میگزین رپورٹ:
جادو اور جنات کے اثرات کا روحانی علاج کرنے والے عامل صاحب چند کیسز کے حوالے سے بتا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ، میرے پاس ایک آدمی آیا اور مجھے کہا کہ اس کے والد پر جنات کا اثر ہے۔
میں: لیکن تمہیں اس بات کا علم کیونکر ہوا؟ اس نے جواب دیا کہ جب بھی میرے والد جمعے کا خطبہ سنتے ہیں تو ان پر مرگی کے دورے پڑنے لگتے ہیں اور وہ نڈھال ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح وہ اکثر نماز میں مرگی کے دوروں کا شکار ہوتے ہیں اور ہر پیر کی رات وہ اپنے کمرے میں کسی کو نہیں گھسنے دیتے۔ یہاں تک کہ ان کی بیوی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس رات وہ اکیلے اپنے کمرے میں اندھیرے میں سوتے ہیں۔
اس شخص کی باتیں سن کر مجھے بھی کچھ تجسس ہوا اور میں اس کے ساتھ گیا۔ میرے ساتھ میرے تین ساتھی بھی موجود تھے۔ ہم اس مریض کے پاس پہنچے جو بہتر حالت میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی عمر پینتالیس سال کے لگ بھگ ہوگی۔ میں نے اس سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا : ’’محمود‘‘۔
میں: تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے ؟
محمود: مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے مجھ پر کوئی جنی حاوی ہوگئی ہے۔
میں: کیا تم اس سے چھٹکارا پانا چاہتے ہو ؟
محمود: بالکل میں اس سے عاجز آچکا ہوں۔ قریب ہے کہ یہ جنی میرے اور میری بیوی کے درمیان تفریق پیدا کرادے۔
میں: اچھا تم وضو کرو۔ میں نے خود بھی وضو کیا اور جو میرے ساتھ تھے ، انہیں بھی وضو کرنے کو کہا۔ پھر میں نے اپنے ایک ساتھی کو اس مرد پر تعویذ پڑھنے کو کہا۔ اس ساتھی نے اس پر وظیفہ پڑھنا شروع کردیا۔ ابھی اس نے وظیفہ مکمل نہیں کیا تھا کہ اس کے جسم میں کپکپاہٹ کے آثار واضح ہوئے۔ میں سمجھ گیا کہ جن حاضر ہوگیا ہے۔
میں: اللہ کے نام کے ساتھ ، تمہارا نام کیا ہے ؟
ایک مختلف آواز میں جواب دیا گیا: میں ایک جنی ہوں۔
میں: تمہارا نام؟
جنی نے ستیفریوس یا اسی طرح کا کوئی اور مشکل سا نام بتایا جو مجھے اب صحیح سے یاد نہیں۔
میں : تمہارا دین کیا ہے ؟ جنی جواب میں خاموش رہی۔
میں: مسلمان ہوں ؟
جنی: نہیں۔
میں: عیسائی ؟
جنی: نہیں ۔
میں: کافرہ ؟
جنی : ہاں۔ مجھے مذاہب کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
میں : تمہاری رہائش کہا ہے ؟
جنی: میں غواص جن کی ایک قسم ہوں، جو پانی میں رہتے ہیں۔ میں بحر احمر میں رہتی ہوں۔
میں: تو پھر تم محمود میں کیوں داخل ہوئیں؟
جنی: میں اس سے انتقام لینا چاہتی ہوں ۔
میں: اس بے چارے نے کیا کیا ہے ؟
جنی: ہمارا ایک عزیز جن تھا جو ایک آدمی میں داخل ہوا تھا۔ پس محمود نے اس جن کو مارا ، یہاں تک کہ اسے بہت تکلیف پہنچائی۔ محمود کو خود جنات سے بچانا آتا نہیں ہے اور دوسروں کو بچاتا پھرتا ہے۔ پس ایک رات اندھیرے راستے میں جب وہ جارہا تھا تو میں اس پر سوار ہوگئی۔
میں: تم اس پر کتنے سال سے ہو ؟
جنی: تقریباً بیس سال تو ہوگئے ہیں۔
میں: اچھا میں تم پر ایک بات پیش کرتا ہوں ۔ اگر تم چاہو تو اسے قبول کرلو اور اگر چاہو تو رد کردو۔ تم اس معاملے میں صاحب اختیار ہو۔
جنی: ہاں کہو۔
میں نے اسے قبولِ اسلام پیش کیا۔
جنی: اچھا مجھے کچھ سوچنے کی مہلت دو۔
میں: کتنی؟
جنی: تین دن۔
میں: ہرگز نہیں ۔ ہم تمہیں اس معاملے میں دس منٹ سے زائد نہیں دکے سکتے۔ تم اس میں خوب سوچ لو۔
بیس منٹ بعد۔
جنی: ہاں تو میں اسلام قبول کرتی ہوں لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ میں محمود کے ساتھ ہی رہوں گی اور اس سے نہ نکلوں گی۔
میں: یہ ایک اور معامہ ہے۔ اسلام قبول کرنا ایک الگ بات ہے۔ اگر تم اسلام قبول کرو گی تو اللہ پاک تمہیں جہنم کی آگ سے پناہ دے کر جنت میں داخل کریں گے۔
جنی: اچھا تو میں اسلام قبول کرتی ہوں۔
میں: تو پھر تم اپنی زبان سے گواہی دو۔ اس نے اپنی زبان سے کلمہ شہادت پڑھا اور توبہ کا اعلان کیا۔ اس موقع پر میں نے اسے ام ابراہیم کا اسلامی نام دیا۔
میں: اچھا تو اب توبہ کو مکمل کرنے کے لوازمات میں سے ہے کہ تم اپنے ظلم سے بھی باز آجائو۔
جنی: کون سا ظلم؟
میں: اس انسان کے جسم میں تمہارا وجود ۔ پس اب تو تمہیں اسے چھوڑنا ہی ہوگا۔
جنی: ہرگز نہیں۔ میں اس سے دو وجوہات کی بنا پر نہیں نکل سکتی۔ پہلا یہ کہ میں اس شخص کی شدید محبت میں گرفتار ہوں۔
میں: اچھا یہ تو رہی پہلی وجہ۔ دوسری وجہ کیا ہے ؟
جنی: دوسری وجہ یہ ہے کہ میں بحر احمر کے جن بادشاہ کی بیوی تھی۔ پس وہ مرگیا اور مجھے اور اپنی اولاد کو پیچھے چھوڑدیا۔ اس کی تمام اولاد کفر پر ہی قائم ہے۔ اگر انہیں میرے اسلام لانے کا اعلم ہوا تو وہ مجھے قتل کردیں گے۔
میں: بہرحال پہلی وجہ تو باطل ہے ۔ کیونکہ یہ شخص تجھ سے ہرگز محبت نہیں کرتا اور نہ ہی تجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ ابھی کچھ دیر قبل اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ تجھ سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔ بہرحال دوسری وجہ کہ تیری اولاد تجھے قتل کردے گی تو اس کا بچائو اس طرح ہوسکتا ہے کہ تو ان سے چھپ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بحر احمر کے علاوہ بحر اٹلانٹس ، بحر عرب اور بہت سے سمندر بنائے ہیں۔ تو ان میں سے کسی میں رہ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کر۔
جنی: اچھا میں نکلتی ہوں ، بس مجھے تین منٹ درکار ہیں ۔
تھوڑی دیر بعد وہ آدمی اپنی اصل حالت پر آگیا۔ ہم اس کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے ساتھ موجود میرے ساتھیوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جاچکی ہے۔ میں نے جواب دیا کہ ابھی ٹھہرو۔ مجھے اس شخص کی آنکھوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ اس میں ابھی تک موجود ہے۔ میں نے اس کے کندھے اور ران پر ہاتھ رکھا۔ پس مجھے یقین ہوگیا کہ وہ اس میں موجود ہے اور ہمیں دھوکا دینے کی کوشش میں ہے۔ میں نے اپنے ایک ساتھی کو دوبارہ وہی وظیفہ پڑھنے کو کہا۔ ابھی اس نے وظیفہ مکمل بھی نہیں کیا تھا کہ وہ جنی دوبارہ حاضر ہوگئی۔
میں: اے ام ابراہیم ! کیا تم اب ہمارے ساتھ اس طرح دھوکا کرو گی؟
جنی: میری بات کا یقین کرو میں اس شخص سے بہت ہی زیادہ محبت کرتی ہوں۔ گزشتہ بیس سال سے میں اس کے ساتھ ہوں اس لئے اب میں اس کا فراق برداشت نہیں کرسکتی۔
میں: صحیح ہے ۔ اس صورت میں ہمارے درمیان موجود محبت اور الفت والا معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔ اب ہمیں سختی اور مار یا جلانے کی حکمت عملی اختیار کرنی پڑے گی۔ یا تو شرافت سے نکل جائو یا میں قرآنی آیات کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہوں۔ اس صورت میں تمہیں مار اور آگ کے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جنی: نہیں ، ایسا نہ کرو ، میں نکلتی ہوں۔
اس کے بعد وہ دوتین منٹ تک نہایت غمگین آواز میں محمود کا نام لے کر چیختی رہی اور پھر وہ اس سے نکل گئی۔ اللہ تعالیٰ کا بہت ہی فضل ہے کہ وہی ہدایت دینے والا اور صحیح راستہ دکھانے والا ہے۔