نواز طاہر/ احمد خلیل جازم :
ہفتہ کی رات دس بجے آئینی و قانونی ضوابط کے تحت پنجاب اسمبلی تحلیل ہونا تھی۔ رات نو بجے ان سطور کے لکھے جانے تک پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے متعلق پی ٹی آئی سربراہ کی خواہش پوری ہونے یقینی تھی۔ لیکن پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی اتحادوں کی طرف سے نگران وزیراعلیٰ کے لئے نام سامنے نہیں لائے گئے تھے۔
ادھر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ آئین کے تحت نوے روز کے اندر پنجاب اسمبلی الیکشن کا بر وقت انعقاد تکنیکی وجوہات کی بنا پر تقریباً نا ممکن ہے۔ دوسری جانب سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ نئی منتخب صوبائی اسمبلیوں کی مدت پانچ برس ہوگی۔ کیوں کہ ضمنی الیکشن استعفے یا رکن کے انتقال کی صورت میں ہوتے ہیں۔ مگر یہاں تو پوری اسمبلی تحلیل ہونے کا معاملہ ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف اور اس کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کے تحت پنجاب اسمبلی کی تحلیل کیلئے کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویزالٰہی نے ایڈاوئس بھجوائی تھی۔ جس کے تحت گزشتہ رات دس بجے صوبائی اسمبلی تحلیل ہونا طے تھا۔ لیکن وقت سے پہلے الیکشن کروانے کا عمران خان کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کے امکانات نہیں۔ اس میں خود انہی کا کیا ہوا ایک فیصلہ آڑے آگیا ہے، جس کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ڈیجیٹل مردم شماری کے بعد ہوں گے۔ یہ فیصلہ عمران خان نے وزیراعظم کی حیثیت سے، مشترکہ مفادات کی کونسل میں کیا تھا اور اسی کے تحت ہی پنجاب اسمبلی کے الیکشن موخر کیے جا سکتے ہیں۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنمائوں کی طرف سے بنائی گئی حکمتِ عملی کے تحت پی ٹی آئی قبل از وقت الیکشن کروانے کی تاریخ حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد اسمبلیوں سے باہر آکر حکومت کو وقت سے پہلے الیکشن کروانے کے اپنے مطالبے پر عملدرآمد کروانے کی غرض سے مجبور کرنے کیلئے اسمبلی کی تحلیل کا پہلا کارڈ کھیل چکی ہے۔ اور اب اس کا اگلا مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا خیال ہے کہ جب صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن وقت سے پہلے ہوں گے تو ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی فتح اور عوامی مقبولیت کا ٹیمپو برقرار رہنے سے اسے دوبارہ اکثریت مل جائے گی۔ اس حکمتِ عملی سے وہ مرکز میں آسانی سے حکومت بنانے کیلئے بہتر نتائج حاصل کرلیں گے۔
اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کئی بار اختلافِ رائے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کی ضد اور خواہش کے سامنے ڈھیر ہوگئی اور’’بخوشی‘‘ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس گورنر کو بھیج دی۔ آئین کے تحت نوے روز کے اندر الیکشن ہونا ہیں، مگر نئے الیکشن کیلئے مردم شماری کا عمل یکم فروری سے چار مارچ تک مکمل ہونا ہے۔
اس مردم شماری کے نتیجے میں اسمبلیوں اور انتخابی حلقہ بندیوں کے معاملات سامنے آنے والے ہیں جو ایک ڈیڑھ ہفتے سے زیادہ وقت کا عمل ہے۔ جبکہ تئیس چوبیس مارچ سے ملک رمضان المبارک شروع ہورہا ہے۔ اگرچہ رمضان میں انتخابی عمل پر آئین رکاوٹ نہیں ہے، لیکن ماضی میں رمضان کے دوران عام انتخابات کی روایت نہیں۔ مگر اپریل تک آئینی مدت کے مطابق نئی مردم شماری کی صورت میں انتخابی عمل یقینی دکھائی دیتا اور نہ ہی اس امر کا امکان دکھائی دیتا ہے کہ کسی ایک یا دو صوبوں میں پرانی مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کروایا جاسکے اور پھر قومی اسمبلی کے الیکشن اسی صوبے میں نئی مردم شماری کے مطابق ہوسکیں۔
اس ضمن میں آئینی و قانونی ماہر سردار خرم لطیف خان کھوسہ کا کہنا ہے کہ، دو آئینی پابندیاں عملدرآمد کی متقاضی ہوں گی تو پھر یہ معاملہ عدالت میں ہی حل ہوگا۔ حکومت یا انتظامیہ اسے حل نہیں کرسکتی۔
صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے متعلق سابق وفاقی سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کنور دلشاد نے ’’امت‘‘ کو خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ’’اگر صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں تو نوے روز کے اندر اندر الیکشن کرانا، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ کوئی بھی صوبائی اسمبلی اگر تحلیل ہوجائے تو پھر ضمنی الیکشن نہیں ہوں گے، بلکہ اگلے پانچ برس کے لیے الیکشن ہوں گے۔ ضمنی الیکشن تو ہوتا ہے، کوئی استعفیٰ دے دے یا کوئی رکن انتقال کرجائے تو اس صورت میں کرایا جاتا ہے۔ یہاں تو پوری اسمبلی تحلیل ہو رہی ہے۔ اس لیے یہ اگلے پانچ برس کے لیے منتخب ہوگی۔
371 نشستیںہیں پنجاب اسمبلی میں، یہ سب ختم ہو جائیں گی۔ اور اگر نوے دن میں انتخاب کرانا پڑ گیا تو نئے ارکان صوبائی اسمبلی اگلے پانچ برس کے لیے منتخب ہوں گے۔ یہاں تو سیاسی جماعتوں کے مفادات کی بات ہے وہ کیا کرتے ہیں؟ الیکشن کمیشن کا کام قانون پر عمل درآمد ہے۔ پنجاب کے اسپیکر نے تو یہ کہا بھی ہے کہ نئے انتخابات کا اعلان کردیں تو سمری واپس ہوجائے گی، تو میرے خیال میں وفاقی حکومت کو بھی تین چار ماہ بعد جنرل الیکشن کے شیڈول کا اعلان کردینا چاہیے تاکہ یہ غیر یقینی صورت حال ختم ہوجائے۔ نومبر کے بجائے مئی جون میں جنرل الیکشن کرالیں، تین مہینے پہلے کرا لیں کیا فرق پڑتاہے؟ دو صورتیں ہیں، اگر تو تمام صوبائی اسمبلیاں باہم بیٹھ کر وفاقی حکومت سے مشاورت کرلیں کہ جلد الیکشن کب کرانے ہیںکس تاریخ کو ارلی الیکشن ممکن ہیں، ورنہ دوسری صورت میں نومبر2023ء میں تو الیکشن ہوجائیں گے۔‘‘
قومی اسمبلی میں جن ارکان اسمبلی نے استعفے دئیے ہوئے ہیں، اگر وہ منظور ہوتے ہیں تو پھر کیا صورت حال ہوگی؟ اس پر کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ ’’اگر وہ استعفے قبول ہوجاتے ہیں تو پھر لازمی بات ہے کہ قومی اسمبلی توڑنی پڑے گی۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اسپیکر تما م استعفے قبول کرلے۔ اس کے لیے ارکان کو اسپیکر کے سامنے آکر کہنا ہوگا، پھر اسپیکر کو استعفے قبول کرنے ہوں گے۔ سیاست دانوں کا کام ہوتا ہے کہ ان کی منشاء کے مطابق کام ہو۔ آپ نے الیکشن کمشنر پر اعتراضات کا پوچھا ہے تو صرف ایک جماعت الیکشن کمشنر کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہے۔ اصل بات تویہ ہے کہ جنہیں اپنی ہار کا خوف ہوتاہے وہ اپنے ووٹر کو مطمئن کرنے کے لیے اداروں پر الزام تراشی شروع کردیتے ہیں۔
عمران خان جو تنقید کر رہے ہیں، وہ اسی ڈر کا شاخسانہ ہے کہ جب ان کی پارٹی کہیں سے شکست کھا جاتی ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ میں نے تو الیکشن کمیشنر کے بارے بتایا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔الیکشن کمیشن کی صحت پر اس طرح کے الزامات سے کوئی اثر نہیں پڑتا، وہ اپنا کام کرتے رہیں گے۔ الیکشن کمیشن کیا دھاندلی کرا سکتا ہے؟ دھاندلی تو صوبائی اسمبلیوں کے وہ ملازمین کراتے ہیں جن کی پولنگ اسٹیشنوں پر ڈیوٹیاں لگی ہوتی ہیں، وہ تو الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ الیکشن کمیشن تو صحافیوں سمیت دیگر اداروں کے مبصرین متعین کرتا ہے تاکہ وہ وہاں جاکر شفاف الیکشن کا جائزہ لیں۔ صحافیوں کو بطور مبصر بھیجا جاتاہے، کیا کسی نے الیکشن کمیشن کے کردار پر سوال اٹھایا؟ کبھی نہیں۔ کہیں بے قاعدگی ہوتی ہے، کہیں شکایات آتی ہیں تو اس کام کو روکنے کاذمہ دار الیکشن کمیشن ہے۔ دھاندلی کرانا الیکشن کمیشن کے بس کی بات نہیں۔‘‘