صدر اور اطراف میں بد ترین ٹریفک جام رہا۔فائل فوٹو
 صدر اور اطراف میں بد ترین ٹریفک جام رہا۔فائل فوٹو

’’متحدہ کا پاور شو فلاپ ہوگیا‘‘

اقبال اعوان :

متحدہ پاکستان کی جانب سے کراچی میں ہونے والا سیاسی پاور شو فلاپ ہو گیا۔ آٹے کے متلاشی اور گندگی سے پریشان حال شہری متحدہ کے مینڈیٹ کو دوبارہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔ پاک سرزمین پارٹی اور فاروق ستار گروپ سے گٹھ جوڑ بھی فائدہ نہیں دے سکا۔

خیال رہے کہ حلقہ بندیوں، مردم شماری اور ووٹرز فہرستوں پر تحفظات کا اظہار کر کے الیکشن رکوانے کا پلان ناکام ہونے پر، متحدہ کی جانب سے الیکشن کمیشن کے خلاف ریلی نکالی گئی تھی۔ تاہم کارکنان اور عوام کی پذیرائی نہیں مل سکی۔ تعداد دکھانے کیلئے لیبر ڈویژن، اے پی ایم ایس او، یو سی، ٹائون کے اسکولوں کے اسٹاف، صفائی کے عملہ اور دیگر لوگوں کو بلوایا گیا۔ جبکہ تینوں دھڑوں کے شرکا کو دور دور کھڑا ہونے کی ہدایات تھیں۔ جبکہ تینوں دھڑوں کے کارکنوں کو قومی پرچم تلے آنے کی ہدایات تھیں۔ تاہم پاک سرزمین پارٹی اور متحدہ پاکستان کے جھنڈے اٹھائے کارکن ریلی میں آئے تھے۔ گڈاپ، ملیر سے بھی گوٹھوں کی خواتین، مرد، لڑکے بلوائے گئے تھے۔ صدر اور اطراف کی سڑکیں بدترین ٹریفک جام کا شکار رہی تھیں۔ شہری پریشان نظر آئے۔ سول اسپتال، جناح اور دیگر اسپتالوں کو جانے والی ایمبولینس ٹریفک جام میں پھنسی رہیں اور شہری متحدہ کو کوستے رہے۔

واضح رہے کہ کراچی اور حیدرآباد میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے جہاں جماعت اسلامی سرگرم ہے کہ الیکشن وقت پر کرائے جائیں، وہیں صوبائی حکمران جماعت پیپلزپارٹی اور متحدہ پاکستان کوشش کرتی رہیں کہ موخر ہو جائیں۔ تاہم اس بار ایسا نہیں ہوا۔ متحدہ پاکستان پاورفل ہونے کے لیے دوسرے دھڑوں سے الحاق کررہی ہے اور ابھی تک معاملات چل رہے ہیں۔ اسی دوران پاک سرزمین پارٹی اور فاروق ستار گروپ اس بات پر آمادہ ہوا کہ موجودہ معاملات پر احتجاج کا حق ان کو بھی ہے اور تحفظات ہیں۔ لہٰذا احتجاجی ریلی میں شرکت کریں گے اور آگے بات چیت ہو گی۔ اگر معاملہ طے ہو جاتا ہے تو مل کر الیکشن لڑیں گے۔

متحدہ پاکستان کی رابطہ کمیٹی دو حصوں میں بٹ چکی ہے کہ ایک گروپ ان دھڑوں کو ملانے اور ان کو بڑے عہدے دینے کے خلاف ہے۔ متحدہ پاکستان کو ایک رکاوٹ متحدہ لندن کی بھی ہے کہ بانی متحدہ نے بائیکاٹ مہم چلا دی ہے اور کراچی کے اردو بولنے والوں کے علاقوں میں متحدہ پاکستان اور دیگر دھڑوں کے حوالے سے لوگ عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ الیکشن اس بار ملتوی نہ کرنے پر متحدہ پاکستان نے الیکشن کمیشن کے باہر 11 جنوری کی دوپہر ایک بجے احتجاج کی کال دی تھی۔

گزشتہ پورے ہفتے گاڑیوں میں اعلانات کیے گئے تھے۔ مہاجر کارڈ استعمال کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کے خلاف کہا گیا کہ شہر کی خرابی اس کی وجہ سے ہے اور جلد از جلد وفاقی حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی بھی دی گئی۔ تینوں دھڑے اس بات پر تیار ہوئے کہ ابھی احتجاج میں شریک ہوتے ہیں اس کے بعد دیکھیں گے۔ شہریوں کی عدم دلچسپی کے بعد ویگنوں، کوسٹروں میں ایجوکیشن کا عملہ، صفائی والے، یوسی، ٹائون کا عملہ، واٹر بورڈ کے ملازمین، شہر کے وفاقی، صوبائی اداروں میں متحدہ لیبر ڈویژن کے لوگ بلوائے گئے۔ لوگوں کو ساڑھے دوپہر بارہ بجے بلوایا گیا تھا۔ اس وقت شارع فیصل ڈرگ روڈ سے پی آئی ڈی سی تک شدید ٹریفک جام کا شکار رہا اور صدر کی کاروباری سرگرمیاں معطل رہیں۔

ٹریفک جام میں ایمبولینس تک پھنسی رہیں اور مریضوں کی اسپتال منتقلی کا مسئلہ درپیش رہا۔ پاک سرزمین پارٹی اور متحدہ پاکستان کے رہنمائوں نے مضافاتی علاقوں کے گوٹھوں سے لوگوں کو نکالا۔ جبکہ صفائی کرنے والی خواتین و مرد بھی تیار ہو کر جھنڈے لے کر ریلی میں آئے تھے۔ تینوں دھڑوں نے گورنر ہائوس میں جو بات چیت کی تھی، اس میں طے ہوا تھا کہ قومی پرچم لے کر آئیں گے کہ پاک سرزمین پارٹی کسی صورت متحدہ پاکستان کے جھنڈے تلے آنے کو تیار نہیں ہے۔ لیکن قومی پرچم لانے کی ہدایات نظرانداز کر دی گئی تھیں۔ شہر بھر سے گاڑیوں کے اخراجات لیبر ڈویژن، ایم این اے، ایم پی ایز، ذمہ داروں نے پورے کیے تھے۔

فاروق ستار اس گٹھ جوڑ کو سود مند بتا کر کراچی میں بلدیاتی انتخابات بھرپور انداز میں جیتنے کی ’’نوید‘‘ سناتے رہے۔ مصطفیٰ کمال پیپلزپارٹی کو برا بھلا بولتے رہے۔ خالد مقبول صدیقی الیکشن سے قبل دھاندلی کا کہتے رہے کہ اگر متحدہ الیکشن نہیں لڑے گی تو الیکشن بھی نہیں ہوں گے اور وفاق سے علیحدگی کا بار بار ذکر کر کے الیکشن کمیشن پر دبائو ڈالتے رہے کہ ان حالات میں الیکشن مناسب نہیں ہے۔ تاہم ناکام پاور شو شہریوں کو سوائے ٹریفک جام کی پریشانی کے کچھ اور نہ دے سکا۔