پاکستان جونیئر لیگ ختم کرنے کے فیصلے پر رمیز راجہ کا ردعمل بھی سامنے آگیا۔فائل فوٹو
پاکستان جونیئر لیگ ختم کرنے کے فیصلے پر رمیز راجہ کا ردعمل بھی سامنے آگیا۔فائل فوٹو

تاریخی شکست کے ذمے دار رمیز راجہ و ٹیم انتظامیہ قرار

قیصر چوہان:
بابر اعظم کی قیادت میں پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کو اپنے اکھاڑے میں تاریخ کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑگیا ہے۔ ستّر برس بعد گرین کیپس کو ہوم گرائونڈ پر برطانیہ کے ہاتھوں وائٹ واش ہوئی۔ جس کی اصل وجوہات کپتان اور ہیڈ کوچ کی جانب سے پلیئنگ الیون کی تیاری میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ قرار دیا جارہا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ کپتان اور ہیڈکوچ کی ملی بھگت سے بعض باصلاحیت پلیئرز کو اس سیریز میں نظر انداز کیا گیا۔ جبکہ رضوان اور فہیم اشرف جیسے تھکے ہوئے کھلاڑیوں کو کھلانے سمیت غیر موثر بالنگ اٹیک اور انگلینڈ جیسی ٹاپ رینک ٹیم کیخلاف ناتجربہ کار کھلاڑیوںکو موقع دینا ہے۔ پاکستانی بیٹنگ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت یہ تھا کہ سیریز سے قبل میزبان انتظامیہ نے فیس سیونگ کیلئے مردار وکٹیں تیار کیں۔ تاہم ایسی وکٹ پر بھی پاکستانی بلے بازوں کا زیادہ دیر ٹہرنا ناممکن رہا اور پاکستان کو سیریز تین صفر سے بدترین شکست ہوئی۔ واضح رہے کہ کراچی ٹیسٹ میں سرفراز احمد کو اسکواڈ میں شامل کرنے پر بابر اعظم ہی رکائوٹ بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ رضوان فارم میں ہیں۔ لہذا کام آسکتے ہیں۔ تاہم رضوان پوری سیریز میں لنگڑا گھوڑا ثابت ہوئے۔ دوسری جانب ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق کی بھی نااہلی کھل کر سامنے آئی ہے۔ ان کی اور کپتان کی ملی بھگت سے بعض باصلاحیت کھلاڑیوں کا ٹیم میں واپسی کا راستہ بند کیا گیا۔

میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق کرکٹر عاصم کمال کا کہنا ہے کہ سیریز کیلئے تیار کی جانے والی پچز کی طرح پاکستانی بیٹنگ لائن بھی مردار دکھائی دی۔ ایسا معیار اگر ٹیسٹ کرکٹ میں رکھنا ہے تو پی سی بی کو چاہیے وہ ٹیم ہی ختم کردے اور صرف اپنی توجہ ٹی ٹوئنٹی جیسی آسان کرکٹ پر مرکوز رکھے۔ جس میں کوئی بھی کھلاڑی بڑا بلے باز بن سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’ورلڈکپ سے قبل اگر ٹیم انتظامیہ اور چند ناکارہ کھلاڑی تبدیل نہ کیے گئے تو پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے‘‘۔

چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کے حوالے سے انہوں نے کہا ’’رمیز راجہ سینئر کھلاڑیوں کے ساتھ ناانصافی برت رہے ہیں۔ کئی نامور پلیئرز کا کیرئیر تباہ ہوچکا ہے۔ میرے خیال میں اس شرم ناک شکست کی ذمہ داری چیئرمین پی سی بی، سلیکشن کمیٹی اور کوچز پر عائد ہوتی ہے۔ میری معلومات کے مطابق ایسی فلیٹ پچز بیٹنگ کوچ محمد یوسف کے کہنے پر تیار کی گئی تھی۔ ایسی وکٹ پر بھی بیٹنگ لائن کا نہ چلنا بڑا سوالیہ نشان ہے۔ سیریز کیلئے منتخب کھلاڑیوں کی باڈی لینگویج سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ نہ تو ان کی فٹنس ٹیسٹ کرکٹ کے معیار کے مطابق ہے اور نہ وہ سلیکشن کے معیار پر پورا اترسکے۔ پاکستان کے پاس کوالٹی ٹیسٹ پلیئرز کی قلت واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی اہم وجہ چیئرمین کی ڈومیسٹک اور کلب کرکٹ پر عدم توجہی ہے۔ اس مسئلے کا ادراک نہ کیا گیا تو مستقبل میں پاکستانی ٹیم ٹیسٹ کھیلنے کے قابل ہی نہیں رہے گی‘‘۔

دوسری جانب سابق ٹیسٹ کرکٹر عبدالرئوف کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان ٹیسٹ کرکٹ کی ایسی بری پوزیشن ماضی میں بھی دیکھنے کو نہیں ملی۔ یہاں پسند نا پسند کے سبب ٹیم کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے۔ پاکستانی ٹیسٹ کو بہتر بنانے کیلئے نئی ٹیم انتظامیہ کو لانا ناگریز ہوچکا ہے۔ اس تاریخی بدترین شکست کے ذمہ دار چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ، چیف سلیکٹر محمد وسیم، ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق ہیں۔ میرا وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے مطالبہ ہے کہ انگلینڈ کے ہاتھوں ناکامی کا نوٹس لیں اور ذمہ داروں کیخلاف سخت ایکشن لیا جائے‘‘۔

اسی طرح سابق ٹیسٹ کرکٹر عامر نذیر کا کہنا ہے کہ ’’میرے خیال میں اس شکست میں بابر اعظم کا زیادہ کوئی قصور نہیں۔ ہم صرف بابر اعظم پر انحصار نہیں کرسکتے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستانی کھلاڑیوں کی فٹنس ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے قابل ہی نہیں۔ اس کا منہ بولتا ثبوت حارث رئوف اور نسیم شاہ کی انجری ہے۔ دونوں کی فٹنس صرف چار چار اوورز کرانے والی ہے۔ ہمیں ٹیسٹ ٹیم کو بہتر بنانے کیلئے سپر فٹ اور باصلاحیت کھلاڑیوں کی ضرورت ہے۔ اگر تھوڑی کوشش کی جاتی تو ملتان ٹیسٹ جیتنے کا آسان موقع موجود تھا۔ لیکن دفاعی حکمت علمی ہوم گرائونڈ میں کسی صورت کامیاب نہیں ہوتی۔ آئندہ نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز میں ٹیم میں بڑے پیمانے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ میر حمزہ جیسے باصلاحیت بالر کو موقع نہیں دینا ناانصافی ہے‘‘۔

واضح رہے کہ اس سیریز میں وائٹ واش شکست کے بعد اب پاکستان آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کی دوڑ سے مکمل طور پر باہر ہوچکا ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابراعظم کی قیادت میں قومی ٹیم سال 2022ء میں محض ایک میچ جیت سکی۔ پاکستان نے 2022ء میں آسٹریلیا کیخلاف تین ٹیسٹ میچز کی سیریز کھیلی۔ جس میں 2 میچز ڈرا اور ایک میں پاکستان کو ناکامی ہوئی۔ سری لنکا کے خلاف دو میچز کی سیریز 1-1 سے برابر رہی۔ انگلینڈ نے تین ٹیسٹ میچز کی سیریز میں پاکستان کو کلین سوئپ کرتے ہوئے تاریخ رقم کی۔ 2022ء میں قومی ٹیم نے 8 ٹیسٹ میچز کھیلے۔ تاہم صرف ایک میں کامیابی حاصل کرسکی۔ اس کے برعکس گزشتہ سال قومی ٹیم نے 8 ٹیسٹ میچز کھیلے تھے۔ جس میں 7 جیتے اور ایک میں ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بابراعظم اور ٹیم مینجمنٹ کی جانب سے فواد عالم اور سابق کپتان سرفراز احمد کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔ جو ٹیم کی شکست کا سبب بن رہا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم تاریخ میں پہلی بار ٹیسٹ سیریز میں اپنی سرزمین پر وائٹ واش ہوئی۔ انگلینڈ نے سیریز کے تیسرے میچ میں 8 وکٹوں سے فتح حاصل کی۔ قومی کرکٹ ٹیم نے انگلش الیون کو جیت کے لیے 167 رنز کا ہدف دیا۔ جو اس نے 2 وکٹوں کے نقصان پر پورا کرلیا۔ انگلینڈ کی جانب سے اوپنر بین ڈکٹ 82 اور کپتان بین اسٹوکس 35 رنز بنا کر ناٹ آئوٹ رہے۔