احمد خلیل جازم :
پاکستان ریلویز میں حادثات کی شرح دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر ہے جبکہ بعض ذرائع کے مطابق یہ شرح ساتویں نمبر پر ہے۔ واضح رہے کہ دو روز قبل بلوچستان کے شہر سبی میں پنیر کے علاقے میں ریلوے ٹریک پر دھماکا ہوا۔
ریلوے حکام کے مطابق کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کی متعدد بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں، جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے، انجن سمیت آٹھ بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔ یہ بلوچستان میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل18جنوری 2022ء کو بھی جعفر ایکسپریس ٹریک پر نصب بم سے جا ٹکرائی تھی، جس کی وجہ سے چھ افراد زخمی ہوگئے تھے۔ علاوہ ازیں ایک بار یہی ٹرین ٹریک سے بھی اتر چکی ہے۔ حالیہ واقعہ میں ابھی تک کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی لیکن بہرحال جہاں لوگ زخمی ہوئے ہیں، وہیں ریل کو بھی لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک ریل گاڑیوں کو بڑے بڑے حادثات پیش آئے اور یہ حادثات قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگئے تھے۔ سب سے زیادہ واقعات گزشتہ دور حکومت میں اس وقت پیش آئے جب2019ء میں شیخ رشید ریلوے کے وزیر تھے۔ ایسے واقعات بھی ہیں جس میں پاکستان ریلویز کو جہاں کروڑوں روپے کا نقصان ہوا وہیں، سیکڑوں انتہائی قیمتی جانیں بھی چلی گئیں۔
ریلویز کے ذرائع کے مطابق ان متعدد حادثات میں زیادہ تر ریلویز کے متعدد حکام کی غلطیاں تھی اور اکثر بڑے لیول کے ملازم نے کسی حادثے کا سارا ملبہ یا تو چھوٹے ملازم کے سر ڈالا، یا پھر اس انجن ڈرائیور کے سر ڈالا جو کسی حادثے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس لیے کسی بھی ٹرین حادثے کی ایسی جامع انکوائری نہیں ہوسکی، جس سے وجوہات معلوم کرکے کسی غلطی کرنے والے کو سزا دی گئی ہو۔ اگر سزا دی بھی گئی تو چھوٹے اسکیل کے کانٹے والوں کو مورد الزام قرار دے کر اسے معطل کردیا گیا۔
قیام پاکستان سے اب تک کتنے بڑے حادثات ہوئے اور ان کی وجوہات کیا تھی؟ اس سلسلے میں جب ’’امت‘‘ نے تحقیق کی تو کہیں سے بھی مواد مکمل دستیاب نہیں ہوسکا۔ چنانچہ کچھ ریلویز کے حکام اور منسٹری آف ریلویز کے کچھ ذرائع نے ان واقعات کی تفصیل سے آگاہ کیا۔
ریلوے ذرائع کے مطابقسب سے پہلا حادثہ 1953ء میں قیام پاکستان کے کچھ برسوںبعد پیش آیا۔ یہ دن تھا 21 جنوری 1953ء کا جب جھمپیر کے قریب لاہور سے کراچی جانے والی ٹرین پٹری سے اتری اور اس میں آگ بھڑک اٹھی جس میں 200 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ پہلا بڑا حادثہ تھا۔ اس حادثے میں ریل کے چھوٹے ملازمین پر الزام عاید کیا گیا۔ دوسرا بڑا حادثہ پہلے کے چھ برس بعد ہوا یعنی 29 ستمبر 1957 ء کو گمبر منٹگمری میں۔ یہ کراچی جانے والی ایکسپریس مسافر ٹرین کو پیش آیا جو آدھی رات سے پہلے ایک آئل ٹینکر ٹرین سے پوری رفتار سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے میں 300 افراد جاں بحق اور 150 زخمی ہوئے ہیں۔ یہ بڑا حادثہ تھا اور ریل کے پاس اس وقت اتنے وسائل نہیں تھے کہ اس کی بھرپور انکوائری کراکے اس کے ذمہ داران کا تعین کیا جائے۔
ظاہر ایک گاڑی دوسری پر چڑھ دوڑی توالزام کانٹے والے کے سر ہی آنا تھا۔ لودھراں، پنجاب میں21 جولائی 1966ء کے دن ٹرین اور بس کے تصادم میں38 لوگ جاں بحق ہوئے، جو ریلوے کراسنگ نہ ہونے کی وجہ سے پیش آیا۔ 8 اگست 1972ء کو لاہور اور کراچی جانے والی ایکسپریس ٹرین لیاقت پور میں غلط ٹریک پر ڈالنے سے ایک مال گاڑی پر چڑھ دوڑی جس میں 38 اموات ہوئیں۔ 22 اکتوبر 1987ء کو مورو، سندھ کے قریب ٹرین اور بس کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 28 افراد جاں بحق اور 60 زخمی ہوئے، یہاں بھی معاملہ ریلوے کراسنگ پر پھاٹک نہ ہونے کا باعث بنا۔
4 جنوری 1990ء بہاؤالدین زکریا ایکسپریس سانگی اسٹیشن، سندھ میں67 خالی مال ڈبوں والی ٹرین سے ٹکرا گئی۔ ٹرین کو سانگی سے گزرنا تھا، زکریا ایکسپریس 35میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اس کے عقب میں جا ٹکرائی اور پہلے تین ڈبوں میں کوئی ایسا شخص نہ تھا جو زخمی یا ہلاک نہ ہوا ہو۔ یہ پاکستان کے بدترین ریل حادثے میں ایک ہے جس میں 307 افراد ہلاک اور دیگر کم وبیش 700 افراد زخمی ہوئے۔ اس حادثے میں ریلوے عملہ غفلت کا ذمہ دار پایا گیا۔
نومبر 1992ء میں گھوٹکی، سندھ ریلوے اسٹیشن پر مسافر ٹرین اور مال گاڑی میں تصادم سے 54 افراد جاں بحق ہوئے، وجہ محکمہ ریلوے کی غفلت بتائی گئی۔ 3 مارچ 1997ء کو خانیوال کے قریب پشاور سے کراچی جانے والی ٹرین پٹری سے اتر کر حادثے کا شکار ہوئی جس میں 14 افراد جاں بحق اور 100 زخمی ہوئے۔ پھر ریل کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہوا جب دو نہیں، بلکہ تین ٹرینیں آپس میں ٹکرائیں۔ 13 جولائی 2005 کو مقامی وقت کے مطابق صبح پونے چار بجے ایک المناک حادثہ گھوٹکی سندھ کے قریب پیش آیا۔
اسٹیشن پر رکی کوئٹہ ایکسپریس کو کراچی ایکسپریس نے پیچھے سے ٹکر مار دی، جس سے کئی بوگیاں پٹری سے اتر گئیں، اس کے بعد مخالف سمت سے آنے والی تیزگام ان سے آ ٹکرائی، جس میں کل سترہ ٹرین بوگیاں تباہ ہوئیں، جن میں 3000 سے زیادہ مسافر سوار تھے، جب کہ اس حادثے میں جاں بحق والوں کی تعداد 130 سے زیادہ بتائی گئی۔ اس کے بعد 2 جولائی 2015ء کو دوپہر 12 بجے، گوجرانوالہ کے علاقے جامکی چٹھہ کے قریب اپر لوئر چناواں نہر پر چناواں پل ٹوٹنے سے پاک فوج کے اہلکاروں کو لانے والی ایک ٹرین پٹری سے اتر گئی۔ ٹرین میں چھ مسافر بردار سمیت 21 بوگیاں تھیں۔ ان میں سے چار بوگیاں پٹری سے اتر گئیں،
ٹرین میں تقریباً 300 پاکستان آرمی کور آف انجینئرز کے سپاہی اور ان کے اہل خانہ سوار تھے۔ ان میں پاک فوج کے ایک لیفٹنٹ کرنل بھی جاں بحق ہوئے۔ پٹری سے اترنے والی بوگیوں میں سے ایک نہر میں جاگری۔ اس میں19 افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے۔17 نومبر 2015ء کو بلوچستان میں آب گم اسٹیشن پر جعفر ایکسپریس پٹری سے اتر گئی جس میں 20 افراد ہلاک اور 96 زخمی ہوئے۔ 3 نومبر2016ء کو کراچی کے لانڈھی ریلوے اسٹیشن کے قریب دو مسافر ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں، جس سے کم ازکم 21 افراد جاں بحق اور 60 سے زائد زخمی ہوئے۔ 31 اکتوبر 2019ء کو ضلع رحیم یار خان میں مسافر ٹرین میں آگ لگنے سے 74 افراد جان سے گئے۔
بتایا گیا کہ ٹرین میں گیس سلنڈر اور چولہا پھٹنے سے ہوا۔ 11 جولائی 2019ء کو رحیم یار خان کے قریب اکبر ایکسپریس مال گاڑی سے ٹکرا گئی، جس میں 20 مسافر جاں بحق اور 60 زخمی ہوئے۔ سال 2019ء پاکستان ریلوے کی تاریخ کا بدترین سال ثابت ہوا۔ سو سے زائد ٹرین حادثات ہوئے، جس میں جانی نقصان کے ساتھ ساتھ ریلویز کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ 28 فروری2020ء سکھر میں، ٹرین ایک بس سے ٹکرا گئی۔ بس میں کل 20 افراد سوار تھے، 20 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔
7 مارچ2021ء کو سکھر سندھ میں، ایک ٹرین پٹری سے اتر گئی،جس میں ایک شخص ہلاک، اور 40 سے زیادہ مسافر زخمی ہوئے۔ یہ حادثہ روہڑی اور سانگی ریلوے اسٹیشنوں کے درمیان پٹری پیش آیا۔ جنوری 2021ء میں پاکستان ریلوے نے سالانہ حادثات کی رپورٹ جاری کی تھی، جس کے مطابق2020ء میں مختلف گا ڑیوں کے 137حادثات ہوئے جس میں 56 افراد جاں بحق اور 58ز خمی ہوئے ، مختلف ریل گاڑیوں میں آگ لگنے کے 7 واقعات رپورٹ ہوئے۔
گزشتہ برس ذرائع کے مطابق 18 جنوری2022 ء میں سبی کے مقام پر جعفر ایکسپریس ٹرین بم سے ٹکرا گئی اور پٹری سے اتر گئی جس کی وجہ سے6 افراد زخمی ہوئے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان ریلوے میں حادثات ہونے کی شرح دنیا بھر میں چھٹے یا ساتویں نمبر پر ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سے جو ریلوے ٹریک پاکستان کو ملا تھا، اس میں کسی قسم کی جدت نہیں لا ئی گئی متعدد ریلوے پل کی مدت معیاد پوری ہوچکی ہے اور اکثر کی عمریں 100سال سے زائد ہوچکی ہے۔ مگر حکومت ان کی اوور ہا لنگ پر بھی توجہ نہیں دے رہی۔ ملک بھر میں ہزاروں پوائنٹ ایسے ہیں یہاں ریلوے پھاٹک اور پھاٹک والا نہ ہو نے کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں، جن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔