محمد قاسم:
خیبر پختون اسمبلی کی تحلیل میں سب سے بڑی رکاوٹ، اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی ہونے کے بعد دور ہوگئی ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اب وزیراعلیٰ محمود خان کسی بھی وقت گورنر کو اسمبلی کی تحلیل سے متعلق ایڈوائس ارسال کر سکتے ہیں۔ جبکہ گورنر ایڈوائس پر اگر 48 گھنٹوں تک دستخط نہیں کرتے تو پھر بھی اسمبلی تحلیل تصور ہوگی۔ تاہم اسمبلی کی تحلیل کو بچانے کیلئے اپوزیشن جماعتیں آئین کے آرٹیکل136 کے تحت وزیراعلیٰ کے خلاف عد م اعتماد کی تحریک جمع کر اسکتی ہیں۔ جس پر 20 فیصد ممبران کے دستخط لازمی ہونے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کی عددی اکثریت کے آگے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونا بظاہر نا ممکن ہے۔ البتہ کچھ وقت کیلئے اپوزیشن، اسمبلی کو اس صورت میں تحلیل سے بچا ضرور سکتی ہے۔ جبکہ گورنرحاجی غلام علی کا کہنا ہے کہ، اسمبلی تحلیل سے متعلق سمری آئی تو آئین کے مطابق فیصلہ کروں گا تاہم نہیں چاہتا کہ صوبے میں گورنر راج کا نفاذ ہو۔
یاد رہے کہ خیبرپختون میں پیپلز پارٹی کے دور میں 2 مرتبہ گورنر راج لگ چکا ہے۔ پہلی مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو، جبکہ دوسری مرتبہ بینظیر بھٹو کے دور میں صوبہ گورنر راج کے حوالے ہوا۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے سربراہ عمرا ن خان کی جانب سے اسمبلی کی تحلیل کا گرین سگنل ملتے ہی اہم پیشرفت شروع ہوچکی ہے۔ اس کے تحت گزشتہ روز، جولائی سے جاری اسمبلی سیشن کو غیر معینہ مدت تک کیلیے ملتوی کر دیا گیا۔ کیونکہ آئین کے مطابق اسمبلی کے جاری سیشن کے دوران تحلیل نہیں کی جا سکتی اور اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اجلاس کا سیشن نہ ہو۔ جبکہ خیبر پختون اسمبلی کا اجلاس گزشتہ پانچ ماہ سے جاری تھا اور یہ عام تاثر بنا تھا کہ اس لئے اسمبلی سیشن جاری ہے کہ اسمبلی کو تحلیل سے بچایا جائے۔ تاہم اب چونکہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وفاقی حکومت پر دبائو ڈالنے اور ملک میں جنرل الیکشن کیلئے خیبر پختون اسمبلی کی تحلیل ضروری ہے، اس لئے خیبرپختون اسمبلی کا ایجنڈا ختم کرکے اجلاس غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ، آئین کے آرٹیکل112 کے تحت صوبائی اسمبلی کی تحلیل کا اختیار رکھتے ہیں اور آئین کے اسی آرٹیکل کے تحت وزیراعلیٰ صوبائی اسمبلی کی تحلیل سے متعلق گورنر کو لکھ سکتے ہیں۔ تاہم اسمبلی کو تحلیل سے بچانے کیلئے آئین نے اپوزیشن کو بھی اختیار دیا ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل136کے تحت وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کر سکتی ہے۔ اس تحریک پر اسمبلی میں ارکان کی مجموعی تعداد فیصد ممبران کے دستخط ہونا لازمی ہے جو صوبائی اسمبلی میں 145ممبران کے حساب سے 29 بنتے ہیں۔ اسمبلی سیکرٹریٹ میں وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی جاتی ہے تو وزیراعلیٰ کے پاس اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اختیار روک دیا جائے گا اور جب تک عدم اعتماد کی اس تحریک کا فیصلہ نہ آیا ہو اسمبلی تحلیل نہیں کی جا سکتی۔ تاہم تحریک پیش ہونے کے بعد سات دن کے اندر اندر اس پر ووٹنگ لازمی ہے۔ لیکن تحریک انصاف کی عددی اکثریت خیبرپختون اسمبلی میں اتنی ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد کا بھی بھرپور طریقے سے مقابلہ کر سکتی ہے۔