عمران خان :
کالعدم علیحدگی پسند تنظیم سندھو دیش ریولوشنری آرمی (ایس آر اے) کے 27 کارکنوں کو 2018ء اور 2019ء کے دوران پاکستان سے افغانستان میں داخل کر کے بھارتی خفیہ ایجنسی سے جنگی تربیت دلوائی گئی۔
ایس آر اے کے آپریشن کمانڈر اصغر شاہ عرف سجاد شاہ نے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے دیرینہ آلہ کار حضرت گل سے معاملات طے کروائے۔ کالعدم تنظیم کے کارکنوں کو چھوٹے بڑے جدید ہتھیاروں کی تربیت دینے کے ساتھ راکٹ لانچر چلانے اور بم بنانے کی تربیت بھی فراہم کی گئی۔ تربیت حاصل کرنے کے بعد ایس آر اے کی یہ نئی کھیپ سندھ میں ان کے مرکزی آپریشن کمانڈر حنیف عرف بلو عرف چھوٹا کی سربراہی میں دہشت گردی کی کارروائیوں کیلیے متحرک ہوئی۔
حالیہ دنوں میں ملیر پولیس کے ہاتھوں گرفتار سرگرم دہشت گرد حنیف چھوٹو نے سنسنی خیز انکشافات کئے ہیں۔ اس کارروائی میں پولیس نے اداروں کی مدد سے ایس آر اے کے انتہائی متحرک سندھ کے مرکزی نیٹ ورک پر کامیاب ہاتھ ڈالا ہے۔
تحقیقات سے منسلک ذرائع کے مطابق ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ تربیت کے لئے 5 برس قبل افغانستان جانے والے ان دہشت گردوں نے واپس آکر دو درجن سے زائد دہشت گردی کی وارداتیں انجام دیں۔ جن میں ریلوے ٹریک کے علاوہ دیگر سرکاری تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ سی پیک منصوبے پر بھی حملے شامل ہیں۔ ان 2 درجن سے زائد تربیت یافتہ کارکنوں کو 3 سے 4 افراد کی دس ٹولیوں یعنی ’سب گروپوں میں‘ تقسیم کرکے کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں فعال کیا گیا۔
جبکہ خود اصغر شاہ عرف سجاد شاہ نے حنیف چھوٹو کی مدد سے بلوچستان کی 5 علیحدگی پسند تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم (براس) سے اشتراک کرکے چینی شہریوں پر بھی حملے کئے۔ ان تمام برسوں میں حنیف چھوٹو، سجاد شاہ کے ذریعے بیرون ملک موجود حضرت گل سے مسلسل رابطے میں رہا۔ جس کیلئے سوشل میڈیا کی بین الاقوامی انسٹاگرام کی ایپلی کیشن استعمال کی جاتی رہی۔ مذکورہ ایپلی کیشن پر پی ٹی اے کی جانب سے پابندی کے بعد اسے ذاتی وی پی این یعنی ورچوئل پروٹول نیٹ ورکنگ کے ذریعے چلایا جاتا رہا۔
اس ضمن میں ایس ایس پی ملیر سید عرفان بہادر کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ حالیہ بڑی کارروائی میں دہشت گردی کی کئی وارداتوں میں ملوث کالعدم ایس آر اے کا دہشت گرد حنیف عرف بلو بادشاہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔
گرفتار دہشت گرد حنیف کا نام ریڈ بک میں 106 صفحہ پر موجود ہے۔ حنیف کراچی اور اندرون سندھ میں رینجرز پر دستی بم حملوں میں ملوث ہے اور اس نے دہشت گردی کی تربیت افغانستان میں حاصل کی۔ دہشت گرد حنیف عرف چھوٹو نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ اس نے بڑے تمام ہتھیار، راکٹ چلانے اور بم بنانے کی ٹریننگ افغانستان میں لی۔ اس نے 2019ء میں ایس آر اے میں شمولیت اختیار کی۔ دہشت گردی کی کاررائیوں کے لئے آپس میں رابطہ موبائل ایپلی کمیشن ٹیلی گرام کے ذریعے کی جاتی رہی۔ دہشت گردی کی پہلی واردات گلستان جوہر کامران چورنگی پر 10 جون 2020ء کو رینجرز پر دستی بم حملے سے کی۔
19جون کو گھوٹکی میں رینجرز کی موبائل پر دستی بم سے حملہ کیا۔ 4 جولائی 2020ء کو پنو عاقل میں رینجرز کی گاڑی پر دستی بم پھینکا۔ 05 اگست 2020ء کو کراچی میں کشمیر ریلی پر ہینڈ گرینڈ سے حملہ کیا۔ 5 اگست 2020ء کو ہی کورنگی میں رانا جی اسٹیٹ پر ہینڈ گرنیڈ سے حملہ کیا۔ 15 دسمبر 2020ء کو کلفٹن میں چائنا ریسٹورنٹ کے مالک کی گاڑی پر Magnetic بم لگایا۔ 15 دسمبر 2020ء کو شیخ زیدکیپمس پر ہینڈ گرنیڈ سے حملہ کیا۔ 22 دسمبر 2020ء کو سپر ہائی وے جمالی پل پر چائینیز پر فائرنگ کی۔ 2019ء میں قائدآباد پل پر بارود سے بھری موٹر سائیکل کھڑی کی۔ لیکن دھماکہ نہیں ہوسکا۔ حنیف نے بتایا کہ دہشت گردی کی وارداتوں کا حکم ایس آر اے کا کمانڈر اصغر شاہ عرف سجاد شاہ دیتا تھا۔ گرفتار دہشت گرد حنیف کے ساتھیوں کی تلاش میں چھاپے مار کاروائیاں جاری ہیں۔
ذرائع کے بقول ایس آر اے سندھ کی سطح پر فعال ایک زیرِ زمین کالعدم علیحدگی پسند تنظیم ہے۔ جس پر حکومت پاکستان نے مئی 2020ء میں تخریب کاری اور ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزامات کے تحت پابندی عائد کر دی تھی۔ ایس آر اے کے ساتھ ساتھ سندھ کی دو دیگر تنظیمیں سندھو دیش لبریشن آرمی نامی علیحدگی پسند تنظیم اور سندھی قوم پرست جماعت جئے سندھ قومی محاذ آریسر پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔ ایس آر اے نے 2013ء میں کراچی میں چینی سفارتخانے کے باہر ایک دھماکے، 2016ء میں کراچی کے علاقے گلشن حدید میں چینی انجینئرز کی گاڑی کو نشانہ بنانے کے علاوہ سکھر کے قریب سی پیک منصوبے کے اہلکاروں پر حملے کی بھی ذمے داری قبول کی تھی۔
دسمبر 2020ء میں کراچی میں دو چینی باشندوں پر حملوں میں بھی حکام کی جانب سے ایس آر اے کو ملوث قرار دیا گیا تھا۔ سندھ پولیس کے افسران کے مطابق اصغر شاہ عرف سجاد شاہ کی سربراہی میں کام کرنے والے ایس آر اے کے اس گروپ نے پہلے سے فعال علیحدگی پسند گروہ سندھو دیش لبریشن آرمی (ایس ایل اے) سے قیادت کے مسئلے پر علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ تاہم ایک اور افسر کے مطابق یہ معاملہ 2010ء میں اس وقت ہوا تھا۔ جب لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے اصغر شاہ عرف سجاد شاہ نے 2005ء میں اپنی گرفتاری کے بعد رہائی ملنے پر ایس ایل اے کے سربراہ شفیع جو جرمنی میں سرگرم ہے، پر ساتھ نہ دینے اور کارروائیاں روکنے کے الزامات عائد کیے اور اپنا نیٹ ورک علیحدہ کرکے اسے فعال کیا۔
اس دوران سجاد شاہ کئی برسوں تک کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں حسین ہزارہ گوٹھ میں بھی سرگرم رہا۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر وفاقی وزارتِ داخلہ مارچ 2013ء میں جسمم پر پاپندی عائد کرچکی ہے اور شفیع برفت کا نام مطلوب دہشت گردوں کے کوائف پر مشتمل ریڈ بک میں شامل کیا گیا۔2021ء میں شائع ہونے والی ریڈ بک کے نئے شمارے میں اصغر شاہ عرف سجاد شاہ کے ساتھ ساتھ ایس آر اے کے دیگر تین رہنماؤں محمد حنیف عرف بلو بادشاہ، سجاد علی منگیجو عرف سجاد اور معشوق قنبرانی عرف اوشاق سندھی کو انتہائی مطلوب افرادکی فہرست میں شامل کیا گیا۔
ریڈ بک کی تفصیلات میں سید اصغرشاہ کو صوبہ بھر میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ایس آر اے کی جانب سے اگست 2020ء میں کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں جماعتِ اسلامی کی کشمیر ریلی اور جون 2020ء میں کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں احساس پروگرام کے دفتر پر تعینات رینجرز اہلکاروں پر حملے کیے گئے تھے۔ پولیس افسران کے مطابق ایس آر اے کی حالیہ کارروائیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ براس میں شامل ہونے کے بعد انہیں فنڈنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی تربیت بھی دی گئی۔ براس میں شمولیت کے بعد 2020ء کے آخری مہینوں میں ایس آر اے کی جانب سے دو چینی باشندوں اور رینجرز اہلکاروں پر حملے کے بعد صوبہ بھر میں ایس آراے کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی دیکھنے میں آئی تھی۔ اسی طرح 2022ء میں صدر کے علاقے میں پرہجوم مقام پر بم دھماکہ بھی کیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایس آر اے کے تربیت یافتہ کارکنوں کی کئی ٹولیاں شکار پور، جیکب آباد، ڈہرکی اور قمبر شہداد کوٹ سے کچے کے ڈاکوئوں کے ساتھ ہیں۔ جنہیں کچے کے ٹھکانوں پر پناہ گاہیں اور اسلحہ کے ساتھ بارودی مواد بھی دستیاب ہوتا ہے۔ یہیں سے انہیں فنڈنگ کے علاوہ دہشت گردی کی وارداتوں کی پلاننگ کے لیے مواقع ملتے ہیں۔ جبکہ شہروں میں موجود کارکنوں سے رابطے کئے جاتے ہیں۔