ترسیلات زر میں خوفناک کمی، حوالہ کاروبار پھلنے پھولنے لگا

کراچی(رپورٹ : سید نبیل اختر) پاکستان میں ہنڈی ریٹ 29 روپے ہونے کے باعث ترسیلات زر میں خوفناک حد تک کمی ہوگئی ۔ بیرون ملک سے پاکستان رقوم بھجوانے والوں نے حوالہ میکرز کی خدمات حاصل کرلیں ۔

مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 784 ملین ڈالر کی کمی سے 60715 ارب ڈالر رہ گئے ،ذخائر کی موجودہ رقم سعودی عرب ، چین اور دیگر ملکوں سے بطور قرض لی گئی تھی ۔عملی طور پر پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہوچکے ہیں ۔ڈالر ریٹ نہ بڑھانے سے حوالہ کاروبار پھلنے پھولنے لگا ۔

 اہم ذرائع نے بتایا کہ حکومت  پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر ہنڈی کے کاروبار سے وابستہ افراد کے خلاف بڑے کریک ڈاؤن کیلئے ملک بھر میں ایف آئی اے کی  ٹیمیں تو تشکیل تو دے دی ہیں تاہم پاکستان میں حوالہ /ہنڈی کا کاروبار ان دنوں بہت بڑے پیمانے پر کیا جارہا ہے جس کی واضح مثال مرکزی بینک کی رپورٹ ہے جس میں ترسیلات زر میں کمی کا رجحان برقرار رہا اور رواں مالی سال  کے پہلے پانچ ماہ کے دوران 9.77 فیصد گر گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ بیرون ملک سے پاکستان رقوم بھجوانے والے بیشتر پاکستانی  ڈالر ریٹ فکس ہونے کی وجہ سے ہنڈی کے ذریعے رقوم بھجوارہے ہیں  جس پر انہیں فی ڈالر 255 روپے کی ادائیگی کی جارہی ہے تاہم انہیں فی ڈالر 240 اور 242 روپے کی رسید بناکر دی جاتی ہے ، پاکستان میں ہنڈی ریٹ  تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے  جو ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سبب ہے ۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان  کے مطابق مالی سال کے جولائی تا نومبر کے دوران ترسیلات زر میں 12 بلین ڈالر کی آمد ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ مالی سال (FY22) کی اسی مدت میں 13.3 بلین ڈالر کے مقابلے میں 1.3 بلین ڈالر کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔نومبر 2022 میں  ترسیلات زر نے ماہانہ 2 بلین ڈالر سے زائد کی آمد کو برقرار رکھا۔ یہ آمد اگست 2020 کے بعد سب سے کم ہے۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ سمیت اہم راہداریوں میں رواں مالی سال کے پہلے پانچ مہینوں کے دوران کمی کا رجحان دیکھا گیا۔ مالی سال 23 کے جولائی تا نومبر کے دوران سعودی عرب سے آمدن 13 فیصد کم ہوکر 2.957 بلین ڈالر ہوگئی۔ آمدن میں کمی کے باوجود سعودی عرب 25 فیصد حصہ کے ساتھ مجموعی رقوم میں سب سے بڑا حصہ دار ہے۔

زیر جائزہ مدت کے دوران، متحدہ عرب امارات سے گھریلو ترسیلات 2.26 بلین ڈالر تھیں، جو کہ 11 فیصد کم ہیں۔ مزید برآں، مالی سال 2023کے پہلے پانچ مہینوں میں برطانیہ سے ترسیلات زر 8 فیصد کم ہو کر 1.66 بلین ڈالر رہ گئے۔ماہ بہ ماہ کی بنیاد پر، نومبر 2022 کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں 4.8 فیصد اور سالانہ بنیادوں پر 14.3 فیصد کمی واقع ہوئی۔ملک نے نومبر 2022 میں 2.1 بلین ڈالر کی ترسیلات زر حاصل کیں جو نومبر 2021 میں 2.5 بلین ڈالر تھیں۔ نومبر 2022 میں ترسیلات زر میں بھی اکتوبر 2022 کے مقابلے میں 107 ملین ڈالر کی کمی واقع ہوئی، جس میں 2.216 بلین ڈالر کی ترسیلات آئیں۔نومبر 2022 کے دوران ترسیلات زر کی آمد بنیادی طور پر سعودی عرب سے498 ملین ڈالر ، متحدہ عرب امارات 377.8 ملین ڈالر، برطانیہ299.1 ملین ڈالر  اور  متحدہ امریکہ (USA) سے 229.4 ملین ڈالر تھی۔ملک کو ملکی زرمبادلہ کے بڑھتے ہوئے ذخائر کی تعمیر کے لیے صحت مندانہ ترسیلات زر کی غیر ملکی آمد کے سنگین بحران کا سامنا ہے۔

 اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر گزشتہ ہفتے کے اختتام پر 6.7 بلین ڈالر تھے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے ڈالر ریٹ 226.21روپے فکس کردیا ہے  جس کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے حوالہ میکرز  کی خدمات حاصل کرلی ہیں ، جن کی جانب سے 29 روپے اضافے کے ساتھ  رقوم پاکستان  میں  ادا کردی جاتی ہیں ، اس ضمن میں مزید تفصیلات کے مطابق خانانی اینڈ کالیا منی ایکس چینج کمپنی کے خلاف  ایف آئی اے کارروائی کے دوران   حوالہ ریٹ 50 پیسے مقرر تھا تاہم اب وہ ریٹ 29 روپے ہوگیا ہے جس کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانیوں نے  بینکو کے ذریعے پیسہ بھیجنے کے بجائے ہنڈی ، حوالہ میکرز کی خدمات حاصل کرلی ہیں جو پاکستان میں ڈالر کی مساوی رقم کی فی ڈالر 29 روپے اضافے کے ساتھ ادائیگی کررہے ہیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر گزشتہ ہفتے کے دوران 784 ملین ڈالر کی کمی سے 6.715 ارب ڈالر رہ گئے۔

اسٹیٹ بینک کے ذخائر کی موجودہ سطح جون 2019 کے بعد سب سے کم ہے۔اسٹیٹ بینک کے مطابق، یہ کمی پاکستان انٹرنیشنل سکوک اور کچھ دیگر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی مد میں 1,000 ملین امریکی ڈالر کی ادائیگی کی وجہ سے ہوئی ہے۔قرضوں کی ادائیگیوں میں سے کچھ کی ادائیگی آمدن سے ہوئی، جس میں کچھ ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (AIIB) سے موصول ہونے والے 500 ملین امریکی ڈالر شامل تھے ۔ہفتہ وار فاریکس رپورٹ کے مطابق، 2 دسمبر 2022 کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران ملک کے پاس موجود کل مائع زرمبادلہ کے ذخائر 797 ملین ڈالر کم ہو کر 12.582 ڈالر رہے۔وہیں کمرشل بینکوں کے پاس موجود زرمبادلہ کے خالص ذخائر بھی کم ہو کر 5.867 بلین ڈالر رہ گئے۔

دوسری جانب مرکزی بینک کی جانب سے اسٹیٹ بینک نے نئی ‘‘گورنر کی سالانہ رپورٹ 2021-22ء’’ جاری کردی ہے ، بینک دولت پاکستان کی جاری کردہ گورنر کی سالانہ رپورٹ 2021-22ء میں کہا گیا کہ مالی سال 22ء میں تخمینے سے بڑھ کر مہنگائی میں بیرونی اور ملکی عوامل کے امتزاج نے کردار ادا کیا۔  خاص طور پر توقع سے زیاد ملکی طلب اور غیرمتوقع مالیاتی توسیع کے ہمراہ عالمی اجناس کی قیمتوں میں توقع سے زیادہ اضافے اور زر مبادلہ کی شرح میں کمی ایک ایسے سال میں مہنگائی کو تحریک دینے والے اہم عوامل تھے جو دنیا بھر میں پالیسی سازوں کے لیے غیرمعمولی طور پر اتار چڑھاؤ کا حامل اور دشوار ثابت ہوا۔

’’گورنر کی سالانہ رپورٹ 2021-22ء‘‘ جو اسٹیٹ بینک کی اس نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956ء (جنوری 2022ء تک ترمیم شدہ) کی شق 39 (1) کے تحت شائع کی گئی ہے جس کی رو سے گورنر کو بینک کے اہداف کے حصول، زری پالیسی کے طرز عمل، معیشت کی کیفیت اور مالی نظام کے بارے میں مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو سالانہ رپورٹ پیش کرنی ہے۔ اس شق نیز ترمیم شدہ ایکٹ کی شق 4(B) میں مندرجہ اسٹیٹ بینک کے اہداف کے مطابق یہ رپورٹ چار الگ الگ ابواب میں منقسم ہے جو پاکستانی معیشت کی کیفیت اور مالی نظام؛ قیمتوں کے استحکام اور زری پالیسی کے طرز عمل؛ مالی استحکام اور حکومت کی معاشی پالیسیوں کی معاونت کے لیے کیے گئے اقدامات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 22ء کے دوران ملکی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی(NCPI) 12.2 فیصد تک پہنچ گئی جو گذشتہ سال 8.9 فیصد رہی تھی، نیز وہ مالی سال 22ء کے لیے حکومت کے ہدف 8 فیصد سے اور خود اسٹیٹ بینک کے تخمینے 9 سے 11 فیصد کی رینج سے بھی آگے نکل گئی۔ چنانچہ مہنگائی قیمت میں استحکام کے مقصد سے دور رہی جسے حکومت نے 5 تا 7 فیصد کے وسط مدتی ہدف کی صورت میں سامنے رکھا تھا۔

 تاہم رپورٹ میں یہ بات اجاگر کی گئی کہ پاکستان واحد ملک نہیں ہے جہاں مہنگائی سال کے آغاز میں کی جانے والی سرکاری پیش گوئیوں سے زائد رہی، عالمی اقتصادی ماحول ویسے بھی خاصا صبر آزما ہے جس کی علامت عالمی رسدی زنجیروں میں رکاوٹیں اور روس یوکرین کا تنازع ہے۔ملکی طلب توقع سے زیادہ تیزی سے بڑھی، جس کا بڑا سبب مالی سال 22ء کے دوران غیر منصوبہ جاتی مالیاتی توسیع ہے، جبکہ سال گزنے کے ساتھ ساتھ اجناس کے عالمی نرخوں میں اضافے سے مہنگائی، بیرونی کھاتے اور روپے پر دباؤ بڑھ گیا۔ بہرحال، کووڈ کی وبا سے عالمی نجات کی کیفیت غیر یقینی ہے جس کی بنا پر پالیسی اقدامات کے درست وقت کا تعین کرنا پیچیدہ ہوگیا ہے۔ اس سے قطع نظر، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے مہنگائی کے دباؤ کے مقابلے کے لیے مالی سال 22ء کی پہلی سہ ماہی سے اقدامات شروع کردیے تھے، جن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بدلتے ہوئے منظر نامے کے علاوہ مہنگائی، مالی استحکام، اور نمو کو لاحق خطرات کو متوازن رکھنے کے پیشِ نظر زری سختی کی رفتار سوچی سمجھی رکھی گئی۔

مزید برآں، زری پالیسی کمیٹی کے اجلاسوں کی تعداد بھی سال میں چھ سے بڑھا کر آٹھ کر دی گئی تاکہ تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال کے جواب میں زری پالیسی کی تشکیل زیادہ بہتر طریقے سے کی جائے۔ مالی سال 22ء کے دوران پالیسی ریٹ مجموعی طور پر 675 بی پی ایس بڑھایا گیا جبکہ ملکی طلب کو محدود کرنے کے لیے میکرو پروڈنشل ماحول کو بھی سخت کیا گیا۔مالی نظام کے استحکام میں کردار ادا کرنا بھی اسٹیٹ بینک کے مقاصد میں شامل ہے، اس تناظر میں رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگرچہ مالی منڈیوں پر کچھ دباؤ تھا، جس سے مالی اثاثوں کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور دباؤ آیا، تاہم وہ بغیر کسی خاص رکاوٹ کے ہموار طور پر کام کرتی رہیں۔ ملک کا مجموعی مالی شعبہ دورانِ سال مستحکم اور لچک دار رہا کیونکہ مالی شعبے میں سب سے بڑے حصہ دار بینکاری شعبے کی شرحِ کفایتِ سرمایہ ملک کی ضوابطی ضروریات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معیارات سے بھی بلند رہی۔گورنر کی سالانہ رپورٹ مالی سال 22ء میں ان اقدامات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جو اسٹیٹ بینک نے حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی معاونت کے لیے کیے تھے، اور جو معاشی ترقی کو فروغ دینے اور پیداواری وسائل کے بہتر استعمال کے اس کے تیسرے مقصد کو پورا کرتے تھے۔

 بالخصوص، یہ رپورٹ ملک میں مالی شمولیت، مالی ترقی اور مالی لین دین کی دستاویزیت کو فروغ دینے کی غرض سے اسٹیٹ بینک کی فعال کوششوں کو اجاگر کرتی ہے۔ ان میں یہ اقدامات شامل ہیں: ترسیلاتِ زر میں اضافے کے لیے اور روشن ڈجیٹل اکاؤنٹ اسکیم اور دیگر اقدامات کی وساطت سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے نئی سرمایہ کاریاں لانا؛ راست (Raast) کے استعمال سے فرد سے فرد کو فوری ادائیگیوں کے ذریعے ادائیگیوں کی ڈجیٹائزیشن؛ خواتین کی مالی شمولیت کو بہتر بنانے کے لیے ’برابری پر بینکاری ‘ پالیسی کا آغاز؛ اور پاکستان میں ڈجیٹل بینکوں کے قیام کے لیے ڈجیٹل بینک فریم ورک کی آمد۔مستقبل کے تناظر میں، رپورٹ منفی بیرونی اور ملکی پیشرفت کے مسلسل اثرات سے مستقبل قریب کے اہم چیلنجوں کو بیان کرتی ہے جو حالیہ سیلاب کی وجہ سے مزید بڑھ گئے ہیں۔ یہ چیلنج سست رفتار نمو اور مہنگائی اور بیرونی محاذ پر بلند دباؤ کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ مالی سال 23ء کے دوران ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہوگی ان میں محتاط زری اور مالیاتی پالیسیاں، غذائی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات، آئی ایم ایف پروگرام کو ٹریک پر رکھنے کو یقینی بنانا، اور زیرِ منصوبہ بیرونی رقوم کا بروقت حصول شامل ہیں۔ مجموعی درآمدی بل کو محدود رکھنےکے لیے لازم ہو گا کہ مطلوبہ مالیاتی یکجائی حاصل کی جائےاور توانائی کی درآمدات کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ وسط مدت کے دوران، ترقی کے اتار چڑھاؤ کی تکرار سے بچنے اور معیشت کی لچک کو بڑھانے کے لیے جو ساختی اصلاحات ناگزیر ہیں ان کا تعلق پیداواری صلاحیت، برآمدی مسابقت، اور ملکی بچتوں اور سرمایہ کاری میں اضافے سے ہے ۔