احتجاج کے لیے درخواست ضلعی انتظامیہ کو جمع کروا دی گئی ہے، فائل فوٹو
احتجاج کے لیے درخواست ضلعی انتظامیہ کو جمع کروا دی گئی ہے، فائل فوٹو

اسمبلیوں کی مدت بڑھانے پر مشاورت کا عمل تیز

ندیم محمود:
اتحادی حکومت میں شامل پارٹیوں کی قیادت کے مابین موجودہ اسمبلیوں کی مدت بڑھانے پر مشاورت تیز ہو گئی ہے۔ اس حوالے سے مختلف قانونی و آئینی پہلوئوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں جاری سرگرمیوں سے آگاہ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وفاقی حکومت اور اس کی اتحادی پارٹیاں اس پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہیں کہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں کم از کم ایک برس کی توسیع کر دی جائے۔ واضح رہے کہ موجودہ اسمبلیاں اگلے برس اگست میں اپنی مدت پوری کریں گی۔ اگر مدت ایک برس مزید بڑھا دی جاتی ہے تو پھر اگست 2024ء تک یہی اسمبلیاں کام کرتی رہیں گی۔

یہاں یہ بتاتے چلیں کہ تقریباً ایک ماہ قبل یہ خبر ’’امت‘‘ نے بریک کی تھی کہ وفاقی حکومت اور اس کی اتحادی پارٹیوں نے اسمبلیوں کی مدت بڑھانے پر سنجیدگی سے غور شروع کر دیا ہے۔ آج نون لیگ اور جے یو آئی کی قیادت کی جانب سے باقاعدہ اسمبلیوں کی مدت بڑھانے کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ چند روز پہلے نون لیگ کے رہنما ایاز صادق نے کہا تھا کہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت بڑھائی جا سکتی ہے اور اب جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا بیان آچکا ہے کہ ’’ملک کو ٹھیک کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔ ہم الیکشن مزید ایک برس آگے بڑھانے کا سوچ رہے ہیں‘‘۔

 

ذرائع نے بتایا کہ وفاقی حکومت اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے مابین اسمبلیوں کی مدت میں توسیع کی سوچ کا آغاز قریباً دو ڈھائی ماہ پہلے ہوا تھا۔ کیونکہ اتحادی پارٹیوں کے بیشتر رہنمائوں کا خیال ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث کم از کم ڈیڑھ برس تک جنرل الیکشن کرانا ممکن نہیں۔ سیلاب سے متاثرہ ملک کے ایک تہائی حصے کے لوگ دوسروں شہروں میں نقل مکانی کر چکے ہیں۔ اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کے بعد ہی وہ الیکشن میں ووٹ ڈال سکیں گے۔ لہٰذا سیلاب متاثرین کی بحالی اور ان کی اپنے آبائی علاقوں میں واپسی سے پہلے الیکشن کرانے کا سیدھا مطلب یہ ہو گا کہ ملک کے ایک تہائی حصے کے لوگوں کو حق رائے دہی سے محروم کر دیا جائے۔ حکومتی اتحاد کے ایک سے زائد ذرائع نے بتایا کہ سیلاب کے ساتھ دوسرا بڑا فیکٹر معیشت کی بحالی کا ہے۔

 

موجودہ اتحادی حکومت چاہتی ہے کہ الیکشن سے پہلے ملک کی معیشت ہر صورت بہتر بنائی جائے۔ تاہم اس وقت ملک کی معیشت کو جس نوعیت کے چیلنجز درپیش ہیں۔ اس کے لیے اتحادی حکومت کو کم از کم ڈیڑھ سے دو برس درکار ہیں۔ جبکہ موجود اسمبلیوں کی مدت تقریباً نو ماہ بعد پوری ہو رہی ہے۔ اسی تناظر میں اتحادی پارٹیوں کی قیادت میں اسمبلیوں کی مدت بڑھانے کی سوچ پیدا ہوئی۔

 

ان ذرائع نے تسلیم کیا کہ حکومتی اتحاد میں شامل تقریباً تمام پارٹیوں کو یہ ادراک ہے۔ بلکہ وہ ایک سے زائد اجلاسوں میں اس بات کا اظہاربھی کرچکی ہیں کہ عوام کو ریلیف دیئے بغیر الیکشن میں جانے کا نتیجہ شکست کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ چونکہ معیشت کو بہتر بنائے بغیرعوام کو ریلیف دینے سے متعلق کسی پلان پرعمل ممکن نہیں۔ اسی لیے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نواز شریف نے براہ راست ہدایات دی ہیں کہ جس قدر ممکن ہو۔ معیشت بہتر بنا کر عوامی ریلیف کے منصوبے شروع کیے جائیں۔ جن میں پیٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا ٹاسک سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے اتحادی پارٹیوں کا بھی وزیر خزانہ پر شدید دبائو ہے۔ ساتھ ہی اتحادی پارٹیوں کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ معیشت کی بہتری اور پھر عوام کو ریلیف دینے کے مجوزہ پلان پر عمل کے لیے آٹھ نو ماہ کا عرصہ کم ہے۔ اگر اتحادی حکومت کو مزید ایک برس مل جائے تو متذکرہ اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

 

ذرائع نے بتایا کہ اسمبلیوں کی مدت بڑھانے سے متعلق مشاورت کا مرحلہ ابھی حتمی فیصلے میں تبدیل نہیں ہوا ہے۔ تاہم اتحادی پارٹیوں کی قیادت کے مابین اس ایشو پر ہونے والی مشاورت میں تیزی آئی ہے۔ جبکہ قانونی و آئینی ماہرین سے بھی رائے لی جا رہی ہے۔

ذرائع کے بقول مشاورت مزید آگے بڑھتی ہے تو پھر اتفاق رائے کے لیے اتحادیوں کا باقاعدہ اجلاس بلایا جائے گا۔ اس سلسلے میں اب تک ہونے والی بات چیت میں نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن، سب آن بورڈ ہیں۔

اس حوالے سے جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی ترجمان اسلم غوری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت بڑھانے کا معاملہ زیر غور ہے۔ بلکہ اتحادی پارٹیوں کے حلقوں میں اس پر مشاورت ہو رہی ہے۔ اتحادی پارٹیوں کا ارادہ ہے کہ اسمبلیوں کی مدت میں کم از کم ایک برس کا اضافہ کر دیا جائے۔

پی ڈی ایم ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پہلے عمران خان کے ناکام لانگ مارچ اور بعد میں آزاد کشمیر میں بلدیاتی الیکشن کے نتائج نے اتحادی حکومت کو خاصا حوصلہ دیا ہے۔ اتحاد میں شامل بیشتر پارٹیاں اب یہ سمجھتی ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان کی مقبولیت کا گراف بتدریج نیچے آرہا ہے۔ اگر اتحادی حکومت عوام کو تھوڑا بہت ریلیف بھی دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی کو شکست دینا مشکل نہیں ہو گا۔ نون لیگ کے ایک رکن پارلیمنٹ کے بقول صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے متعلق پی ٹی آئی میں پائی جانے والی کشمکش پر بھی اتحادی حکومت خوش ہے۔ اور اس کے خیال میں اس کا سیاسی فائدہ اتحادیوں کو پہنچ رہا ہے۔

اگرچہ عمران خان تاحال پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل سے متعلق اپنی دھمکی پر عمل نہیں کر سکے ہیں۔ تاہم اگر وہ یہ قدم اٹھا بھی لیتے ہیں تو ان صوبوں میں نیا الیکشن آگے بڑھانے کے لیے وفاقی حکومت کے پاس آئینی گنجائش موجود ہے۔ اس بارے میں الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد احمد کا کہنا ہے کہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے باوجود آئین کی شق دو سو بتیس کے تحت معاشی ایمرجنسی لگا کر نئے انتخابات تین ماہ تک مؤخر کیے جا سکتے ہیں۔