محمد علی :
بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہلدوانی میں مسلمان اپنے گھروں کو مسمار ہونے سے بچانے رات کو جاگنے پر مجبور ہیں۔ واضح رہے کہ مودی کے بھیانک دور میں غیر قانونی تعمیرات کے نام پر اب تک آسام، ہریانہ، اتر پردیش، دہلی، گجرات اور ریاست مدھیہ پریش میں ہزاروں مسلمانوں کے گھروں توڑ کران کے سر سے چھت چھین لی گئی ہے۔ جبکہ مساجد، قلعے اور درباروں سمیت مسلم نشانیاں بھی مٹائی جا رہی ہے اور کئی شہروں کے اسلامی نام تبدیل کئے چا چکے ہیں۔ اب ہلدوانی شہر میں بھی 4 ہزار 365 مکانوں پر نریندر مودی کی گندی نظر ہے، جو مسلمانوں پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ گوکہ مکینوں کو انڈین سپریم کورٹ سے ’’اسٹے آرڈر‘‘ کی صورت میں وقتی ریلیف مل گیا ہے، لیکن بی جے پی مذکورہ زمین کو ریلوے اراضی ثابت کرنے کیلیے سرگرم ہے۔
بستی کے اطراف انہدامی کارروائیوں کیلیے لائے گئے بلڈوزر بھی اب تک وہاں موجود ہیں، جو مسلمانوں میں خوف پھیلا رہے ہیں۔ ایک مقامی اخبار کے مطابق عدالتی حکم کے بعد ہلدوانی میں ’’بلڈوزر کی کارروائی‘‘ کا خطرہ فی الحال ٹل گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے انہدام کی کارروائی روکنے ہوئے ریلوے اور اترکھنڈ حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ حکومت صرف 7 روز میں جگہ خالی کرنے کا کہہ سکتی ہے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں۔ زمین کی نوعیت، حقوق کی نوعیت، ملکیت کے پہلوؤں سمیت بہت سے زاویے پیدا ہوتے ہیں، جن کا جائزہ لینا چاہیئے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے مذکورہ زمین پر مزید تعمیراتی کاموں کی پابندی لگا دی ہے۔
کیس کی اگلی سماعت 7 فروری کو ہوگی۔ متاثرین ہلدوانی کی جانب سے وکیل کالن گونجالویس نے عدالت کو بتایا کہ ہائی کورٹ کے حکم میں بھی یہ واضح نہیں کی کہ زمین ریلوے کی ہے۔ یہاں کے 50 ہزار باسی اس زمین پر برطانوی دور سے جی رہے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں سے مسلمان یہاں آکر آباد ہوئے۔ بھارتی چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق علاقے میں چار سرکاری اسکول، 11 نجی اسکول، ایک بینک، دو اوور ہیڈ واٹر ٹینک، 10 مساجد اور 4 مندر ہیں۔ اس کے علاوہ کئی دہائیوں پہلے قائم دکانیں بھی ہیں۔ زمین کی یہ پٹی دو کلومیٹر طویل ہے، جو ہلدوانی ریلوے اسٹیشن سے بھنبھولا پورہ علاقے میں غفور بستی، ڈھولک بستی اور اندرا نگر تک پھیلی ہوئی ہے۔
اپنی زمین بچانے کیلیے یہاں ہزاروں افراد کئی روز سے سڑکوں پر ہیں۔ مسلم اکثریتی علاقے میں کریک ڈاؤن کے حوالے سے مظاہرین بی جے پی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ جبکہ احتجاج میں سماجی کارکنان اور رہنما بھی شامل ہوئے ہیں۔ علاقے کے غریب مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انہیں برطانوی دور میں 1947ء سے بھی پہلے یہاں بسایا گیا تھا۔ ڈھولک بستی میں مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے، جو ڈھولکیہ برادری سے تعلق رکھتی ہے اور اس کا ذریعہ معاش بھی ڈھولک ہے۔ اس کے علاوہ بعض افراد سبزی فروخت کرکے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ہلدوانی کے مذکورہ علاقے کے مکین قانونی طور پر یہاں آباد ہیں۔ ان کے پاس لیز کے کاغذات سمیت تمام قانونی دستاویزات ہیں، جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ 8 دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اتر کھنڈ ہائی کورٹ نے 20 دسمبر کو شہر کے ریلوے سٹیشن کے اطراف تقر یباً 4365 مکانوں کو منہدم کرنے اور زمین خالی کرنے کا حکم دیا تھا۔ جبکہ بہت سے مکان ریلوے ٹریک سے 500 میٹر کے فاصلے پر تعمیر کئے گئے ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف بن پھول پورہ بستی کے مکینوں نے سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تھی۔
ماہر سیاسیات عاصم علی کا کہنا ہے کہ ان مسماریوں کا مقصد مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گھر کو گرانے کا عمل خاص طور پر سفاکانہ ہے، کیونکہ گھر سلامتی کی علامت ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ریاست کی پوری مسلم سول سوسائٹی کے لیے پیغام ہے کہ آپ اپنے شہری اور سیاسی حقوق کے لیے دباؤ ڈالنا بند کریں۔ ادھر جمعیت علماء ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے غیر قانونی ریاستی کارروائیوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے عدالتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ حکومت کی آمرانہ اقدامات کا از خود نوٹس لیکر ان کے ظلم و جبر پر روک لگائیں۔