ندیم محمود :
برے وقت میں ایک بار پھر عمران خان کو اپنا پرانا ساتھی یاد آگیا ہے۔ باوثوق ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے جہانگیر ترین کو منانے کے لئے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔ لیکن فی الحال برف نہیں پگھل سکی ہے اور یہ کہ تعلقات کی بحالی کے لئے پی ٹی آئی کے سابق رہنما نے ایسی کڑی شرائط رکھی ہیں۔ جنہیں پورا کرنے پر عمران خان کبھی آمادہ نہیں ہوں گے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ عمران خان نے گردش ایام سے گھبراکر اپنے ناراض ساتھی کو پکارا ہو۔ پچھلے برس فروری میں جب ترین گروپ کے ساتھ اس وقت کی اپوزیشن کے رابطے مضبوط ہورہے تھے تو تب بھی مزاج پرسی کے بہانے عمران خان نے ناراض ساتھی کو کال کی تھی۔ اصل مقصد جہانگیر ترین کو ’’دشمنوں‘‘ (اپوزیشن) کے ساتھ جا ملنے سے روکنا تھا۔ لیکن یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی تھی۔ اب ایک بار پھر قریباً ایک برس کے وقفے سے عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ ہوا ہے۔
پی ٹی آئی کے معتبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ قریباً دو ہفتے قبل عمران خان نے جہانگیر ترین سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا۔ اسے بھول کر نئے سفر کا آغاز کیا جائے۔ جس پر جہانگیر ترین نے شکوے شکایت کا پورا دفتر کھول دیا۔ ذرائع کے بقول پی ٹی آئی کے سابق سینئر رہنما کا کہنا تھاکہ ان کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، وہ بھلایا نہیں جا سکتا۔ نہ صرف ان کے بلکہ ان کے بیٹے کے خلاف بھی مقدمات درج کیے گئے۔ عمران خان نے خود کو نااہلی سے بچانے کے لئے انہیں قربانی کا بکرا بنایا۔
ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے سابق رہنما کا ساتھ ہی یہ بھی کہنا تھاکہ ان تلخیوں کو بھلانا بہت مشکل ہے۔ تاہم اگر عمران خان کو واقعی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور وہ پرانی باتوں کو بھلاکر تعلقات بہتر بنانے کے خواہش مند ہیں تو اپنے اس خلوص کو ثابت کرنے کے لئے انہیں چند شرائط ماننی پڑیں گی۔
ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین نے عمران خان سے مطالبہ کیا کہ وہ کچھ عرصے کے لئے پی ٹی آئی کے معاملات ان سمیت پارٹی کے پرانے ساتھیوں کے حوالے کر دیں۔ یہ مخلص ساتھی پارٹی کو بند گلی سے نکال سکتے ہیں۔ ذرائع نے جہانگیر ترین کی اس پیشکش کو از راہ تفنن اس جملے کے ساتھ جوڑا کہ ’’جہانگیر ترین نے عمران خان سے جو مطالبہ کیا ہے اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ بہادر شاہ ظفر بن جائیں‘‘۔ یعنی جس طرح مغل خاندان کے آخری بادشاہ نے بے بسی کے دنوں میں امور حکمرانی اپنے قریبی ساتھیوں کے سپرد کر دیئے تھے۔ چیئرمین پی ٹی آئی بھی یہی حکمت عملی اختیار کریں۔ تاہم عمران خان نے دو ہفتے گزر جانے کے باوجود ابھی تک جہانگیر ترین کی اس پیشکش کا جواب نہیں دیا ۔
اس معاملے سے آگاہ ذرائع کے بقول اگرچہ جہانگیر ترین نے مستقل طور پر نہیں، وقتی طور پر پارٹی معاملات پرانے ساتھیوں کے حوالے کرنے کی شرط رکھی ہے۔ تاکہ وہ پارٹی کو بند گلی سے نکال کر دوبارہ ان کے حوالے کردیں ۔ تاہم عمران خان کی شخصیت کو قریب سے جاننے والے کو علم ہے کہ وہ کبھی بھی ان کڑی شرائط کو تسلیم نہیں کریں گے۔
عمران خان کے جہانگیر ترین سے تازہ رابطے پر ایک سابق قریبی ساتھی کا کہنا ہے کہ کپتان کی بے بسی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور وہ اس وقت ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ کے محاورے کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ جہانگیر ترین کو منانے کی تازہ کوشش کا مقصد خطرے میںپڑی پنجاب حکومت کو بچانا بھی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ عمران خان نے ناراض جہانگیر ترین سے رابطہ کیا ہے۔ گزشتہ برس فروری کے اواخر میں بھی جب پی ٹی آئی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی نے ’’عوامی مارچ‘‘ کیا تھا اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی بھرپور تیاری کر رہا تھا تو تب بھی عمران خان نے ناراض رہنما جہانگیر ترین کے دربار پر حاضری دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ رابطہ بظاہر بیمار جہانگیر ترین کی مزاج پرسی کے لئے کیا گیا تھا۔ لیکن اندر کی خبر رکھنے والوں کو عمران خان کی مجبوری کا علم تھا۔ وہ یہ تھی کہ جہانگیر ترین گروپ کو اپوزیشن سے الگ کرکے تحریک عدم اعتماد کی کوششوں کو ناکام بنایا جاسکے۔ تاہم یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی تھی۔ جہانگیر ترین علاج کے نام پر لندن چلے گئے اور پھر اس وقت ہی واپس لوٹے جب اپوزیشن نے کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو گھر بھیج دیا تھا اور شہباز شریف وزارت عظمیٰ کی گدی سنبھال چکے تھے۔ تحریک عدم اعتماد میں ترین گروپ کے ارکان نے بھی اہم رول ادا کیا تھا۔
جہانگیر ترین، صرف ایک مقدمات کا زخم ہی نہیں لئے ہوئے۔ بلکہ انہیں بہت پہلے یہ علم ہوگیا تھا کہ عمران خان نے خود کو نااہلی سے بچانے کے لئے انہیں قربانی کا بکرا بنایا تھا۔ اس کا اظہار وہ اپنے قریبی لوگوں سے کرتے رہے۔ قریبی ذرائع کے بقول ان کا یہ زخم ابھی بھی مندمل نہیں ہوا ہے۔ جبکہ عمران خان کے تازہ رابطے کے چند دن بعد عون چوہدری نے اس کی تصدیق کرکے جہانگیر ترین کے زخم کو دوبارہ ہرا کر دیا ہے۔ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان کے بھیدی اور جہانگیر ترین کے قریبی ساتھی عون چوہدری نے کہا کہ پارٹی سے جہانگیر ترین اور ان کا بوریا بستر گول کرانے میں سابق خاتون اول بشریٰ بیگم کا رول تھا۔ ان کے کہنے پر دونوں کو سائیڈ کیا گیا۔ عون چوہدری کے بقول بشریٰ بیگم کو شکوہ تھا کہ جہانگیر ترین انہیں پیٹھ پیچھے جادوگرنی کہہ کے پکارتے ہیں۔ ایک تقریب میں بشریٰ بیگم نے ترین کو مخاطب کرتے ہوئے یہ شکوہ بھی کیا اور کہا تھا کہ وہ جادوگرنی نہیں۔ اس کے بعد سے جہانگیر ترین کا پارٹی میں زوال شروع ہوگیا۔
یاد رہے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے راستے ایک دوسرے سے دو ہزار بیس میں اس وقت جدا ہوگئے تھے۔ جب پی ٹی آئی کے دور حکومت میں شوگر ملز اسکینڈل کے تحت جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف مقدمے درج کیے گئے۔
عمران خان کی ہدایت پر قائم شوگر انکوائری کمیشن کی ایک رپورٹ کے بعد جہانگیر ترین کے خلاف تحقیقات شروع کی گئی تھیں۔ بعد ازاںمارچ دو ہزار اکیس میں جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف فراڈ اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ اگرچہ اب جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے کو منی لانڈرنگ کیس میںکلین چٹ مل گئی ہے۔ جمعرات کے روز سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق دونوں کے خلاف منی لانڈرنگ کے ثبوت نہیں مل سکے۔ لہٰذا ایف آئی اے اور وزارت داخلہ کی جانب سے عمران خان کے دور میں درج کیے جانے والے ان مقدمات کو خارج کرنے کے لئے مجسٹریٹ سے رجوع کیا جائے گا۔