عالمی برادری سے مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم روکنے کا مطالبہ

اسلام آباد(امت نیوز) کشمیر میں بھارتی ریاست کی گھناؤنی کارروائیوں اور جنگی جرائم کے دستاویزی شواہد، مودی پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کی طرح بھارت کے اسرائیلی طرز کے جبری آبادکاری کے ایجنڈے اور فوجی قبضے کے خلاف  کشمیریوں کے حق خودارادیت کے کیس کو مضبوط کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد میں منعقدہ "یوم یکجہتی کشمیر” کے موقع پر ‘آئی پی ایس فورم’ کے شرکاء نے اپنی گفتگو میں کیا۔

مقررین میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، وائس چیئرمین، آئی پی ایس اور سابق سفیر سید ابرار حسین، بانی و سربراہ، لیگل فورم فار کشمیر ایڈوکیٹ ناصر قادری، اورآئی پی ایس کے ورکنگ گروپ برائے کشمیر کی سیکرٹری اور سابق وزیر، آزاد جموں و کشمیر فرزانہ یعقوب شامل تھے۔

ناصر قادری نے زور دے کر کہا کہ سب سے اہم چیز جس کو بار بار اجاگر کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کشمیرمحض انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ نہیں ، یہ ایک مکمل فوجی قبضہ ہے۔ جنگی جرائم، منظم ظلم و ستم، گھناؤنے مظالم، ماورائے عدالت قتل، اور بھارت کا اسرائیلی طرز کا آباد کار ایجنڈا یہ سب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے کہیں آگے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی انسانی قانون اور جنیوا کنونشن کی بھی خلاف ورزی کر رہا ہے لہٰذا اس معاملے میں غیرجانبدارانہ تحقیق اور صحافت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر ہندوستانی مظالم کو بے نقاب کرنا بہت ضروری ہے، جیسا کہ بی بی سی کی گجرات میں مودی کے قتل عام پر بنی حالیہ دستاویزی فلم، جس میں مودی کی نوآبادیاتی ذہنیت اوراقلیتوں کے ساتھ اس کے ظالمانہ طرز عمل پر کی عکاسی کی گئی ہے جس کی گواہی برطانوی سفارت کار جیک اسٹرا نے بھی دی تھی۔ مذکورہ دستاویزی فلم پر پابندی لگانے اور اس طرح کی شہادتوں کو جعلی قرار دینے کی ہندوستان کے ھتھکنڈوں کی وجہ سے دنیا نے اس پراورزیادہ توجہ دی ہے۔

فرزانہ یعقوب نے کہا کہ مستقل گمراہ کن پروپیگنڈا  بھارت کے لیے ایک آلہ ہو سکتا ہے، لیکن چونکہ کشمیری ایک حقیقی اور مبنی بر انصاف مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں اس لیے انہیں سچ اورحقائق کو تمام ممکنہ محاذوں پر آگے لے کرجانا چاہیے۔ قومی اور نجی ذرائع ابلاغ کو بیانیہ بنانے، دستاویزی فلمیں بنانے اور اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر زندہ رکھنے میں نمایاں کردار اداکرنا چاہیے۔

خالد رحمان نے  اس معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 5 فروری کی اہمیت کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ سمجھنا اور اس کے واضح مقصد کو ذہن میں رکھ کر منانا چاہیے۔ یہ اہم بات ہے کہ اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان میں حکومت کس کی رہی، کسی بھی حکومت نے کشمیر پر اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کے حوالے سے سیاسی حکومت اور عوام کے درمیان اتفاق رائے ایک ایسی طاقت ہے جسے اعلیٰ سطح پر تقویت دی جانی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان کی قیادت، دفترخارجہ، عوام، میڈیا، سیاسی جماعتیں اوربیرون ملک پاکستانی مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے آواز اٹھانے کے لیے اپنا کردار ادا کررہے ہیں تاہم اس جدو جہد میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ سید ابرار حسین نے ان خیالات کی تائید کی اور زور دیا کہ یہ ہمارا قومی فرض ہے کہ ہم حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگوں کی بھرپورحمایت کریں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کو دنیا بھر میں سفارتی سطح پرمستقل اٹھاتے رہنا ضروری ہے کیونکہ دنیا کو کشمیر کی سرزمین پر بھارت کی شرمناک پالیسیوں اور ظالمانہ کارروائیوں سے آگاہ ہونا چاہیے۔ بین الاقومی سطح پر پاکستانی سفارت خانوں کی اس طرح کی کوششوں کی وجہ سے مزید کئی ریاستوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت کے خلاف کشمیر کاز کی حمایت شروع کر دی ہے۔ مثال کے طور پر چین نے اس بات پر متعدد بار موقف پیش کیا کہ مسئلہ کشمیر کو استصواب رائے کے ذریعے حل کیا جائے، ترکی کے رہنما اردگان نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھایا اور او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے بین الاقوامی سطح پر بھارتی بربریت اور اس کے گھناؤنے سیاسی ہتھکنڈوں کی زمینی حقیقت کو بے نقاب کیا۔ مزید برآں، سفارت خانوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کو متحرک کرنے میں پیش قدمی کی ہے اور پوری دنیا میں مظاہرے ہوئے ہیں۔ اس لیے نہ صرف بین الاقوامی سیاست میں اس مسئلے کی مطابقت برقرار رہتی ہے بلکہ دنیا کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کسی بھی رائے شماری کے نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے کس طرح کشمیر کی آبادی کو تبدیل کر رہا ہے