دنیا بھر میں پولٹری فارمرز 2024ء تک نئے طریقے سے مستفید ہو سکیں گے-فائل فوٹو
 دنیا بھر میں پولٹری فارمرز 2024ء تک نئے طریقے سے مستفید ہو سکیں گے-فائل فوٹو

’’پولٹری انڈسٹری میں انقلاب آگیا‘‘

محمد علی:
اسرائیلی سائنسدانوں نے 7 سال کی تحقیق کے بعد پولٹری انڈسٹری میں انقلابی ٹیکنالوجی متعارف کرا دی۔ سائنسدانوں کی جانب سے ایک ایسی مرغی کی قسم تیارکرلی گئی ہے۔ جو صرف ’’مادہ انڈے‘‘ دیں گی۔ اس کا مقصد نر چوزوں سے نجات اور انڈوں کی پیداوار بڑھانا ہے۔ تازہ تحقیق کو پولٹری صنعت کو وسعت دینے کیلیے اہم تصور کیا جارہا ہے۔ کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں سالانہ 7 ارب نر چوزے پیدا ہونے کے دو دن کے اندر مار دیے جاتے ہیں۔ جبکہ انڈوں کی زیادہ پیداوار سے دنیا میں اس کی بڑھتی طلب کو بھی پورا کیا جا سکے گا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق پولٹری فارمرز 2024ء تک اس نئے طریقے سے مستفید ہو سکیں گے۔ اسرائیل کے سائنسدانوں نے مرغیوں کی ایک ایسی نسل تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ جن کے انڈوں سے صرف مادہ چوزے ہی پیدا ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مرغیوں یہ نسل عام ہونے سے سالانہ کم از کم سات ارب ڈالر کی بچت ہو گی۔ کیونکہ ایک نو زائیدہ چوزے کو ہلاک کرنے پر تقریباً ایک ڈالر کا خرچ اٹھتا ہے۔

اسرائیل کی زرعی تحقیق کے ادارے کے ’’والکینی سینٹر‘‘ نے کہا ہے کہ اس نے جینیاتی ٹیکنالوجی کے استعمال سے مرغیوں کی ایک ایسی نسل تیار کی ہے۔ جس کے انڈوں سے صرف مادہ چوزے ہی پیدا ہوں گے۔ جو بڑے ہو کر انڈے دیں گی۔ والکینی سینٹر کے سائنس دانوں کا استدلال ہے کہ فی الوقت نر چوزوں کو بے رحمی سے ہلاک کیے جانے سے بچانے کا واحد قابل عمل راستہ یہی ہے کہ انہیں پیدا ہی نہ ہونے دیا جائے۔ مرغیوں کی جینیاتی طور پر تبدیل شدہ نسل کی تیاری پر کام کرنے والی سائنس دانوں کی ٹیم کے سربراہ یوول سینامون ہیں۔

سینامون کے مطابق ان کی ٹیکنالوجی یہ شناخت کرتی ہے کہ انڈے میں جانے والے جنین نرکو جنم دیں گے یا مادہ کو۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنی تحقیق کے حوصلہ افزا نتائج حاصل کرنے میں سات سال لگے ہیں۔ اس تحقیق میں ان کے ساتھ خوراک پر کام کرنے والی ایک امریکی اسرائیلی کمپنی ہومین بھی شامل تھی۔ سینامون کا کہنا ہے کہ نر اور مادہ چوزے پیدا کرنے والے جنین کی شناخت کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے بعد ان کی ٹیم نے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ ایسی مرغیوں کی نسل تیار کرنے پر کام شروع کیا۔ جو انڈے میں صرف مادہ جینز کی ہی نشوونما کرے اور نر جنین کو رد کر دے۔

سینامون کی ٹیم کی تحقیق کو سادہ لفظوں میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ بارآور ہونے کے بعد نر جنین کی پرورش کا راستہ رک جاتا ہے اور مادہ جنین ہی انڈے میں پروان چڑھتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کے کئی فوائد ہیں۔ اس سے نہ صرف نر چوزے بے موت مارے جانے سے بچ جائیں گے۔ بلکہ چوزے پیدا کرنے والی کمپنیوں کو اس جگہ اور اخراجات کی بھی بچت ہو گی۔ جہاں وہ نر چوزوں کو رکھتے ہیں اور انہیں تلف کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ٹیکنالوجی کے تجارتی فوائد دو سال کے بعد سامنے آئیں گے۔ جب اس کا کاروباری شعبے میں استعمال شروع ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں انڈوں سے چوزے نکلنے کے فوراً بعد نر اور مادہ کی شناخت کر کے انہیں الگ الگ کر دیا جاتا ہے۔ مادہ چوزے پولٹری فارم والے خرید لیتے ہیں۔ جبکہ نر چوزوں کو مختلف طریقوں سے اجتماعی طور پر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ کوئی ان کا خریدار نہیں ہوتا۔ بعض ترقی یافتہ ممالک کے باشندے انڈہ دینے والی مرغیوں کے نر نہیں کھاتے۔ اس لیے انہیں مارنا ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ ان کی خوراک پر خرچ کو رقم کا زیاں سمجھا جاتا ہے۔

نر چوزوں کو محض مالی فائدے کے لیے ہلاک کرنا ایک وحشیانہ عمل ہے اور دنیا بھر میں جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں اس کے خلاف ایک عرصے سے آواز اٹھا رہی ہیں۔ جس کا اب کچھ نہ کچھ اثر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ کئی یورپی ملکوں نے نر چوزوں کو مارنے پر پابندی لگا دی ہے۔ جرمنی میں یہ پابندی اس سال لگی ہے۔ جبکہ فرانس میں بھی آنے والے دنوں میں اس پابندی پر عمل ہونے والا ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس پابندی کے بعد پولٹری فارم ان نر چوزوں کو کب تک پالے پوسیں گے۔ جن سے انڈے مل سکتے ہیں نہ ان کا گوشت صارفین خریدنے پر تیار ہیں۔ انہیں پالنا بظاہر سالانہ اربوں ڈالرکے خسارے کا سودا ہے۔