آتشیں مخلوق کا انسانوں کے کام آنا اچھا عمل نہیں- شرک کا احتمال ہے۔فائل فوٹو
 آتشیں مخلوق کا انسانوں کے کام آنا اچھا عمل نہیں- شرک کا احتمال ہے۔فائل فوٹو

’’نوسربازوں نے جعلی مزارات بھی قائم کر رکھے ہیں‘‘

میگزین رپورٹ:
بعض مزارات ایسے بھی قائم ہیں جہاں درحقیقت کوئی بزرگ مدفون نہیں۔ بلکہ بعض پیشہ ور لوگوں نے کمزور اعتقاد کے لوگوں کو لوٹنے کے لیے جعلی مقابر بنا لیے ہیں۔

حکیم صاحب کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ، شاید آپ اس بات پر یقین نہ کریں، لیکن پاکستان میں ہی ایک مقام پر ایک ایسا مزار بھی موجود ہے جہاں کوئی بزرگ تو دور کی بات، کوئی انسان بھی مدفون نہیں ہے۔ اس مزار میں ایک گدھا دفن ہے۔ اس قسم کے مزارات پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہونے کے بجائے نحوست و پھٹکار برستی ہے۔ بہرحال بزرگانِ دین کے مزارات پر ایک طرف تو نیک ارواح موجود ہوتی ہیں، جبکہ یہاں کثرت سے نیک جنات بھی پائے جاتے ہیں۔ شاید روئے زمین پر مزارات ہی وہ جگہ ہیں جہاں نیک جنات سب سے زیادہ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ بات خاصی اہم ہے۔ دراصل مزارات پر عام طور پر لوبان اور دیگر قسم کے عطر و خوشبویات کا استعمال کیا جاتا ہے، چونکہ مسلمان جنات خوشبو کے عاشق ہوتے ہیں، اس لئے وہ مزارات صاحب مزار کی قبر پر منڈلاتے رہتے ہیں۔ جب بھی کوئی شخص مزار پر حاضر ہوتا ہے تو حاضری کے وقت یہ بات اہم ترین ہوتی ہے کہ وہ یہاں دعا مانگتے ہوئے کس سے مخاطب ہے؟ اگر وہ دعا مانگتے ہوئے قبر میں مدفون بابا کے جسد خاکی سے مخاطب ہوتا ہے اور ان سے کچھ مانگتا ہے تو وہ انتہائی شرک کا شکار ہوتا ہے۔ اگر وہ اس روحانی ہستی کی روح سے مخاطب ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو اس صورت میں وہ گنا گار نہیں ہوتا۔ لیکن صاحب قبر کی روح سے مخاطب ہونے کے اندراز میں بھی بالکل باریک سا فرق ہے۔ جس کی وجہ سے انسان گناہ اور ثواب کے میدان میں داخل ہوجاتا ہے ۔

اگر انسان کسی بزرگ کی روح سے مخاطب ہوکر بھی دعا کرتا ہے اور اس کا گمان یہ ہوتا ہے کہ یہ بزرگ ہی کام بنانے والے ہیں تو وہ صریح شرک کا شکار ہے۔ اس صورت میں اگر اس کا بزرگ پر اعتقاد اور یقین پکا اور مضبوط ہے تو اللہ رب العزت اس کے یقین کو دیکھتے ہوئے بہرحال اس کا کام کردیں گے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ انسان صاحب مزار کو صرف وسیلہ بنائے۔ بات بہرحال جائز ہے اور اس میں شرک کا اندیشہ کم ہے۔ مزارات پر خواتین کا جانا بھی قطعاً منع ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق خواتین کو مزارات یا قبرستان میں ہرگز ہرگز نہیں جانا چاہیئے، جبکہ بدقسمتی سے مزارات پر سب سے زیادہ خواتین ہی پائی جاتی ہیں۔ پاکستان کے مشہور و معروف مزارات کے بزرگ اپنے مزار پر ہونے والی حرکتوں سے سخت نالاں ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان بھر میں جا بجا عظیم بزرگوں کے مزارات ہونے کے باوجود یہاں پے درپے آفات آتی جارہی ہیں۔ بعض مرتبہ مزارات پر جانے والے سائلین کا کہنا ہوتا ہے کہ فلاں مزار پر ان کا مسئلہ فوری طور پر حل ہوجاتا ہے۔ اس کے پیچھے بھی ایک پوری سائنس ہے۔ مزارات پر اکثر اوقات ایک خانہ بنایا جاتا ہے جس کے بارے میں یہاں موجود ملنگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ یہ خانہ براہ راست صاحب مزار تک جاتا ہے۔ لوگ اپنے مسائل کے بارے میں پرچیاں لکھ کر اس خانے میں ڈال دیتے ہیں اور ان کے کام ہوجاتے ہیں۔ درحقیقت ایسا کچھ نہیں ہوتا کہ اس خانے کے ذریعے پرچی بھیج کر صاحب مزار سے رابطہ کیا جائے اور وہ کسی بھی شخص کا کام کروادیں۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس خانے کا آخری سرا ایک تہہ خانے میں ہوتا ہے جہاں اس کے سرے پر بہت بڑے پیمانے پر عود و مشک یا دیگر خوشبویات جلانے کا انتظام ہوتا ہے۔ تیز ترین خوشبو کے باعث یہاں ہر وقت جنات کا ہجوم رہتا ہے۔ جب یہاں کوئی پرچی گرتی ہے تو جنات میں سے کوئی اسے پڑھ لیتا ہے۔ اور اس زعم میں اس انسان کا کام کردیتا ہے کہ اس نے مجھے اپنے سے اعلیٰ و اشرف سمجھ کر مدد مانگی ہے۔ ایسی صورت میں وہ جنات اپنے آپ کو قدرت کے اصول کے خلاف انسان سے اعلیٰ و برتر سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ قدرت کے اصول کے خلاف انسان کو اپنے سامنے بے بس ہوتا دیکھ خود سرکشی کی تمام حدیں پار کرنے لگتے ہیں۔؎

پس مزارات پر بھی موجود جنات، انسان کے بعض کام کردیتے ہیں اور وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ بابا جی نے براہ راست اس کا کام کردیا ہے۔ کبھی کسی مزار کے بزرگ کسی انسان کا کام براہ راست نہیں کرسکتے، بلکہ یہ کام ہمیشہ اللہ رب العزت کی جانب سے ہی کیا جاتا ہے ۔ تمام ہی بزرگان دین نے اس بات کی نفی کی ہے کہ وہ براہ راست کسی نسان کے کام آسکتے ہوں۔ ہاں بزرگان دین کو وسیلہ بنایا جاسکتا ہے۔