احمد خلیل جازم :
راولپنڈی کے نجی اسپتال آنے والی لڑکی سے زیادتی کیس میں نئے پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ متاثرہ لڑکی اپنی نانی کا ڈائلاسس کرانے آئی تھی۔ پولیس نے لڑکی کا میڈیکل کرا لیا ہے۔ رپورٹ اب تک نہیں ملی ہے۔ لیکن پولیس ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ لڑکی کے ساتھ سے زیادتی ہوئی ہے۔ پولیس نے متاثرہ لڑکی سے زیادتی کرنے والے شخص خالد کو گرفتار کرلیا ہے۔ جو اسی ہسپتال کا ملازم ہے اور جس ڈاکٹر کے پاس لڑکی اپنی نانی کو ڈائیلاسس کرانے لائی تھی، اسی کا پی اے ہے۔
ملزم سے تفتیش میں مزید اہم انکشافات کی توقع کی جا رہی ہے اور یہ بھی پہلو مد نظر رکھا جارہا ہے کہ ملزم خالد اکیلا نہیں تھا، بلکہ اس کے ساتھ ایک یا ایک سے زیادہ لوگ بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ جب کہ جس گھر میں لڑکی کو لے جایا گیا، وہ گھر اسی شخص کا یا اس کے کسی جاننے والے کا تھا۔ پولیس ان لائنوں پر بھی تفتیش کررہی ہے کہ آیا یہ کوئی گروہ یا عادی مجرمان تو نہیں جو معصوم لڑکیوں کی عزت کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ کیوں کہ ملزمان نے متاثرہ لڑکی کی قابل اعتراض تصاویر بنا کر اسے بلیک میل بھی کیا۔
تفتیشی ذرائع کے مطابق راولپنڈی میں نانی کا ڈائیلاسس کرانے کے لیے نجی اسپتال جانے والی لڑکی سے ملزم خالد نے پہلے زیادتی کی اور اس کے بعد اس کی نا زیبا تصاویر بنا کر اسے بلیک میل بھی کرتا رہا۔ پولیس کے مطابق متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ وہ خالہ کے ہمراہ نانی کا ڈائیلاسس کرانے نجی ہسپتال گئی تھی۔ استقبالیہ پر موجود عملے میں شامل خالد جو وہاں تعینات ڈاکٹر کا پی اے ہے، اس نے اگلے دن آنے کا کہا۔ اگلے دن اسپتال پہنچی تو خالہ، نانی کے ساتھ اندر گئیں تو اسپتال ملازم خالد نے مجھے کہا کہ آئیں آپ کو ڈائیلاسس والی جگہ دکھاتا ہوں۔
متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ خالد مجھے ایک گاڑی میں لے گیا۔ گاڑی میں ایک نامعلوم شخص بھی تھا۔ خالد مجھے ایک نامعلوم گھر لے گیا، زبردستی برہنہ تصاویر بنائیں اور دھمکیاں دیں کہ کسی کو بتایا تو تصاویر وائرل کردوں گا۔ بعد ازاں مجھے زبردستی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اسپتال کے قریب چھوڑ کر چلا گیا۔
پولیس نے خالد نامی مرکزی ملزم کو تو گرفتارکرلیا ہے۔ تاہم دوسرا شخص ابھی تک مفرور ہے اور پولیس اس کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔ سی سی پی او راولپنڈی کے ذرائع نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پنڈی ریجن میں زیادتی اور خاص طور پر بچوں سے زیادتی کے کیسوں میں دن بدن اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ ملزم خالد جس نے متاثرہ لڑکی سے زیادتی کی ہے، اس نے پولیس تفتیش میں اہم انکشافات کیے ہیں۔
پولیس کو توقع ہے کہ اس سے قبل بھی ملزم کچھ لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناچکا ہے اور یہ شخص اکیلا نہیں ہے بلکہ اس کام میں اس کے ساتھ اور لوگ بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ پولیس ان لائنوں پر بھی تفتیش کررہی ہے کہ آیا یہ کوئی ایسا گروہ تو نہیں ہے جو لڑکیوں کی ویڈیو بنا کر انہیں بلیک کرکے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔
پولیس نے ملزم کا موبائل بھی قبضے میں لے لیا ہے اور اس سے دیگر الیکڑانکس ڈیوائسس بارے بھی تفتیش کررہی ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ راولپنڈی کے نجی اسپتالوں میں زیادہ تر ایسے کیس ہورہے ہیں، خاص طور پر نرسوں کو اس کام کے لیے زیادہ استعمال کیا جارہا ہے، ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر یا انہیں بلیک میل کرکے انہیں جسم فروشی پر مجبور کیا جارہاہے۔ جبکہ مذکورہ نجی اسپتال راولپنڈی کے معروف علاقے صدر میں واقع ہے، اس سے قبل بھی اس اسپتال پر ایسے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ یہاں پر اس طرح کے کام کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس کیس سے پہلے کوئی قابل ذکر کیس سامنے نہیں آسکا۔
قبل ازیں راولپنڈی 2019ء میں میاں بیوی کا ایک ریکٹ 45 لڑکیوں کو زیادتی کے بعد ویڈیو بنانے کے جرم میں گرفتار کیا جاچکاہے۔ جب کہ روات کے علاقے میں گزشتہ مہینے ایک لڑکی سے زیادتی اور ویڈیو بنانے کے مجرم جو پولیس والے تھے، وہ بھی گرفتار ہوئے ہیں۔ گزشتہ ماہ ہی راولپنڈی میں ایک نو سالہ بچی کو درندگی کا سامنا کرنا پڑا جب ملزم ذیشان نے ایک خالی پلاٹ میں بچی کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ دو ماہ قبل راولپنڈی کے علاقے مہرعلی شاہ ٹائون میںبارہ برس کی بچی کے ساتھ زیادتی کا کیس سامنے آیا تھا، جب ملزم کیس پائپ لگانے کے بہانے بچی کو گھر بلا کر لے گیا اور اس سے زیادتی کرڈالی۔ گزشتہ برس تھانہ جھنڈا چیچی کی حدود میں انیس سالہ زینب کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیاتھا،
پولیس نے اندوہناک قتل میں ملوث عورت سمیت تین ملزمان کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔ پیر ودھائی میں ایک مدرسے کے استاد نے 16 سالہ لڑکی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا۔ کلر سیداں کے کالج میں طالبہ کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ راولپنڈی اور گرد نواح میں لاتعداد ایسے کیس ہوتے ہیں، لیکن والدین زیادہ تر بدنامی کے خوف سے تھانے میں رپٹ درج کرانے سے گریز کرتے ہیں۔ حالیہ واقعہ بھی کچھ دنوں پہلے پیش آیا تھا اور پھر تصاویر کے بہانے بلیک میل کرکے ملزم نے بار بار اسے زیادتی کے لیے بلاتا رہا، جس وجہ سے یہ کیس سامنے آگیا اور مقدمہ درج ہوا۔
سی پی او راولپنڈی نے اس حوالے سے سخت اقدامات کے احکامات جاری کر رکھے ہیں۔ اس کیس میں پولیس اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ اس ملزم کے پاس اور کتنی لڑکیوں کے تصاویر ہیں اور اس کے ساتھ دیگر ملزمان کون سے ہیں؟ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال راولپنڈی میں بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کے کل 124 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ پولیس نے عصمت دری کی وارداتوں میں ملوث 95 فیصد ملزمان کو گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا۔ گزشتہ برس ستمبر میں سب سے زیادہ بائیس کیس رجسٹرڈ ہوئے تھے اور زیادہ تر ملزمان گرفتار کرلیے گئے تھے۔
المناک بات یہ ہے کہ پاکستان اور خصوصاً آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں بچوں سے زیادتی کے کیس بڑھ رہے ہیں۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو پنجاب کی ایک رپورٹ میں بتایا کہ پنجاب بھر میں گذشتہ ایک سال (مئی 2021 ء تا مئی 2022ء تک) میںان کے پاس بچوں سے زیادتی کے 250 کیسز رجسٹر ہوئے ہیں۔ اس قسم کے کیسز کی رپورٹ گھر کے اندر یا ہمسائیوں کی مدد سے ملتی ہے۔2021-22ء کے دوران ان واقعات میں تیس فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔ راولپنڈی دوسرے نمبر ہے، جب کہ قصورپہلے نمبر ہے۔