آرمی چیف ہی میرے خلاف کوئی کرپشن کا کیس نکال لیں۔فائل فوٹو
آرمی چیف ہی میرے خلاف کوئی کرپشن کا کیس نکال لیں۔فائل فوٹو

’’عمران خان کی پیش گوئی پوری ہونا آسان نہیں‘‘

ندیم محمود:
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے مارچ، اپریل میں عام انتخابات ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔ اگر حالات اور بعض تکنیکی معاملات کو دیکھا جائے تو ان کی یہ پیشن گوئی پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ تکنیکی معاملات میں نئی مردم شماری اور اس کے تحت حلقہ بندیوں میں تاخیر کےعلاوہ پنجاب اور سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں شامل ہیں۔ سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے تو مارچ، اپریل میں عام انتخابات کا انعقاد ناممکن قرار دے دیا ہے۔

واضح رہے کہ ہفتہ کے روز لاہور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے پیش گوئی کی کہ انتخابات مارچ، اپریل میں ہو جائیں گے۔ تاہم زمینی حقائق بظاہر چیئرمین پی ٹی آئی کی اس پیشن گوئی کے برعکس ہیں۔ اس پیشن گوئی کے پورے ہونے کا انحصار بڑی حد تک وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے پر ہے۔ سیاسی پنڈتوں اور قانونی ماہرین کے بقول اگر گیارہ جنوری سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کا راستہ کھل جائے گا۔ پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن پاکستان، نوے روز کے اندر صوبے میں الیکشن کرانے کا پابند ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں الیکشن کمیشن پاکستان، آئین کے مطابق متعلقہ صوبوں میں نوے روز یا تین ماہ میں الیکشن کرانے کی تیاری کر چکا ہے۔ کچھ عرصہ قبل الیکشن کمیشن پاکستان نے اپنی پریس ریلیز میں بھی اس کی وضاحت کر دی تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ نون لیگ کے قانونی ماہرین نے اپنی پارٹی قیادت کو یہی بتایا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سو فیصد تحریک انصاف اور خاص طور پر وزیراعلیٰ پنجاب کے حق میں گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں تحریک انصاف کو اپنے ارکان کی تعداد پوری کرنے کے لیے تقریباً تین ہفتوں کا وقت مل گیا ہے۔ اس عرصے کے دوران تحریک انصاف اپنے مطلوبہ ارکان کی تعداد پوری کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ اس کا عندیہ پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کے اس اعلان سے بھی ملتا ہے۔ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی سے وزیراعلیٰ کے لیے اعتماد کا ووٹ لینے جارہے ہیں۔ اس کے لیے اجلاس کی تاریخ طے ہونا ہے۔ فواد چوہدری کے دعوے کے مطابق ان کے پاس ایک سو ستاسی ارکان موجود ہیں۔ یوں وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی۔
نون لیگی رہنمائوں کا اب بھی اگرچہ یہی دعویٰ ہے کہ اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب کے پاس نمبرز پورے نہیں۔ تاہم اصل حقیقت یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے نے نون لیگی قیادت کو خائف کر دیا ہے اور انہیں گیم ہاتھ سے نکلتا محسوس ہو رہا ہے۔ لندن میں شریف خاندان کے قریبی ذرائع کے مطابق موجودہ صورت حال پر شہباز شریف سمیت پاکستان میں موجود پارٹی قیادت نے اپنے قائد نواز شریف سے خصوصی مشورہ کیا ہے۔ اور ان کے سامنے قانونی ماہرین کی رائے کو بھی رکھا۔ ذرائع کے بقول ہائی کورٹ کے فیصلے سے نواز شریف بھی خوش نہیں اور ان کے خیال میں اس فیصلے سے تحریک انصاف اور چوہدری پرویز الٰہی کو فائدہ پہنچا ہے۔ ان ذرائع کے بقول اپنے قانونی ماہرین کی مشاورت سے نواز شریف کی ہدایت پر ہی نون لیگ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ نون لیگ نے اس رپورٹ کے فائل ہونے تک ابھی اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا تھا۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے مطابق نون لیگی وکلا نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے درخواست بھی تیار کر لی ہے۔

اگر وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور پی ٹی آئی اپنے طے شدہ پلان کے تحت جنوری میں پنجاب اسمبلی تحلیل کرا دیتی ہے تو بظاہر نوے روز میں صوبے میں الیکشن کرانے کا راستہ صاف ہو جائے گا۔ تاہم الیکشن کمیشن پاکستان کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کے مطابق معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ ان کے بقول مارچ، اپریل میں انتخابات سے متعلق عمران خان کی پیشن گوئی پوری ہونی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کنور دلشاد کا کہنا تھا ’’وزیراعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے متعلق گورنر کے احکامات کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں ہے۔ گیارہ جنوری کو اس پر بحث ہو گی جس میں وفاقی اور صوبائی، دونوں حکومتوں کو فریق بنایا گیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل بھی پیش ہوں گے۔ جبکہ پی ٹی آئی اپنا جواب جمع کرائے گی۔ لاہور ہائی کورٹ ممکنہ طور پر یہ فیصلہ سنا سکتا ہے کہ گورنر پنجاب کے جاری کردہ حکم کے تحت وزیراعلیٰ پنجاب پندرہ دن کے اندر اعتماد کا ووٹ لیں۔ اگر وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ لے لیتے ہیں اور عمران خان کی خواہش کے مطابق فوری پنجاب اسمبلی تحلیل بھی کر دیتے ہیں تو گورنر کو اس کی تعمیل کرنا پڑے گی۔ جبکہ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن بھی نوے روز میں صوبے میں الیکشن کرانے کا پابند ہے۔ یہاں تک تو سب ٹھیک ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف جنوری کے وسط یا تیسرے ہفتے میں صوبائی اسمبلی تحلیل کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اپریل کے وسط یا تیسرے ہفتے میں الیکشن کمیشن کو انتخابات کرانے ہوں گے۔ پہلا روزہ اکیس یا بائیس مارچ کو متوقع ہے۔ یعنی اکیس یا بائیس اپریل کو ماہ رمضان اختتام پذیر ہو گا۔ جس کے بعد عیدالفطر آجائے گی اور مئی کا مہینہ شروع ہونے کے قریب ہو گا۔ یوں عام انتخابات محض پانچ ماہ دور ہوں گے، جو اکتوبر میں شیڈول ہیں۔ ایسے میں الیکشن کمیشن پاکستان اپنا یہ اختیار استعمال کر سکتا ہے کہ ملک بھر میں الیکشن ایک ساتھ کرا دیئے جائیں۔ کیونکہ آئین کا آرٹیکل دو سو چوبیس کہتا ہے کہ اگر کوئی سیٹ ایسے موقع پر خالی ہو جائے جب عام انتخابات میں چار، پانچ ماہ باقی ہوں تو متعلقہ سیٹ پر ضمنی الیکشن عام انتخابات کے ساتھ کرایا جا سکتا ہے‘‘۔ کنور دلشاد کے بقول اگرچہ پورے صوبے میں انتخابات پانچ برس کے لیے ہوں گے۔ لیکن تکنیکی طور پر یہ ضمنی الیکشن ہی کہلائیں گے۔ اس صورت حال کو بھانپ کر ہی عمران خان ہر صورت تئیس دسمبر کو پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑنا چاہتے تھے۔ تاکہ صوبوں کے الیکشن اور عام انتخابات کے مابین فاصلہ بڑھ جائے، اور الیکشن کمیشن آرٹیکل دو سو چوبیس کی مدد نہ لے سکے۔ تاہم چوہدری پرویز الٰہی نے بظاہر عمران خان سے ہاتھ کر دیا۔ اور چیئرمین پی ٹی آئی کی خواہش کے مطابق اسمبلی تئیس دسمبر کو تحلیل نہیں ہو سکی۔ بعدازاں لاہور ہائی کورٹ کو گیارہ جنوری تک پنجاب اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی ضمانت دے کر پرویز الہٰی نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔

وقت سے قبل عام انتخابات کرانے میں ایک تکنیکی رکاوٹ نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے عمل میں تاخیر بھی ہے۔ جبکہ سیلاب سے بری طرح متاثرہ پنجاب اور سندھ کے ایک بڑے حصے کو لے کر حکومت کا کہنا ہے کہ کم از کم آٹھ ماہ تک جنرل الیکشن کرانا ممکن نہیں۔ نئی مردم شماری کے معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ اس عمل میں قبل ازیں تحریک انصاف کی حکومت تاخیر کر رہی تھی اور اب اس تاخیر میں نون لیگ کی موجودہ اتحادی حکومت اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق نئی مردم شماری کا عمل اس قدر سست روی کا شکار ہے کہ تاحال اسٹاف کی ٹریننگ بھی نہیں ہو سکی ہے۔

اس حوالے سے کنور دلشاد نے بتایا کہ نئی مردم شماری کے انتظامات کرنے کے لیے الیکشن کمیشن پاکستان نے وفاقی حکومت کو اکتیس مارچ کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے وزیراعظم شہباز شریف کو خط بھی لکھا جس میں واضح کیا گیا کہ نئی مردم شماری میں مزید تاخیر کی ذمہ داری ان پر ہو گی۔ وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن کی اکتیس مارچ کی مردم شماری کے جواب میں کہا ہے کہ وہ اپریل میں یہ عمل شروع کرا دے گی۔ اس سوال پر کہ اگر اپریل میں بھی وفاقی حکومت مردم شماری کا عمل شروع نہ کرا سکی تو عام انتخابات میں تاخیر تو نہیں ہو گی؟ کنور دلشاد کا کہنا تھاکہ ایسی کوئی آئینی مجبوری نہیں۔ ایسی صورت میں الیکشن کمیشن پاکستان دو ہزار سترہ کی مردم شماری کے مطابق ہونے والی حلقہ بندیوں کے تحت عام الیکشن کرا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن دو ہزار سترہ کی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیوں کا عمل مکمل کر چکا ہے۔