محکمہ صحت کے شعبہ جات غیر فعال ہونے سے عالمی معیار کے بڑے اسپتال بھی لوٹ مار میں مصروف ہیں ، فائل فوٹو
محکمہ صحت کے شعبہ جات غیر فعال ہونے سے عالمی معیار کے بڑے اسپتال بھی لوٹ مار میں مصروف ہیں ، فائل فوٹو

ادویات کی قیمتیں بڑھانے کیلیے فارما کمپنیوں کا نیا حربہ

عمران خان :
ملک میں ادویات کے نئے بحران کا راستہ ہموار کیا جانے لگا۔ جس کے نتیجے میں دواؤں کی قیمتیں غریبوں کے بعد متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی باہر جائیں گی۔ چالیس سے زائد فارما کمپنیوں کی جانب سے پیداوار بند کرنے کے مراسلے ارسال کیے جا چکے ہیں اور ساتھ ہی صورتحال کو مزید گھمبیر ظاہر کرنے کیلیے ایسوسی ایشن کی جانب سے از خود ادویات کی بلیک مارکیٹنگ کے خدشات ظاہر کیے جانے لگے ہیں۔ جبکہ گزشتہ کئی مہینوں سے بلیک مارکیٹنگ کا سلسلہ عروج پر ہے۔ جس پر ڈریپ اور فارماسوٹیکل کمپنیوں کے مالکان کی نمائندہ تنظیم دم سادھے بیٹھی ہے۔

فارما کمپنیوں کے اس انتباہ پر حکومت کی جانب سے انہیں مذاکرات کرنے اور حل کا درمیانہ راستہ نکالنے کی دعوت اور یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ حالانکہ اسلام آباد میں موجود ڈریپ اور وفاقی وزارت صحت کے اہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ فارما سیوٹیکل کمپنیوں کو یہ راستہ اختیار کرنے کا مشورہ بھی ڈریپ اور وزارت کے سیکریٹری آفس سے دیا گیا۔ تاکہ قیمتوں میں اضافے کے بعد عوامی دبائو کا ردعمل سرکاری اداروں اور موجودہ حکومت پر نہ آسکے۔

’’امت‘‘ کو اسلام آباد میں ڈریپ اور وفاقی وزارت صحت سے جڑے اہم ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ دنوں ملک بھر کی ادویات ساز کمپنیوں کے کئی مالکان اور ان کی نمائندہ تنظیم کے عہدیداروں کی جانب سے بعض حکومتی وزرا کے توسط سے ڈریپ اور ہیلتھ سیکریٹریٹ کے حکام کے ساتھ متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔

جن میں فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے مالکان مسلسل ہر طریقے سے سرکاری حکام کو ادویات کی قیمتوں میں اضافے اور ان کے من پسند نرخ مقرر کرنے پر قائل کرتے رہے۔ تاہم سرکاری حکام کی جانب سے فارما کمپنیوں کے مالکان کو اس پر رضامند کیا گیا کہ وہ سرکاری اداروں اور حکومت کو براہ راست ادویات کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کرنے پر مجبور نہ کریں۔ کیونکہ پہلے ہی حکومت ملک میں افراط زر بڑھنے، ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے، پٹرولیم مصنوعات سمیت کھانے پینے کی تمام اشیا کے نرخوں میں کئی گنا اضافہ ہونے پر منفی عوامی رد عمل کا شکار ہے۔ جبکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اس رد عمل میں نہ صرف اضافہ کر رہی ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ ان ملاقاتوں میں کمپنیوں کے مالکان کو کہا گیا کہ وہ اپنے طور پر راستہ تلاش کریں۔ جس کو بنیاد بنا کر حکومت اس پر کوئی فیصلہ کرے۔ ذرائع کے بقول ڈریپ اور وزارت صحت کے بعض حکام نے حکومتی اراکین کے ساتھ کمپنیوں کو تجویز دی کہ وہ خام میں پر لاگت بڑھنے کو جواز بنا کر اپنے پیداواری یونٹ بند کرنے کی بات کریں اور اس کو بنیاد بنا کر حکومت اور اداروں پر دبائو ڈالیں۔ بعد ازاں انہیں مذاکرات کی دعوت دے کر ایک مخصوص شرح تک نرخ بڑھانے کی تجویز دی جائے گی۔ بعد میں عوامی مفاد کو سامنے رکھ کر ان سے آدھے نرخ بڑھانے کے معاملے کو طے کر لیا جائے گا۔ اس طرح فارما کمپنیوں کی بات بھی مان لی جائے گی اور حکومت کو بھی عوامی رد عمل کا کم سامنا کرنا پڑے گا۔

واضح رہے کہ چار روز قبل فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے رہنما قاضی منصور دلاور کی جانب سے کہا گیا کہ ڈالر کی قدر بڑھنے سے خام مال مہنگا ہوگیا ہے۔ جبکہ بجلی اور گیس بھی مہنگی ہوچکی ہے۔ ایسے میں موجودہ قیمت پر دوا بنانا ممکن نہیں رہا۔ ایک ہفتے بعد ادویات کی پیداوار بند کر دیں گے۔ ڈالر کی قدر میں بے تحاشا اضافہ سے ادویات کی موجودہ قیمتوں پر پیداوار ممکن نہیں۔ مختلف کمپنیوں نے حکومت اور ڈریپ کو پیداوار بند کرنے کے نوٹس دینا شروع کردئیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی، لاہور اور راولپنڈی کی 10 کمپنیاں پیداوار بند کرنے کے نوٹس دے چکی ہیں۔ ایک ہفتے کے بعد ادویات کی پیداوار اور سپلائی کمپنیوں کیلیے ممکن نہیں رہے گی۔ خام مال، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ اگلے چند دنوں میں تمام دوا سازکمپنیاں پیداوار بند کرنے کے نوٹس دیں گی۔ قاضی منصور دلاور کا مزید کہنا تھا کہ حکومت اور ڈریپ کو ادویہ ساز کمپنیوں اور عوام کی مشکلات کا احساس نہیں۔

اسی روز جب اس پر ڈریپ اور وفاقی وزارت صحت سے رد عمل لیا گیا کہ وہ اس معاملے پر کیا کہتے ہیں، تو ڈریپ حکام کا کہنا تھا کہ انہیں ابھی کسی دوا ساز کمپنی نے نہ نوٹس دیا ہے نہ ہی زبانی طور پر دوا سازی بند کرنے سے آگاہ کیا ہے۔ تاہم 3 روز قبل اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سید فاروق بخاری نے قیمتوں میں 28.5 فیصد اضافے کا مطالبہ کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں امریکی ڈالر تقریباً 140 روپے کا تھا۔ اب روپے کی قدر میں کمی کے باعث یہ قدر بڑھ کر تقریباً 270 روپے تک پہنچ گئی ہے۔

اس صورتحال کی وجہ سے 40 کمپنیوں نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کو بتایا کہ وہ خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایک ہفتے میں پیداوار بند کرنے جا رہی ہیں۔

ان کے مطابق کمپنیوں کا کہنا تھا کہ متوقع تباہی کو ٹالنے کے لیے صنعت نے بار بار حکومت اور ڈریپ پر زور دیا کہ وہ ادویات کی زیادہ سے زیادہ خوردہ قیمتوں میں افراط زر کی ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دے۔ جس پر توجہ نہ دی گئی تو صنعت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بد قسمتی سے دوا سازی کی صنعت کو ایک تباہ کن دھچکا لگا۔ کیونکہ ایکٹو فارما سیوٹیکل اجزا یعنی ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمتوں میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد سے بین الاقوامی مارکیٹ میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی پیداوار کے عوامل جیسے ایندھن، بجلی، فریٹ چارجز اور پیکنگ مٹیریل کی قیمتوں میں بھی اسی عرصے کے دوران غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔

اسی خط میں خط میں دعویٰ کیا گیا کہ ’اس کے باوجود حکومت اور ڈریپ عوام کو تحفظ دینے اور موجودہ صورتحال کی بہتری کے لیے کوئی بھی اقدام اٹھانے میں ناکام رہے۔ جو دوا ساز کمپنی کی تباہی کا سبب بنا۔ جبکہ ہی ایل سی (لیٹرز آف کریڈٹ) نہیں کھولے جا رہے۔ کئی کنٹینرز کو کلیئر نہیں کیا جا رہا۔ ہمارے پاس خام مال ختم ہو چکا ہے‘۔

ذرائع کے بقول اس معاملے میں فارما کمپنیوں کے مالکان، ڈریپ اور وفاقی وزارت صحت کے بعض حکام کی جانب سے عوامی دبائو سے بچنے کیلئے متبادل راستہ بھی تلاش کرلیا گیا ہے۔ فارما کمپنیوں اور حکومت کے بجائے معاملہ عدالت میں لے جا کر قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ لینے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں فارما کمپنیوں کی درخواست پر عدالت کمپنیوں کو پیش آنے والی ’مشکلات‘ کے پیش نظر قیمتوں میں اضافے کے لیے ڈریپ اور وزارت صحت کے حکام سے رپورٹ طلب کرسکتی ہیں۔ اور اگر پیداواری لاگت زیادہ سے زیادہ فروخت کی قیمت سے زیادہ ہو جائے تو کمپنیاں مشکلات کے زمرے کے تحت قیمتوں میں اضافے کے لیے مقدمات دائر کر سکتی ہیں۔

دوسری جانب ذرائع کا دعویٰ ہے کہ فارما سیوٹیکل کمپنیاں کئی مہینوں سے بلیک مارکیٹنگ پر خاموش ہیں۔ یہی صورت حال ڈریپ اور وزارت صحت کی ہے۔ کیونکہ کئی مہینوں سے ہنگامی صورتحال اور وبائی امراض کے دوران معروف ادویات بشمول پینا ڈول جس کے ایک پتے کی اصل قیمت 10 روپے سے 20 روپے ہے۔ وہ ملک بھر میں 50 روپے سے 100 روپے تک میں فروخت کیا جاتا رہا۔ اسی طرح کئی دیگر ادویات شارٹ کی گئیں اور ان کو مہنگا کرکے فروخت کیا جاتا رہا۔ تاہم اس وقت فارما کمپنیاں منافع براہ راست وصول کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ڈیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کی بلیک مارکیٹنگ میں منافع کا زیادہ حصہ نیچے ہی تقسیم ہو جاتا ہے۔