محمد قاسم :
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث جانوروں اور پرندوں کی خوراک بھی 300گنا مہنگی ہو گئی۔ باجرہ، مکئی اور گندم کی قیمتوں میں 600 سے 1200 روپے تک کا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ دیسی خشک چارے کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ جس کے باعث لوگوں نے پالتو جانور اور پرندے فروخت کرنا شروع کر دیے ہیں۔
پشاور شہر میں غیر معیاری اور ملاوٹ شدہ دودھ سمیت دیگر اشیا کی کھلے عام فروخت بھی جاری ہے۔ جبکہ انتظامیہ منظر سے غائب ہے۔ نگران حکومت کیلیے رمضان المبارک میں مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کو کنٹرول کرنا چیلنج ہوگا۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق مہنگائی کی چکی میں عوام تو پس ہی رہے تھے۔ اب پرندے اور جانور پالنے کے شوقین افراد کیلئے بھی بری خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ کیونکہ پرندوں اور جانوروں کی خوراک کی قیمتوں میں 300 فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔ مارکیٹ سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق باجرہ، مکئی، بیج اور گندم کی قیمتوں میں 600 سے 1200 روپے تک کا اضافہ کیا گیا ہے۔
مرغی دانہ بھی 500 روپے کلو تک مہنگا ہوا ہے۔ جس کے باعث گھروں میں مرغیاں پالنے والے افراد پریشان ہیں۔ جبکہ چند ماہ کے دوران قیمتوں میں مزید اضافے کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔۔ اس کے ساتھ ساتھ دیسی خشک چارے کی قیمتوں کو بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی بلیوں کی خوراک کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔
پالتو جانور اور پرندے پالنے کے شوقین محمد سلیم نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پچھلے دنوں اس کی ایک نایاب قسم کی بلی گھریلو خوراک کھانے کی وجہ سے بیمار پڑ گئی۔ کیونکہ بازار سے اس کیلئے اچھی خوراک لانا قوت خرید سے باہر ہو گیا ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ پچھلے ہفتے مرغیاں اور چائنیز طوطے وہ پہلے ہی فروخت کر چکا ہے اور اب صرف دو بلیاں رہ گئی ہیں۔ صورتحال یہی رہی تو ان کو بھی فروخت کردے گا۔
جانوروں اور پرندوں کے کاروبار سے وابستہ کوہاٹی کے علاقے کے تاجر ناصر خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان کا کاروبار مہنگائی کی وجہ سے انتہائی متاثر ہوا ہے۔ پہلے ہفتے میں پورے مہینے کاخرچہ نکال لیتے تھے۔ لیکن اب پورا مہینہ کام کر کے بھی ہفتے کا خرچہ نہیں نکال پارہے۔ کیونکہ لوگوں نے مہنگائی کی وجہ سے پالتو پرندے خریدنا چھوڑ دیئے ہیں۔ جبکہ جن لوگوں نے ان کی دکان سے ان پرندوں کی خریداری کر رکھی تھی۔ وہ بھی واپسی کیلیے رابطے کر رہے ہیں۔
اس صورتحال میں کاروبار کو مزید جاری رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ پشاور کے مصروف ترین علاقہ کوہاٹی کے عقب میں واقع بٹیر بازار میں تقریباً درجن سے زائد دکانیں مہنگائی اور کورونا لاک ڈائون کی وجہ سے بند ہو گئی تھیں۔ تاہم اب جتنی دکانوں میں جانور اور پرندے موجود ہیں۔ ان کے کے مالکان بھی پریشان ہیں۔
سول کوارٹر سے تعلق رکھنے والے جہانگیر خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ انہوں نے پچھلے مہینے خرگوش خریدے تھے۔ لیکن گھر کا خرچہ پورا نہیں ہورہا۔ اس لئے ان بے زبان جانوروں کو تو بھوکا نہیں رکھا جا سکتا۔ اس لئے آدھی سے بھی کم قیمت پر دکاندار کو واپس کردیئے ہیں۔ دوسری جانب شہر میں غیر ملاوٹ شدہ دودھ سمیت دیگر اشیا کی فروخت بڑھ گئی اور اس مستزاد ان کی قیمتیں بھی زیادہ ہیں۔ جبکہ سرکاری نرخنامہ شیر فروش سمیت کسی بھی دکان پر آویزاں نہیں۔
ادھر نانبائیوں نے بھی 135 گرام روٹی 15 روپے میں فروخت کرنے کا نرخنامہ آویزاں کر کے 120 گرام سے بھی کم روٹی 20 روپے میں فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ تاہم انتظامیہ منظر سے غائب ہے۔
ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پشاور کے مختلف علاقوں میں کارروائی کرتے ہوئے گرانفروشی، سرکاری نرخ نامے کی عدم موجودگی، کم وزن روٹی اورصفائی کی ناقص صورتحال پر 23 دکانداروں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر پشاور شفیع اللہ خان کی ہدایت پر انتظامی افسران نے ورسک روڈ، باڑہ روڈ، اندرون شہر بازاروں، کوہاٹ روڈ، دلہ زاک روڈ اور دیگر علاقوں میں بازاروں کا معائنہ کیا اور مختلف علاقوں سے مجموعی طور پر23 دکانداروں کو گرفتار کر لیا۔ ان میں سبزی و پھل فروش، نانبائی، قصاب، شیر فروش، جنرل اسٹور مالکان اور دیگر شامل ہیں۔ جن کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ڈپٹی کمشنر پشاور کے مطابق صوبائی دارالحکومت میں انتظامی افسران روزانہ کی بنیاد پر سبزی و پھل منڈیوں میں سرکاری نرخ نامہ جاری کرتے ہیں اور بعد میں پشاور بھر میں سرکاری نرخ ناموں پرعمل درآمد کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ انتظامی افسران کو پشاور بھر میں بازاروں کا مسلسل معائنہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور گرانفروشی پر قانونی کارروائی کی ہدایت ہے۔ اسی طرح ضلعی انتظامیہ نے کارروائی کر تے ہوئے ملاوٹ شدہ دودھ فروخت کرنے پر حیات آباد سے 16 شیر فروشوں کو گرفتارکرتے ہوئے210 لیٹر سے زائد ملاوٹ شدہ دودھ کو تلف کر دیا ہے۔ تاہم بڑھتی ہوئی مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری نگران حکومت کیلئے ایک چیلنج بن گئی ہے۔ خاص کر رمضان المبارک میں قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنا حکومت کیلئے چیلنج ہوگا۔ کیونکہ دیگر ایام کی نسبت ملک میں ماہ مبارک میں مہنگائی آخری حدوں کو چھو رہی ہوتی ہے۔