سپریم کورٹ نے سینئرصحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کےلئے حکومت کی خصوصی جے آئی ٹی مسترد کردی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ چاہتے ہیں آزادانہ ٹیم تحقیقات کرے۔ایسا افسر نہیں چاہتے جو ان کے ماتحت ہو جن کا نام آ رہا ہے۔ پولیس فوری طور پر نئی جے آئی ٹی تشکیل دے۔ وقار اور خرم سے تحقیقات کا آغاز کیا جائے۔ارشد شریف کی والدہ کا بیان ریکارڈ کیا جائے، کریمنل معاملہ ہے۔عدالتی کمیشن کی ضرورت نہیں ، ارشد شریف کی والدہ نے روسٹرم پرآ کر کہا کہ چاہتی ہوں جو میرے ساتھ ہوا ہے وہ کسی اور ماں کے ساتھ نہ ہو۔
سینئرصحافی ارشد شریف کے قتل پرازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ ارشد شریف کی والدہ اوراہلیہ عدالت میں پیش ہوئیں۔
سماعت کے آغاز میں ارشد شریف کے وکیل نے کہا کہ ارشد شریف کی والدہ کو عدالت لانے کےلئے لفٹ بھی نہیں۔۔۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہیل چیئر کیلئے لفٹ تبدیل کر رہے ہیں۔۔ عملے سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو معذرت خواہ ہیں۔۔پولیس اہلکاروں کو تعاون کی ہدایت دے دیتے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالتی احکامات پرفیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جمع کرادی۔جو 2 حصوں پرمشتمل ہے،ایف آئی آر بھی درج کرلی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بیہمانہ قتل کے اصل شواہد کینیا میں ہیں۔کینیا کے حکام کے ساتھ معاملہ اٹھانا ہوگا۔فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا کام قابل ستائش ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کے نام تک رپورٹ میں نہیں لکھے گئے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسارکیا کہ مقدمے میں کس بنیاد پر تین لوگوں کو نامزد کیا گیاہے؟۔جسٹس مظاہر نقوی نے استفسارکیا کہ فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کیخلاف مقدمہ کیوں درج نہیں کیا گیا؟۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جائزہ لینا ہوگا کہ غیر ملکیوں کیخلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے یا نہیں۔انکوائری رپورٹ ریکارڈ کا حصہ بنے گی۔جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔تنبیہ کر رہا ہوں حکومت بھی معاملے کوسنجیدگی سے لے۔عدالت صرف آپ کو سننے کیلئے نہیں بیٹھی ہوئی۔
دوران سماعت ارشد شریف کی والدہ روسٹرم پر آئیں اور بتایا کہ جس طرح پاکستان سے ارشد کو نکالا گیا وہ رپورٹ میں لکھا ہے، دوبئی سے جیسے ارشد کو نکالا گیا وہ بھی رپورٹ میں ہے، مجھے صرف اپنے بیٹے کیلئے انصاف چاہیے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کی والدہ 2 شہدا کی ماں ہیں۔ان کا موقف صبراورتحمل سے سنا جائے۔جسٹس مظاہر نقوی نے ارشد شریف کی والدہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو تحقیقاتی ٹیم کو بیان ریکارڈ کرانا ہوگا۔جس پر ارشد شریف کی والدہ نے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم کو بیان پہلے بھی ریکارڈ کرا چکی ہوں۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا تو جا چکا اب دوسروں کے بچوں کو بچانا چاہتی ہیں۔واقعہ کے بعد شور کرنے کے بجائے پہلے کچھ نہیں کیا جاتا۔کینیڈا میں پاکستانی خاتون کے قتل پر اقدامات کرتے تو شاید یہ واقعہ نہ ہوتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ارشد شریف کی والدہ نے کئی لوگوں کے نام دیئے ہیں۔ حکومت قانون کے مطابق تمام زاویوں سے تفتیش کرے۔فوجداری مقدمہ ہے اس لیے عدالت نے کمیشن قائم نہیں کیا۔کیس شروع ہی خرم اور وقار سے ہوتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ حکومت کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ تفتیش کیلئے سپیشل جے آئی ٹی بنائی جا رہی ہے۔کل تک جے آئی ٹی کے تمام ناموں سے آگاہ کیا جائے۔تفتیش سینئر اور آزاد افسران سے کرائی جائے۔جے آئی ٹی ارکان معاملہ فہم اور دوسرے ملک سے شواہد لانے کے ماہر ہوں۔وزارت خارجہ شواہد جمع کرنے میں جے آئی ٹی کی مکمل معاونت کرے۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں سے بھی معاونت ضروری ہو تو وزارت خارجہ معاونت کرے۔ارشد شریف کے اہلخانہ سے تمام معلومات شیئر کی جائیں۔عدالت نے سماعت کل ساڑھے بارہ بجے تک ملتوی کر دی۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ 592 صفحات پر مشتمل ہے جبکہ رپورٹ ڈی جی ایف آئی اے اور ڈی جی آئی بی کے دستخط کیساتھ جمع کرائی گئی ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کو منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا، گاڑی چلانے والے خرم کے بیانات تضاد سے بھرپور ہیں، کینیا پولیس نے ارشد شریف قتل کی تحقیقات میں کوئی معاونت نہیں کی۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ارشد شریف کو 20 جون 2022 کو یو اے ای کا ویزا جاری کیا گیا، ویزا 18 اگست 2022 تک کے لیے تھا، ارشد شریف کینیا گئے تو ان کے ویزے میں 20 دن باقی تھے، انہوں نے نئے ویزے کے لیے 12 اکتوبر 2022 کو دوبارہ رجوع کیا، ان کی درخواست کو رد کر دیا گیا۔
ارشد شریف کے سینے میں لگی گولی ٹریجکٹری فائرنگ پیٹرن سے نہیں ملتی، ان کو ایک گولی کمر کے اوپر حصے میں لگی، گولی گردن سے تقریباً 6 سے 8 انچ نیچے لگی جو سینے کی جانب سے باہر نکلی، اس زخم سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ گولی قریب سے چلائی گئی ہے، جس زاویے سے گولی چلی اس کے نتیجے میں گاڑی کی سیٹ میں بھی سوراخ ہونا چاہیے تھا۔
رپورٹ کے مطابق ارشد شریف نے وقار احمد کے گیسٹ ہاؤس میں 2 ماہ 3 دن قیام کیا، وقار احمد کے کینین پولیس اور وہاں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے روابط ہیں، ان کے کینیا کی نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی سے قریبی تعلقات ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ وقار کے مطابق حادثے کے بعد پولیس نے ارشد کا آئی فون، آئی پیڈ، پرس، 2 یو ایس بیز حوالے کیں، انہوں نے آئی فون اور آئی پیڈ نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی کے افسر کو دے دیا، ایک دن بعد پاکستانی ہائی کمیشن نے ایک افسر کو ارشد شریف کی چیزیں لینے کے لیے بھیجا۔
وقار کے مطابق اس نے این آئی ایس کے افسر کو کال کر کے بتایا، این آئی ایس کے افسر نے وقار کو پاکستانی ہائی کمیشن کو کسی بھی چیز کو تحویل میں لینے سے روکا، بعد میں ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر پوسٹ کا بندا بھیجا گیا۔
رپورٹ کے مطابق فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے ارشد شریف کی رہائش گاہ کا دورہ کیا، دورے کے دوران ٹیم کوان کا پاسپورٹ ملا، یو ایس بیز، پاسپورٹ کی کمیشن کو حوالگی کے سوال کا جواب تسلی بخش نہیں، وقار احمد نے پہلے سی سی ٹی وی فوٹیج دینے پر آمادگی ظاہر کی، انہوں نے بعد میں فوٹیج دینے سے معذرت کر لی، وقار احمد نے کہا فوٹیج لوکل اتھارٹیز کے حوالے نہیں کی گئی، انہوں یہ بھی نے کہا وکیل اور بیوی نے فوٹیج نہ دینے کا مشورہ دیا ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں وقار کے چھوٹے بھائی خرم کا بھی ذکر ہے، خرم کا کہنا تھا وہ کھانے کے بعد ارشد شریف کو ساتھ لے کر نکلے ، راستے میں انہیں سڑک پر پتھر نظر آئے جس پر خرم نے ارشد کو بتایا کہ یہ ڈاکو ہوں گے، جیسے ہی سڑک پر پڑے پتھروں کو پار کیا تو انہیں گولیوں کی آواز سنائی دی، گولیوں کی آواز سنتے ہی وہ وہاں سے بھاگ گئے، خرم نے محسوس کیا ارشد شریف کو گولی لگی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کیس میں کئی غیرملکی کردار اہمیت رکھتے ہیں، ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہے، دونوں افراد مطلوبہ معلومات دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ارشد شریف کے قتل سے متعلق پریس کانفرنس پر فیصل واوڈا سے 15 نومبر کو رابطہ کیا گیا، ان سے ارشد شریف کے قتل سے متعلق شواہد طلب کیے گئے، ان کی درخواست پر ٹیم نے انہیں 7 سوال تحریری طور پر دیے، جواب کے لیے دوبارہ رابطے کی کوشش پر فیصل واوڈا نے کوئی جواب نہیں دیا۔
واضح رہے سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل سے متعلق رپورٹ آج ہی جمع کرانے کا حکم دیا تھا، سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل کا مقدمہ گزشتہ روز درج کرنے کا حکم دیا تھا۔