محمد علی :
دنیا کے سب سے مقروض ممالک میں سْپر پاور کہلائے جانے والے امریکہ کا پہلا نمبر ہے۔ جبکہ بیرونی قرض میں ڈوبے ممالک کی فہرست میں پاکستان 47 ویں نمبر پر ہے۔ امریکہ کا ایکسٹرنل ڈیٹ یعنی بیرونی قرضہ 19 جنوری 2023ء تک 31 کھرب 4 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔
جبکہ معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کانگریس قرض کے حصول کی حد یعنی ڈیبٹ لِمٹ میں مزید اضافے سے گریزاں ہے۔ حالاںکہ اس سے قبل امریکی ایوان نمائندگان مذکورہ حد میں 78 مرتبہ توسیع کر چکی ہے۔ ڈیبٹ لمٹ میں اضافہ، توسیع یا نظر ثانی کا یہ عمل 49 مرتبہ ری پبلکن دور میں ہوا، جبکہ 29 مرتبہ ڈیموکریٹس نے قرضوں کی حد بڑھائی۔
اس بار عالمی مالی بحران میں ڈیموکریٹک حکومت اور صدر جو بائیڈن مقررہ حد سے زیادہ قرضوں کیلئے کوشاں ہیں۔ جبکہ کانگریس اس ضمن میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے، جس کے اثرات امریکی معیشت پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ مجموعی جی ڈی پی کے لحاظ سے جاپان سب سے زیادہ قرضوں میں ڈوبا ہوا ملک ہے، لیکن اس پر ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ کبھی نہیں رہا۔ ماہرین معاشیات اس کی بنیادی وجہ جاپان میں بین الاقوامی سرمایہ کاری اور اعتماد کی فضا کو قرار دیتے ہیں۔ تاہم اس وقت دنیا بھر میں دفاعی بجٹ میں اضافے کا رحجان ہے اور امریکہ سمیت جاپان میں بھی دفاعی بجٹ پر اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں۔
حال ہی میں جاپان نے اپنے دفاعی بجٹ میں 26 اعشاریہ 3 فیصد اضافہ کیا ہے، جس کے بعد یہ 5 کھرب 4 ارب ین سے بڑھ کر 6 کھرب 82 ارب ین ہوگیا ہے۔ جاپان کا 2023ء دفاعی بجٹ اس کی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا ایک اعشاریہ 19 فیصد بنتا ہے۔
’’امت‘‘ کی رپورٹ کے مطابق بیرونی قرض لینے والے ممالک میں امریکہ 31 کھرب 4 ارب ڈالر کے ساتھ سرفہرست ہے۔ جبکہ جاپان کا نمبر دوسرا ہے، جس کے بیرونی قرضوں کی کْل مالیت 9 کھرب 2 ارب ڈالر ہوچکی ہے۔ یہ رقم جاپان کے جی ڈی پی کا 266 فیصد ہے۔ جبکہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں بھی سب سے زیادہ ہے۔ مثلاً اگر جاپان کے مقابلے میں امریکہ کے قرضوں کا حجم دیکھا جائے تو یہ 31 کھرب ڈالر ہے، مگر یہ رقم امریکہ کے ٹوٹل جی ڈی پی کے صرف 98 فیصد کے برابر ہے۔ اسی اعتبار سے جاپان جی ڈی پی کے نکتہ نظر سے دنیا کا سب سے مقروض ملک ہے۔
بہرحال بیرونی قرضوں میں تیسرا نمبر برطانیہ کا ہے، جس کا کْل ایکسٹرنل ڈیبٹ 8 کھرب 73 ارب ڈالر ہے۔ اسی طرح فرانس 7 کھرب 4 ارب ڈالر کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ جبکہ جرمنی کی پوزیشن 6 کھرب 46 ارب ڈالر کے ساتھ پانچویں ہے۔ چھٹے نمبر پر چین ہے، جو 2 کھرب 64 ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ فہرست میں 2 کھرب 51 ارب ڈالر کے ساتھ ساتواں نمبر اٹلی کا ہے۔ آٹھویں نمبر پر اسپین ہے، جس کے کْل بیرونی قرضے 2 کھرب 26 ارب ڈالر ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ جبکہ نویں نمبر پر کینیڈا ایک کھرب 93 ارب اور دسویں پر آسٹریلیا ایک کھرب 83 ارب ڈالر کے ساتھ موجود ہے۔
مذکورہ فہرست میں پاکستان 126 ارب ڈالر کے قرض کے ساتھ 47 ویں نمبر ہے۔ دریں اثنا امریکہ کے محکمہ خزانہ نے بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں اور ادائیگی کے ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے چند فوری اور خصوصی اقدامات اٹھائے ہیں۔ قرض کی آخری حد کو چھونے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت اب اس وقت تک مزید رقم قرض نہیں لے سکتی جب تک کانگریس قرض حاصل کرنے کی لِمٹ یعنی حد کو بڑھانے پر راضی نہ ہو جائے۔
1960ء کے بعد سے امریکی حکمرانوں نے قرض کی حد میں 78 بار اضافہ، توسیع یا نظر ثانی کی ہے۔ اگر صرف پچھلے چھ ماہ کی بات کی جائے تو تین مرتبہ اس حد پر نظر ثانی کی گئی ہے۔ لیکن اس مرتبہ صورتحال تھوڑی مختلف ہے کیونکہ کانگریس میں یہ معاملات دو ہفتوں سے ڈیڈلاک کا شکار ہے۔ جب سے ری پبلکنز نے ایوانِ نمائندگان کا کنٹرول حاصل کیا ہے اور وہ مسلسل اخراجات میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایسی صورت یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ اس بار سیاستدان ردِعمل ظاہر کرنے میں (قرض حاصل کرنے کی حد میں اضافے کے حوالے سے) سست روی کا مظاہرہ کریں گے، جس کے باعث امریکہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ صورتحال امریکہ کو اپنی تاریخ میں پہلی بار جان بوجھ کر ڈیفالٹ کی جانب لے جا سکتی ہے۔