امت رپورٹ :
موروثی سیاست کے خاتمے کیلیے مختلف سیاسی پارٹیوں کے ہم خیال رہنماؤں کی جانب سے آگہی سیمینارز کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کوششوں کا مقصد ملک کو معاشی بحران سے نکالنے اور سیاسی استحکام لانے کا مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ تاہم اس عمل میں شریک معتبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سیمینارز کے دیگر مقاصد میں سیاسی پارٹیوں سے ’’بادشاہت‘‘ کا خاتمہ کرنا بھی شامل ہے۔ اور یہ کہ ’’جمہور پسند‘‘ رہنماؤں نے اپنی پا رٹیوں کے اندر رہتے ہوئے موروثی سیاست کو چیلنج کرنے کی ٹھانی ہے تاکہ سیاسی پارٹیوں کو جمہوری اور فعال بنا کر ان کی توجہ محض اقتدار کی ہوس سے ہٹا کر ملکی مسائل حل کرنے کی طرف مبذول کرائی جاسکے۔
ان کوششوں کا آغاز کرنے والے بعض رہنماؤں کے بقول خاندانی اجارہ داری، میرٹ کا قتل، قیادت کا احتساب سے بالاتر ہونا اور موروثیت کی بنیاد پر اعلیٰ عہدوں کی بندر بانٹ نے سیاسی پارٹیوں کو بانجھ کردیا ہے۔ لہذا وہ ملکی مسائل کا حل نکالنے سے قاصر ہیں۔ اس لئے آج ملک مختلف بحرانوں کا شکار ہے اور موجودہ سیاسی قیادت کے پاس اس کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ چناں چہ عوامی شعور بیدار کرنے اور سیاسی پارٹیوں کو جمہور پسند بنانے کے لیے سیمینارز کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
یہ موضوع اس وقت میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا، جب پیپلز پارٹی کی پالیسیوں سے نالاں ہو کر راستے جدا کرنے والے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر اور نون لیگ کے نظر انداز شدہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ٹوئیٹس کیے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ’’ری ایمیجننگ پاکستان‘‘ کے عنوان سے کوئٹہ میں ہفتے کو ہونے والے پہلے سیمینار کی نوید دی تھی۔ اس کے فالواپ میں مفتاح اسماعیل نے بتایا تھا کہ ’’ری ایمیجننگ پاکستان کے نام سے ملک بھر میں سیمینارز کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ کوئٹہ کے بعد اب اس نوعیت کے سیمینارز پشاور، کراچی اور لاہور میں بھی کرائے جائیں گے۔‘‘ مفتاح اسماعیل کے بقول شکوے شکایت بہت ہو چکے۔ اب حل نکالنا ہے۔
اس سوچ پر مبنی سیمینارز کے روح رواں مصطفیٰ نواز کھوکھر، مفتاح اسماعیل، حاجی لشکری رئیسانی، میر ہمایوں عزیز کرد اور خواجہ محمد ہوتی ہیں۔ ’’پاکستان پر دوبارہ غور و فکر‘‘ کے عنوان سے اٹھنے والی اس ’’تحریک‘‘ میں ہم خیال صحافیوں، ادیبوں، وکلا، مزدور رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندگان کو بھی شامل کیا جائے گا، جس کا اظہار مصطفیٰ نواز کھوکھر کر چکے ہیں۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور فواد حسن فواد بھی اس کاررواں میں شامل ہو چکے۔
ذرائع نے بتایا کہ حنیف عباسی، خواجہ سعد رفیق اور ندیم افضل چن بھی اس کا حصہ ہوں گے۔ اور یہ کاررواں مزید بڑھے گا۔ ان میں بیشتر ایسے رہنما ہیں جو اپنی پارٹی میں رہتے ہوئے قیادت کے غلط فیصلوں اور پالیسیوں پر کھلے عام تنقید کرتے رہے۔ اس کا خمیازہ بعض کو پارٹی چھوڑنے یا کھڈے لائن لگائے جانے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ انہیں قریب لانے میں بڑی حد تک یہ مشترکہ دکھ بھی کارفرما ہے۔ لیکن ان سب کا موقف فی الحال یہی ہے کہ وہ کوئی نئی پارٹی بنانے نہیں جا رہے۔
’’تحریک‘‘ کے ایک اہم ذمہ دار سے دریافت کیا گیا کہ جب نئی پارٹی بنانی نہیں تو پھر محض آگہی سیمینارز کی مشق سے کیا حاصل ہوگا؟ اس کا جواب مذکورہ رہنما کے پاس نہیں تھا، یا شاید وہ بتانا نہیں چاہتے تھے۔ تاہم ان سیمینارز کے کرتا دھرتاؤں سے رابطے میں رہنے والے ایک ذریعے کا خیال ہے کہ یہ لوگ ایک ایسا بڑا اصول پسند گروپ بن کر سامنے آنا چاہتے ہیں کہ اگر مستقبل قریب میں کوئی طویل مدتی قومی یا عبوری حکومت بنتی ہے تو انہیں زیر غور لایا جا سکے۔
دلچسپ امر ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو حقیقی معنوں میں جمہوری سانچے میں ڈھالنے اور قیادت کو جواب دہ بنانے کی سوچ کا سوتا، فارن فنڈنگ کیس سے پھوٹا تھا۔ پچھلی ایک دہائی سے اکبر ایس بابر کا مدعا یہی رہا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے اندر بادشاہت کا خاتمہ اور قیادت کو جواب دہ ہونا چاہیے۔ اسی اصول کے تحت انہوں نے بادشاہ سلامت ( پارٹی چیئرمین) سے پوچھا تھا کہ پارٹی کو ملک و بیرون ملک سے کس مقصد کے لئے پیسہ آرہا ہے اور کہاں خرچ ہو رہا ہے؟ اس ’گستاخی‘ پر بادشاہ سلامت ناراض ہوگئے۔
یوں دیرینہ رفاقت ٹوٹ گئی۔ جواب نہ ملنے پر اکبر ایس بابر، بادشاہ سلامت کو الیکشن کمیشن اور عدالت لے گئے۔ برسوں وہ الیکشن کمیشن کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کہتے تھک گئے کہ ’’فارن فنڈنگ کیس کا مقصد ذاتی دشمنی نہیں بلکہ پارٹی کو ادارہ بنانا ہے۔ ایک ایسا ادارہ، جہاں پارٹی سربراہ سمیت ساری قیادت جواب دہ ہو۔ ہر کسی کو احتسابی عمل سے گزرنا پڑے۔ شفافیت ہو۔ جمہوریت ہو۔ عہدے بانٹتے وقت میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اس پیمانے پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ہی سیاسی پارٹیاں لیڈر شپ فراہم کر سکیں گی اور ملک ترقی کرے گا۔‘‘
اب اسی سوچ کو لے کر مختلف سیاسی پارٹیوں کے ناراض رہنما ایک پلیٹ فارم پر جمع ہورہے ہیں تو اس سے اکبرایس بابر کے موقف کی توثیق ہوتی ہے۔ اس پر وہ خوش ہیں۔ ان کے خیال میں گیارہ برس سے وہ جو پیغام دے دے کر تھک گئے، آج وہ چاہے کسی صورت سہی، پھیل تو رہا ہے۔ تاہم وہ فی الحال ان سیمینارز کا حصہ نہیں بن رہے کہ ہمیشہ کی طرح اپنی جنگ اکیلے لڑنے کی سوچ رکھتے ہیں۔
انہوں نے ٹویٹ کیا ’’گیارہ سال سے جنگ لڑرہا ہوں کہ جب تک سیاسی جماعتیں خود جمہوری اصول نہیں اپناتیں، جس کا وہ پرچار کرتی ہیں۔ تب تک نہ تو ملک میں جمہوریت آئے گی اور نہ ہی یہ جماعتیں عوام کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت حاصل کرپائیں گی۔ الحمدللہ، یہ مطالبہ آج تمام سیاسی جماعتوں کی باضمیر قیادت کی زبان پر ہے۔‘‘