اقبال اعوان:
کراچی میں دودھ مافیا ایک بار پھر بے لگام ہونے لگی۔ نئے کمشنر کراچی کے آتے ہی دودھ کی قیمت میں فی لیٹر دس روپے اضافہ کر دیا۔ جس کے بعد دودھ ایک سو نوے روپے فی لیٹر تک جا پہنچا ہے۔ جبکہ دودھ مافیا ڈھائی ماہ بعد رمضان کے مہینے میں فی لیٹر دودھ کی قیمت 250 روپے کرنے کیلئے بھی سرگرم ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل کراچی کے نئے کمشنر سہیل راجپوت نے جب چارج سنبھالا تو ڈیری فارمر ایسوسی ایشن نے دودھ کی قیمت بڑھانے کا خود فیصلہ کر لیا اور ڈیڈ لائن دی کہ دودھ کی قیمت 200 روپے لیٹر کر دیں گے۔ جبکہ اس دوران کراچی میں دودھ 180 روپے سرکاری ریٹ پر مل رہا تھا۔ بعد ازاں جواز بنایا گیا کہ اخراجات زیادہ آرہے ہیں اور دودھ کی قیمت نہیں مل رہی۔ لہذا شہر میں دودھ کی سپلائی روک دی جائے گی۔ جس پر نئے کمشنر کراچی نے دودھ کی قیمت میں 10 روپے اضافے کا اعلان کر دیا۔ اس طرح کراچی میں دودھ 190 روپے لیٹر ہو گیا۔ تاہم اب دودھ مافیا سرگرم ہے کہ ان کو فی لیٹر دودھ کی لاگت 220 روپے پڑ رہی ہے۔ لہٰذا مزید قیمت بڑھانے پر نظر ثانی کی جائے۔ ڈیری ایسوسی ایشن کی جانب سے قیمت ایک بار پھر بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دودھ 210 روپے فی لیٹر کیا جائے۔ جبکہ ڈھائی ماہ بعد رمضان کے مہینے میں شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے لیے دودھ فی لیٹر 250 روپے کرنے کیلئے بھی تیاری کی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ دودھ کی سرکاری قیمت 190 روپے مقرر ہے۔ اس سے قبل سابقہ کمشنر کراچی اقبال میمن نے دو ماہ قبل فی لیٹر دودھ کی قیمت 120 روپے میں 60 روپے اضافے کے بعد 180 رویپ مقرر کی تھی۔ اس وقت بھی بعض مقامات پر دودھ 220 روپے تک فی لیٹر مل رہا تھا اور شہر میں پرائز کنٹرول کمیٹی چھاپے مار کر منافع خوروں کے خلاف کارروائی کرتی رہی تھی۔ اب پرائز کنٹرول کمیٹی والے بھی چھاپے نہیں مار رہے۔ جس پر دودھ فروش مرضی کے ریٹ وصول کر رہے ہیں۔ دکانوں سے ریٹ کی فہرستیں ہٹا دی گئی ہیں۔ دودھ 220 روپے تک اور دہی فی کلو 400 روپے کلو تک مل رہا ہے۔ لسی فی گلاس 110 روپے۔ اس طرح دودھ سے بننے والی مٹھائیاں، کھانے کی اشیا کھیر، ربڑی، چائے بھی مہنگی کی جارہی ہے۔
کراچی میں سردیوں کے دوران دودھ کی قلت ہوجاتی ہے کیونکہ چائے کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ جبکہ سردیوں میں دودھ بھی جانور کم دیتا ہے۔ لہٰذا شہر میں یومیہ آنے والے دودھ کی مقدار 50 لاکھ لیٹرز سے کم ہو جاتی ہے۔ شہر میں کھپت تو 70 لاکھ لیٹرز سے زائد کی ہے۔ لہٰذا قلت بڑھنے پر دودھ مرضی کے ریٹ پر ملتا ہے۔ جبکہ کوالٹی کنٹرول کی عدم دلچسپی کے باعث دودھ مافیا دودھ میں پانی ڈال کر، سردیوں میں دودھ خراب ہونے کے ڈر کا بول کر برف کی سلیں ڈالتی ہے۔ جو پگھل کر کئی لیٹر پانی بن کر دودھ میں مل جاتا ہے۔ جبکہ کیمیکل سے تیار دودھ کی ملاوٹ بھی کی جا رہی ہے۔ دودھ کی کریم نکال کر فروخت کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ڈیری فارمر ایسوسی ایشن کے صدر شاکر گجر کا کہنا ہے کہ چارہ مہنگا ہو چکا ہے۔ دودھ دینے والی بھینس اور گائے بھی مہنگی ہو چکی ہیں۔ اوپر سے کرایہ بھی بڑھ گیا ہے۔ اس لئے دودھ کی فی لیٹر لاگت 220 روپے آرہی ہے۔ ایسے میں دودھ 190 روپے فی لیٹر کس طرح فروخت کریں۔ لہٰذا قیمت بڑھائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کو دیکھتے ہوئے ایک دو ماہ بعد دودھ کی قیمتیں 250 روپے تک فی لیٹر چلی جائیں گی۔ واضح رہے کہ کراچی میں چارے کی قلت ختم ہو چکی ہے۔ ملیر ندی، مضافاتی علاقوں، ملیر کے گوٹھوں اور سندھ سے وافر مقدار میں چارہ آرہا ہے اور قیمت بھی کم ہو چکی ہے۔ دوسری جانب دودھ کی قیمتیں بڑھنے پر شہریوں میں شدید بے چینی ہے کہ دودھ مافیا آئے روز قیمت بڑھا رہی ہے۔ پیٹرول، ڈیزل، سستا ہو رہا ہے۔ لیکن عوام کو ریلیف نہیں مل رہا۔ شہریوں نے مطالبہ کیا کہ دودھ مافیا کو کنٹرول کیا جائے اور دودھ کے معیار کو بھی چیک کیا جائے۔