ہم نےصدیوں پرانی روسی تہذیب کو سانس لیتےدیکھا۔سفرنامہ روس کاآٹھواں حصہ

سجاد عباسی

ہوٹل سے کوئی نصف گھنٹے کی واک کے بعد ہم میٹرو ٹرین کے اسٹیشن پہنچ گئے جہاں سے ہمیں ریڈاسکوائر کے لیے روانہ ہونا تھا ۔جو روس کی شناخت بھی ہے اور طاقت کی علامت بھی، مگر اس پر وہاں پہنچ کر بات کریں گے، فی الوقت تو ہم میٹرو اسٹیشن کے سحر میں کھوئے ہوئے ہیں۔ ہم نے بتایا تھا کہ روسی اپنی تاریخ اور ثقافت سے جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں اور اس محبت کا اظہار ہمیں جابجا دکھائی دیتا ہے ۔ٹکٹ کے مرحلے سے گزرنے کے بعد ہم زیرزمین اسٹیشن پر ٹرین پکڑنے کے لیے ایسکلیٹر(escalator) پر سوار ہوئے تو معلوم ہوا کہ اس کی گہرائی ہماری سوچ سے کہیں زیادہ ہے اور روسیوں کے مزاج کے عین مطابق یہ بہت تیز رفتار بھی ہے ۔استفسار پر بتایا گیا کہ عام اسٹیشنز کی گہرائی بھی پچاس ساٹھ میٹر تو ہوتی ہی ہے مگر چوراسی میٹر گہرائی کے ساتھ پارک پو بیڈی ماسکو کا سب سے گہرا اسٹیشن ہے جس کی گہرائی پوری دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے ۔

میٹرولائن پر نصب ایک روسی فوجی ہیرو کا آہنی مجسمہ

 

روسیوں کی سحر خیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میٹرو ٹرین کے اوقات صبح ساڑھے پانچ بجے سے رات ایک بجے تک ہیں جس کے بعد ساڑھے چار گھنٹے کے لیے میٹرو سسٹم بند کر دیا جاتا ہے ۔روس کا زیر زمین میٹرو سسٹم پوری دنیا میں مشہور ہے اور یہ دنیا کا چوتھا بڑا سسٹم بتایا جاتا ہے ۔ٹرینیں آندھی کی رفتار سے آتی اور طوفان کی صورت گزر جاتی ہیں ۔ٹرین کا عمومی اسٹاپ ٹائم ایک منٹ کا ہوتا ہے جس کا مطلب 60سیکنڈ ہی ہے۔ روسیوں کی رفتار کا یہ عالم ہے کہ اترنے والے ایک منٹ میں بڑی سہولت کے ساتھ اترتے اور سوار ہونے والے بھی ہنستے کھیلتے سوار ہو جاتے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ سب سو میٹر کی ریس میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس ریس کا حصہ بننے میں ہمیں تھوڑی دشواری تو پیش آئی مگر یہ ایک دلچسپ تجربہ تھا ۔پورے روس میں میٹرو ٹرین۔ ٹرالیز ۔ ٹرام۔ بسوں اور ٹیکسیوں کا جال بچھا ہوا ہے کیونکہ لوگوں کی غالب اکثریت پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتی ہے اوران میں زیادہ تر ٹرین کو ترجیح دیتے ہیں ۔ حال ہی میں ماسکو میٹرو کے 200 ویں میں اسٹیشن کا افتتاح عمل میں آیا ہے ۔ ہراسٹیشن نہ صرف خوبصورت، منفرد اور جدید طرز تعمیر کا حامل ہے بلکہ روسی تاریخ کے کسی نہ کسی الگ دور کی نمائندگی بھی کرتا ہے ۔یہ تاریخ دیدہ زیب نقش و نگار۔ پینٹنگز اور مجسموں کی صورت میں بیان کی گئی ہے. روسیوں نے کسی زندہ قوم کی طرح اپنے ماضی کی نشانیوں کو محفوظ رکھتے ہوئے حال کی خوبصورتی کو بھی اس میں سمو دیا ہے۔روس کے میٹرو سسٹم کی تاریخ کوئی 88 برس پرانی ہے جب 1935ء میں13 اسٹیشنز کے ساتھ اس کا افتتاح کیا گیا تھا ۔شاید ہی دنیا کی کوئی میٹرو (زیرزمین ریلوے) اس قدر پر شکوہ۔ خوبصورت اور شاندار  ہو سکتی ہے، جتنی روس کی ہے۔ یہ ایک طرح سے ماسکو کے زیر زمین محلات ہیں جن کے بغیر شہر کی سیاحت مکمل ہو سکتی ہے ، نہ ان کے تذکرے کے بغیر شہر کا احوال بیان ہوسکتا ہے۔

لیجئے پندرہ منٹ کے اندر ہم ریڈاسکوائر پہنچ گئے۔ یہ ماسکو کی شناخت بھی ہے اور باہر سے آنے والے سیاحوں کا پہلا پڑا ؤ بھی ۔یہاں بلامبالغہ یومیہ ہزاروں افراد سیر کے لیے آتے ہیں ۔یہاں رنگوں کا ایک جہاں آباد ہے ۔کریملن۔ سینٹ باسل کیتھیڈرل چرچ ۔لینن میوزیم ۔ڈائمنڈ میوزیم اور جانے کیا کیا کچھ ہے جو سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے ۔یہاں قدم قدم پر تاریخ بکھری پڑی ہے ۔ساڑھے چر سو برس پراناسینٹ باسل چرچ سنہری کلسوں والی رنگ برنگی پیازی شکل کی عمارت میں قائم ہے ۔سیاحوں کی اکثریت واپسی سے پہلے اس عمارت کا نمونہ یا سووینئر یادگار کے طور پر لے کر جاتی ہے کیونکہ اسے ماسکو کی شناخت تصور کیا جاتا ہے ۔ دراصل روسی زمانہ قدیم سے پیاز نما گنبد بناتے چلے آرہے ہیں۔ سینٹ باسل کیتھڈرل اس خاص روسی طرز تعمیر کا اعلٰیٰ نمونہ ہے جس کے دس گنبد اور ان کے تیز رنگ آنکھوں کو بھلے لگتے ہیں۔

کریملن عجائب گھر کا ڈائمنڈ میوزیم روسی شاہی خاندان کی خواتین اور ملکاؤں کے زیر استعمال رہنے والے ہیرے جواہرات کی چمک دمک سے آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے ۔ یہاں بارہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک کے نادر زیورات۔ شاہی تاج اور دیگر نایاب اشیاء موجود ہیں۔ ان پر بنے نقش ونگار دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔یہاں ہم 4000 قیراط کے ہیرے دیکھ کر حیران رہ گئے ۔میوزیم میں موبائل اور کیمرہ لے جانے پر پابندی ہے، تاہم فیس د ے کر آڈیو گائیڈ حاصل کی جا سکتی ہے جس کے ہینڈ سیٹ پر نمبر وار آڈیو تفصیل موجود ہے ۔مثلاً آپ کو باکس نمبر8 میں موجود اشیا کی تاریخ جاننی ہے تو آپ 8نمبر بٹن دبائیں گے ۔ جوشیشے کے باکس میں موجود ہر ہیرے کی تاریخ ۔ اس کے مالک کا نام اور دیگر تفصیل بیان کر دے گا۔اشیا ء کا مختصر تعارف ان کے ٹیگز پر بھی موجود ہے تاہم صرف روسی زبان میں ۔ اس طرح روسی قوم کے عروج و زوال کی داستان سناتی تاریخ ہر قدم پر بکھری پڑی ہے ۔کئی نامور جرنیلوں اور سورما ؤ ں کے میڈلز بھی یہاں محفوظ ہیں جنہوں نے دشمن کی جارحیت کے خلاف وطن کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا ۔

ریڈ اسکوائر کا ایک منظر

 

کریملن میں ڈائمنڈ میوزیم سے منسلک آرمری میوزیم ہے جسے آرمری چیمبر بھی کہا جاتا ہے۔ اس میوزیم میں صدیوں پرانے نایاب ہتھیار۔ زرہ بکتر اور زار شاہی خاندان کے زیر استعمال رہنے والے ملبوسات شامل ہیں۔ یہاں محفوظ، ملکاؤں کی بگھیاں، ان پر لٹکے ریشم و اطلس کے پردے اور ان پربنے زری نقش و نگار اس دور کے ماہرین کے کمال فن کی عکاسی کرتے ہیں ۔ ان میں دنیا کے مختلف حکمرانوں کی جانب سے شاہی خاندانوں کو ملنے والے قیمتی تحائف بھی رکھے گئے ہیں۔ہمیں بتایا گیا کہ ریڈ اسکوائر کے کونے پر ہی ایک پھانسی گھاٹ ہے جہاں ماضی میں مخالفین کو زندگی کی قید سے آزاد کر دیا جاتا تھا ۔زار ہوں یا کمیونسٹ ہر دو ،اس فن میں یکتا تھے جو پھندے کا بے دریغ استعمال کرتے رہے۔نہ جانے ریڈ اسکوائر کا یہ حصہ کتنی ہی کربناک چیخوں کو اپنے دل میں سموئے ہوئے ہے جو آواز بننے کی حسرت میں دم توڑ گئیں ۔دنیا بھر سے روس پہنچنے والے سیاحوں کی پہلی منزل عموما ًریڈاسکوائر ہی بنتا ہے جو  متنو ع رنگینی میں اپنی مثال آپ ہے۔

سیاحوں کا پرجوش ہجوم سرخ پتھروں سے بنے وسیع و عریض چوک کو ڈھک دیتا ہے جس کے مرکزی مقام پر جرمن فوجوں کی یلغار سے ماسکو کو بچانے والے روسی جرنیل فیلڈمارشل (Zhivkov)ژوکووکا مجسمہ نصب ہے.ریڈاسکوائر کے ایک جانب صدارتی محل کریملن ہے جسے روس کی طاقت کا سرچشمہ تصور کیا جاتا ہے ۔کریملن کی کنگروں والی سرخ دیوار ریڈاسکوائر کے کافی اندر تک سیاحوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہے ۔اس دیوار سے وہ انکلوژر بھی منسلک ہے جہاں پولٹ بیورو کے طاقتور ارکان قومی دن پر سالانہ پریڈ کا معائنہ کرتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ دیکھنے والے ان کے کھڑے ہونے کی ترتیب سے حفظ مراتب یا ان کے طاقتور ہونے کا اندازہ لگاتے ہیں۔

مئی 1945 میں جرمن نازی فوج نے روسی افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔اسی مناسبت سے روسی ہر سال نو مئی کو وکٹری ڈے مناتے ہیں۔یہ ریڈ اسکوائر میں منعقد ہونے والی ملک کی سب سے بڑی تقریب ہے جس سے صدر پیوٹن خطاب کرتے ہیں۔ کریملن کی دیوار کے نیچے کمیونسٹ حکومت کے بانی لینن کا مقبرہ ہے ،جہاں تہہ خانے میں اس کا جسد خاکی حنوط کرکے رکھا گیا ہے۔کبھی یہاں سیاحوں اور عقیدت مندوں کا ہجوم تھمنے میں نہیں آتا تھا مگر اب
بر مزار ما غریباں نے چراغے نے گلے
والا معاملہ ہے ،
والا معاملہ ہے ۔اکا دکا لوگ البتہ یہاں آتے اور تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھتے رہتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ جوزف سٹالن کی میت بھی کئی برس لینن والے تہہ خانے میں ہی رکھی رہی مگر خروشیف نے آکر اسے ہٹا دیا ۔اب اسٹالن کا مجسمہ روسی حکمرانوں کے ساتھ کریملن کی دیوار کے ساتھ رکھا ہے
(جاری ہے)