سیکولر رجحانات میں اضافہ اور مسلم معاشروں میں ان کی شمولیت نے بھی پیچیدگیاں پیدا کی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ان مخمصوں سے چھٹکارا پانے کے لیے مسلمانوں کو تعمیر و ترقی کی اسلامی افکار کو سمجھنا چاہیے اور اس کو انفرادی، سماجی، قومی اور بین الاقوامی ترقی کی بنیاد بنانا چاہیے۔