اقبال اعوان :
الیکشن کمیشن کی جانب سے کراچی میں ہر صورت بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو ہی کرانے کے اعلان کے ساتھ خواجہ سرائوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسرے مرحلے کا الیکشن ہو گا تو تب ہی تیسرے مرحلے کا الیکشن ہوگا۔ جس میں خواجہ سرائوں نے اپنے امیدوار چننے ہیں۔ کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں خواجہ سرائوں نے انتخابات کی تیاریاں کر لی ہیں۔ 50 ہزار سے زائد رجسٹرڈ خواجہ سرا الیکشن کے دوران اپنی پسندیدہ پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ اکثریت پیپلزپارٹی کو ووٹ دے گی کہ سندھ حکومت نے قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ خواجہ سرائوں کو بلدیاتی نظام کا حصہ بنانے کا بل پیش کر کے منظور کرایا ہے۔ خواجہ سرائوں کی تنظیم ’’جیا‘‘ کی سربراہ بندیا رانا کا کہنا ہے کہ، ہم نے کون سی کرپشن کرنی ہے کہ آج تک خواجہ سرا کرپشن کیس میں نہیں پکڑا گیا۔ ہم بلدیاتی نظام کا حصہ بن کر خدمت کریں گے اور امید ہے کہ عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں امیدوار کھڑے کر کے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پہنچیں گے۔ بلدیاتی نظام میں جو پارٹی آئے گی کراچی اور حیدرآباد میں جس پارٹی کا بھی میئر ہو گا، وہ نشستوں کے حساب سے خواجہ سرائوں کو 2 فیصد کے کوٹے کی نشستیں دے گا۔ اس طرح 100 سے زائد خواجہ سرا کونسلر کے طور پر سامنے آئیں گے۔
واضح رہے کہ سندھ حکومت نے خواجہ سرائوں کو بھی بلدیاتی نظام کا حصہ بنانے کی منظوری دی ہے۔ اس طرح بلدیاتی انتخابات میں پہلے اور دوسرے مرحلے کے الیکشن کے بعد کراچی سمیت سندھ بھر میں جیتنے والی پارٹیوں کی نشستوں کے حساب سے 2 فیصد کوٹہ دیا جائے گا۔ سندھ بھر میں کراچی اور حیدرآباد میں 100 سے زائد خواجہ سرا کونسلرز بنائے جائیں گے، جبکہ ان دو شہروں میں بلدیاتی نظام کا حصہ بنیں گے اور سندھ کے دوسرے شہروں میں بھی ان کو نشستیں دی جائیں گی۔
سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے اب پونے دو سال بعد خدا خدا کر کے دوسرا مرحلہ سر پر آچکا ہے۔ اس دوران معلوم ہو گا کہ کون سی پارٹی کراچی اور حیدرآباد میں اپنا میئر لے کر آتی ہے۔ اگر کراچی میں جماعت اسلامی بھی اپنا میئر لے کر آتی ہے تو قانونی طور پر خواجہ سرائوں کو کوٹے کے تحت نشستیں دی جائیں گی اور کونسلر بننے والے خواجہ سرا، میئر کے انتخابات میں ووٹ دیں گے۔
خواجہ سرائوں کی سندھ کی تنظیم ’’جیا‘‘ کی سربراہ بندیا رانا کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ، کراچی سمیت سندھ بھر میں 50 ہزار سے زائد خواجہ سرا رجسٹرڈ ہیں اور قومی شناختی کارڈ رکھتے ہوئے ووٹ ڈالیں گے۔ ابھی دوسرے مرحلے کی تیاریاں شروع ہیں۔ جماعت اسلامی، تحریک لبیک، جے یو آئی اور دیگر مذہبی جماعتوں میں خواجہ سرا شامل نہیں ہیں۔ متحدہ پاکستان، تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں میں شامل ہیں اور بطور کارکن انتخابات کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ تاہم خواجہ سرائوں کا اکثریتی طور پر رجحان پیپلزپارٹی کی جانب ہے جو خواجہ سرائوں کو سپورٹ کرتی ہے اور پاکستان بننے کے بعد سے اب جاکر بلدیاتی نظام میں شامل ہونے کا بل پاس کرا کے منظور کرایا ہے۔
خواجہ سرا میڈیکل تعلیم کے شعبے میں کام کررہے ہیں۔ تاہم آٹے میں نمک کے برابر روزگار کر رہے ہیں۔ اب خواجہ سرائوں کا بطور کونسلر تیسرے مرحلے میں انتخاب ہوگا۔ اس طرح وہ سیاسی لائن میں آئیں گے۔ ان کی زیادہ ترجیح عوام کی خدمت ہو گی اور دوسرے کونسلرز کی چوریاں بھی پکڑیں گے کہ نہ کرپشن کرو اور نہ کرنے دو۔ جس علاقے میں منتخب ہوں گے، وہاں پتا لگ جائے گا کہ عوام کی خدمت کیا ہوتی ہے۔ خواجہ سرائوں کو تو دو وقت کی عزت کی روٹی چاہیئے۔ بندیا رانا کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا 15 جنوری کو ہی الیکشن کرانے کا فیصلہ درست ہے اور خواجہ سرا اب سرگرمیاں شروع کریں گے۔ میٹنگز، سیمینار کریں گے اور ہمیں امید ہے کہ آئندہ الیکشن میں خواجہ سرا قومی اور صوبائی الیکشن بھی جیت کر ایوانوں کا حصہ بنیں گے۔ کراچی میں 52 کے قریب خواجہ سرا کونسلر بنیں گے۔ یہ مظلوم طبقہ اپنا حق تو صرف خدا سے مانگتا ہے، انسانوں نے کیا دینا ہے۔ اب سیاست میں آئیں گے تو اس طرح لگتا ہے کہ ایک نئے دور میں آگئے ہیں۔