نواز طاہر :
پنجاب میں جاری سیاسی صورتحال میں روز بروز تیزی آتی جارہی ہے۔ جہاں نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کے معاملات پارلیمانی سطح پر اتفاقِ رائے نہ ہونے کی طرف بڑھتے جارہے ہیں تو ساتھ ہی پی ٹی آئی اس عمل کو متنازع بنانے کی خواہاں ہے۔ یہ صورتحال پی ٹی آئی کے حق میں ہے، کیونکہ اگر معاملہ پارلیمانی سطح پر حل نہ ہوا تو الیکشن کمیشن کی ایک اور آزمائش شروع ہوجائے گی۔ اور الیکشن کمیشن کو وزیر اعلیٰ پنجاب کیلئے خود کوئی ایک نام فائنل کرنا پڑے گا۔ جبکہ تحریک انصاف اس پر من پسند وزیراعلیٰ کے تقرر کیلئے دباؤ ڈالے گی اور ممکنہ طور پر فیصلہ خلاف منشا آنے پر عدالت جائے گی۔ اس رسہ کشی کے دوران پرویز الہیٰ ہی وزیر اعلیٰ بنے رہیں گے، جو پی ٹی آئی اور عمران خان کے مفاد میں ہے۔
واضح رہے کہ عمران خان نے ق لیگ کو اپنی پارٹی میں ضم ہونے کی دعوت دی تھی، جس پر پرویز الہیٰ نے لبیک بھی کہہ دیا۔ تاہم تحریکِ انصاف سے ق لیگ کے انضمام کی کوشش ناکام بناتے ہوئے پارٹی کے سیکریٹری جنرل نے چودھری پرویز الٰہی کی بنیادی رکنیت ہی معطل کردی ہے۔
اطلاعات کے مطابق پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد آئین کے تحت سابق اسمبلی کے قائد ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف کے اتفاقِ رائے سے نگراں وزیراعلیٰ کے تقرر کا عمل ابتدائی طور پر شروع ہوگیا، جس کے لئے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے گورنر کو بھجوائے جانے والے سردار احمد نواز سکھیرا، ناصر محمود کھوسہ اور محمد نصیر خان کے نام مشاورت اور رائے کیلئے گورنر نے قائدِ حزبِ اختلاف حمزہ شہباز شریف کو ارسال کر دیئے ہیں اور امید ظاہر کی ہے کہ دونوں مقررہ وقت میں نگران وزیراعلیٰ کے نام کو حتمی شکل دے کر انہیں آگاہ کریں گے۔
یہ سطور لکھے جانے تک حمزہ شہباز کی طرف سے کوئی نام سامنے نہیں لایاگیا تھا بلکہ بیرون ملک علاج کیلئے مقیم حمزہ شہباز کی جانب سے یہ معاملہ نمٹانے کیلئے اپنے اختیار مجاز نمائندے سابق رکن پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کو تفویض کر دیئے گئے ہیں۔ یہ اختیار ملنے کے بعد ملک محمد احمد خان نے چودھری پرویز الٰہی سے رابطہ کرکے بتایا کہ وہ اپویشن لیڈر کے ایما پر نگراں وزیراعلیٰ کیلئے کچھ نام دیں گے جس کے بعد اس معاملے پر مشاورت ہوگی۔
واضح رہے کہ آئین کے تحت سترہ جنوری کی رات دس بجے تک گورنر کو نگراں وزیراعلیٰ کیلئے متفقہ نام بھیجنے کا وقت ہے۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز ( ان کے نمائندے) اور وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے مابین کسی نام پر متفق ہونے کا امکان کم ہے اور زیادہ امکانات یہی ہیں کہ گورنر مقررہ وقت تک متفقہ نام نہیں ملے گا اور گورنر آئین ہی کے تحت یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دیں گے اور یہاں بھی اتفاقِ رائے کے امکانات کم دکھائے دے رہے ہیں، جس کے بعد یہ معاملہ حتمی مرحلے میں داخل ہوتے ہوئے الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا جو دو روز کے اندر مجوزہ تین، تین ناموں میں سے کسی ایک کا نام فائنل کرکے گورنر کو آگاہ کرے گا۔
دوسری جانب ابھی تک سرکاری فرائض سے ریٹائر نہ ہونے والے بیوروکریٹ سردار احمد نواز سکھیرا کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ انہوں نے نگراں وزیراعلیٰ مقرر ہونے سے انکار کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ان تینوں میں سے کسی نام پر اس وقت تک متفق ہونے کیلئے تیار نہیں اور رات آٹھ بجے تک اپنی طرف سے حتمی طور پر نام بھی تجویز نہیں کیے تھے۔ مشاورتی عمل میں طے ہوا کہ اپنی طرف سے ایسے نام دیئے جائیں جن میں سے کوئی ایک نام ایسا ضرور ہو جس پر چودھری پرویزالٰہی بھی انکار سے گریز کریں یا کم از کم انہیں مشکل کا سامنا ہو۔ اور یہ معاملہ پارلیمانی پارٹی سے اگلے مرحلے میں الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے اور حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کرے جو آئین کے تحت دو روز کے اندر فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے ذرائع فی الحال آن دی ریکارڈ کوئی بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ ان کے مطابق فیصلے کا حتمی اختیار پارٹی کے لیڈر میاں نوازشریف کو حاصل ہے۔ دوسری جانب تحریکِ انصاف الیکشن کمیشن کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہی اور عدم اعتماد کا اظہار کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق نگراں وزیراعلیٰ کے بارے میں خلافِ منشا فیصلہ ہونے پر پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے کے علاوہ اس معاملے کو عدالت میں بھی لے جاسکتی ہے جسے پی ٹی آئی اپنے مفاد میں سمجھتی ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہیں گے اور زیر التوا امور نمٹائیں گے جو انتخابی مہم کا حصہ ہوں گے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے چوھری پرویز الٰہی کے پی ٹی آئی میں ضم ہونے کے بیان کا نوٹس لیکر ان کی بنیادی رکنیت معطل کرتے ہوئے ان سے سات روز کے اندر وضاحت طلب کرلی ہے۔ چودھری شجاعت حسین کے دستخطوں سے پرویز الٰہی کو جاری ہونے والے شوکاز نوٹس میں لکھا گیا ہے کہ ’’رات کو چلنے والی خبروں کے حوالے سے مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے ہنگامی طور پر ایک اجلاس طلب کیا جس میں سیکریٹری جنرل طارق بشیر چیمہ، سینئر نائب صدر چودھری سالک حسین اور سینئر رہنما چودھری شافع حسین نے شرکت کی اورانہوں نے اس اقدام کا سختی سے نوٹس لیا کہ صوبائی صدر پارٹی کو کسی دوسری جماعت میں ضم نہیں کرسکتا۔ آپ سے اس غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کی وضاحت مانگی جاتی ہے۔
ق لیگ بحیثیت سیاسی جماعت اپنا تشخص، ووٹ بینک، ڈسپلن منشور و ضابطہ رکھتی ہے، جس کی خلاف ورزی آپ کے بیانات سے معلوم ہوتی ہے، اس بنا پر آپ کو سات دن کا نوٹس دیا جاتا ہے کہ آپ سات دن کے اندر غیر آئینی اقدام کی وضاحت دیں ورنہ آپ کے خلاف پارٹی آئین کے آرٹیکل 16 اور آرٹیکل 50 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی، وضاحت تک آپ کی پارٹی کی بنیادی رکنیت معطل رہے گی۔‘‘