نواز طاہر :
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پنجاب کے حکمران اتحاد میں کل سے سیاسی دنگل کا بڑا معرکہ شروع ہونے والا ہے جس میں پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ کل سے پنجاب اسمبلی کا اجلاس اور گیارہ جنوری کو وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹی فائی کیے جانے کیخلاف عدالت میں کیس کی سماعت شروع ہو رہی ہے، جس میں قوی امکان ہے کہ عدالت وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو گورنر کے حکمنامے پر عملدرآمد کرنے کیلئے اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کردے۔ اس حوالے سے 11 جنوری کی سماعت انہتائی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ دوسری جانب قانونی ماہرین کی غالب رائے یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ بہر صورت لینا پڑے گا ۔
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے آئین کے تحت حاصل اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہا تھا، لیکن اس کیلئے وقت بھی مقرر کردیا تھا۔ تاہم وزیراعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا تھا جس پر گورنر نے آئین ہی کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرکے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹی فائی کردیا۔ مگر عدالتِ عالیہ نے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد وزیراعلیٰ کی اس یقین دہانی پر مشروط طور پر عبوری حکمنامہ کے تحت وزیراعلیٰ اور کابینہ کو بحال کردیا تھا کہ وہ گورنر کو اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس جاری نہیں کریں گے۔
کل نو جنوری سے پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی شروع ہو رہا ہے اور اس کے ایک دن کے بعد عدالت ِ عالیہ لاہورکے فل بنچ میں وزیراعلیٰ کے مقدمے کی سماعت بھی شروع ہورہی ہے۔ اس سے پہلے ہفتے کو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے پنجاب کے چیدہ چیدہ وزراء کے ساتھ اجلاس کیا، جس میں تمام صورتحال کا جائزہ لیا، قبل ازیں انہوں نے قانونی ٹیم کے ساتھ بھی مشاورت مکمل کی جس کے بارے میں بارے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کو بتایا گیا ہے کہ گورنر کا ویراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا اقدام آئین کے مطابق ہے۔ اس معاملے کو عدالت میں لٹکایا تو جاسکتا ہے، لیکن اس اقدام کو ختم کروانا ناممکن حد تک مشکل ہے۔ جس پر کل سے شروع ہونے والے اجلاس کی حکمت عملی اسپیکر محمد سبطین خان کی موجودگی میں طے کی گئی اور یہ بھی طے کیا گیا کہ اعتماد کا ووٹ بھی لیا جائے گا اور اسمبلی بھی تحلیل کی جائے گی۔ اس سے پہلے ذرائع نے بتایا تھا کہ عمران خان، وزیر اعلیٰ کے اعتمادکے ووٹ کے حق میں نہیں۔ لیکن جب انہیں اعتماد کا ووٹ نہ لینے کے مابعد کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی تو انہوں نے اعتماد کا ووٹ لینے پرہاں کردی۔ لیکن ابھی بھی وہ چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے مکمل طور پر پُر اعتماد دکھائی نہیں دیتے۔ دو روز کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں اس کیس کی سماعت کے حوالے سے قانونی ماہرین کی غالب رائے ہے کہ عدالت دو، ایک روز میں ہی وزیر اعلیٰ کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے گورنر کے حکمنامے پر عملدرآمد کیلئے کہہ سکتی ہے۔ اور ممکنہ طور پر چند روز کا وقت بھی دے سکتی ہے۔
اس بارے میں ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے آئینی و قانونی ماہر عامر سہیل ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ، عدالت کے سامنے دو معاملات زیر سماعت ہیں۔ ایک یہ ہے کہ گورنر نے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹی فائی کیا۔ دوسرا گورنر نے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہا ہے۔ یہ دونوں معاملات آئین میں کسی ابہام کے بغیر بڑے واضح ہیں۔ آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ وزیر اعلیٰ اسوقت تک اپنے منصب تک قائم رہ سکتا ہے جب تک کہ گورنر چاہے۔ اور اگر گورنر نہ چاہے تو وہ وزیر اعلیٰ نہیں رہ سکتا۔ لیکن یہاں آئین نے گورنر کو بھی پابند کررکھا ہے کہ وزیراعلیٰ کو ہٹانے کا اختیار استعمال نہیں کرسکتا۔ بلکہ وزیراعلیٰ کو ہٹانے کا اختیار پارلیمان کو دیا گیا ہے اور گورنر، وزیراعلیٰ کو پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے رجوع کرنے کو کہے گا۔ آئین میں گورنر کا یہ اختیار کسی شرط سے پاک ہے اور اسی کے مطابق گورنر نے وزیراعلیٰ کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہا۔ لیکن وزیراعلیٰ نے اس پر عمل نہیں کیا بلکہ آئین پر عملدرآمد کے بجائے اس سے انحراف کیا اور اسی بنا پر وزیراعلیٰ کو گورنر نے ڈی نوٹی فائی کردیا۔ کیونکہ مقرر وقت میں گورنر کو نہیں بتایا گیا کہ اسمبلی نے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ دیدیا ہے۔ اس طرح عدالت نے دیکھنا ہے کہ کیا آئین گورنر کو اختیار دیتا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ دے، تو اس کا جواب اثبات میں ہے اور نہ لینے کے حق میں آئینی دلیل ہی کوئی نہیں۔ اسلئے عدالت گورنر کاحکم برقر رکھے گی تو یا وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹی فائی کرنے کا عبوری حکم واپس لے لے گی اور صوبائی حکومت ختم ہوجائے گی۔ عدالت اسمبلی کے جاری اجلاس کے دوران اعتماد کا ووٹ لینے کے گورنر کا حکمنامہ جاری کرنے کے گورنر کے آئینی اختیار کو ختم نہیں کرسکتی۔ جہاں تک جاری اجلاس کے دوران نیا اجلاس بلانے کا معاملہ ہے تو گورنرکا اختیار اس جواز پر آئینی طور پر بھاری ہے۔ کیونکہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ کس وقت اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہا جاسکتا ہے یا کس وقت نہیں؟ اس کے علاوہ عدالت نے جاری اجلاس کی حیثیت اور ورکنگ کو بھی دیکھنا ہے کہ یہ کیسے جاری رکھا گیا؟ کتنی ورکنگ ہوئی اور کتنے وقفے ہوئے؟
بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین محمد رمضان چودھری کا کہنا تھا کہ عدالت گورنر کے آئینی اختیار کو نظر انداز نہیں کرسکتی اور وزیراعلیٰ کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے برعکس کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔ البتہ عدالت کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی تشریح میں جواز پر بات کرسکتی ہے اور اسی جواز کی بنا پر وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے کچھ روز کی مہلت دے سکتی ہے۔ وہ وزیراعلیٰ کو اتنا ریلیف ضرور دے سکتی ہے کہ آئین میں کوئی ابہام ہی نہیں ہے۔
آئینی ماہر اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ عدالت چودھری پرویز الٰہی کی درخواست پر دو ایک روز میں نہیں، لمبی اور تفصیلی کارروائی کے بعد فیصلہ کرے گی۔ یہ درست ہے کہ وزیراعلیٰ ایوان سے کو اعتمادکا ووٹ لینے کیلئے کہنے کا اختیار آئین نے گورنر کو دے رکھا ہے۔ مگر اس کا جواز بھی بھی ہونا چاہئے اور یہ جواز عدالت اپنی تشریح میں بیان کرے گی۔ جہاں تک گورنر کے اختیار کا تعلق ہے تو وہ آئین میں واضح ہے، عدالت کے کہنے پر وزیر اعلیٰ اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا۔ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ۔