احمد خلیل جازم :
آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کو قرض کے نویں اقتصادی جائزے کے تحت 170ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے جس پر حکومت نے عملی اقدام شروع کردیے ہیں۔
قبل ازیں آئی ایم ایف نے قرض کی اگلی کے حوالے سے پاکستانی وزارت خزانہ سے طویل میٹنگز کی اور بظاہر کچھ شرائط پراتفاق نہ ہونے کی وجہ سے معاہدہ پر دستخط نہ ہوسکے۔ لیکن تازہ اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف نے اپنی پریس ریلیز میں معاہدے کی توثیق کردی ہے۔ جن شرائط پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا، ان میں افسرشاہی کی مراعات میں کمی لانا اور فوج کی ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن کوسول بجٹ میں نکال کر ڈیفنس بجٹ میں ڈالا جانا اور بجلی کے گردشی قرضوں میں دفاعی بجٹ سے بھی حصہ نکالنے کی شرط تھی۔
اگرچہ یہ غیر مصدقہ شرائط تھی لیکن بہرحال معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیڈ لاک اسی پر تھا، جو اب ختم ہوچکا ہے اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کفایت شعاری کمیٹی نے فوج کے غیر جنگی بجٹ میں پندرہ فیصد کٹوتی کا عندیہ دیا ہے، جسے وزارت دفاع سمیت حکومتی حلقوں نے بھی قبول کیا ہے۔ اس ڈیل میں اس کے علاوہ بھی کئی سیکٹر ایسے ہیں، جہاں ٹیکس عائد کرنا ہے جو حکومت کے لیے مشکل ہے۔ اس لیے حکومت کے پاس آخری آپشن ایم ایف کی شرائط کا بوجھ ملک کے عام طبقے پر ڈالا جانا ہے۔
آئی ایم ایف کے اس معاہدے کے حوالے سے معروف ماہر معاشیات حسنین کاظمی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’اس معاہدے پر آئی ایم ایف کی پریس ریلز آچکی ہے۔ اس میں بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ کچھ اختیارات تو سول حکومتوں کے پاس ہوتے ہیں، لیکن کچھ اختیارات ان کے پاس نہیں ہوتے۔ آئی ایم ایف کی کچھ شرائط اسی ہیں جو حکومت کے بس سے باہر ہیں۔
مثلاً اپنے افسران کے اثاثے ڈکلیئر کریں، اس میں ججز اور فوجی افسران کے اثاثوں کی تفصیلات ہیں جو کہ ظاہر ہے سول حکومت کے لیے مشکل ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ معاہدہ ہوجائے گا۔ باقی رہی ٹیکس کی بات تو آپ 170 ارب کے بجائے سترہ سو ارب ٹیکس لگا دیں، اس کے باوجود پاکستان کا اکنامکس ایشو حل نہی ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے آپ جتنے ٹیکس لگاتے ہیں وہ پاکستانی کرنسی میں لگاتے ہیں۔ آپ کا ایشو ڈالر ہے جو کہ حکومت کے پاس نہیں ہے، ٹیکس جتنے لگائیں گے، اس کا اثر عوام پر پڑے گا کہ آپ کی کرنسی مزید گرتی چلی جائے گی۔ ڈالر میں ٹیکس تو لگایا نہیں جاسکتا، ڈالر دو طریقوں سے آئیں گے، یا آپ اپنی ایکسپورٹ بڑھا دیں یا اورسیز پاکستانی آپ کو ڈالر بھیجیں۔
ڈالر اوپن مارکیٹ میں کہاں پہنچا ہوا تھا، لیکن انٹر بینک میں 125روپے پر لاک کردیا تھا۔ لامحالہ اس کانقصان یہ ہوا کہ تین بلین ڈالر کے لگ بھگ جو ماہانہ انفلو ہوتا ہے اورسیز پاکستانیوں سے وہ رک گیا اور یہ لوگ ہنڈی حوالہ کی جانب چلے گئے، یہ بہت بڑا نقصان ہورہا تھا۔ وہ سارا بلیک مارکیٹ میں جارہا تھا جو اسمگل ہوکر افغانستان چلا جاتا تھا۔ پاکستان کا جو سب بڑا پرابلم رہا ہے، وہ یہ ہے کہ پچھلے تیس برسوں سے کوئی فنانس منسٹر اکانومسٹ نہیں تھا۔
زیادہ تر بینکر یا اکائونٹنٹ تھے۔ اکانومی ایک بالکل الگ چیز ہے،یہ دو اکانومی کا چھوٹا سا پارٹ ہیں ڈاکٹر محبوب الحق کے بعد کوئی ڈھنگ کا اکانومسٹ نہیں آیا۔ لوگوں کو مشرف دور میں اکانومی بہتر لگتی تھی۔ لیکن شوکت عزیز نے سب سے پہلے اکانومی کا بیڑہ غرق کیا۔ وار اینڈ ٹیرر جنگ میں آپ کے قرضے بیس تیس برس تک ری شیڈول ہوئے۔ اگرچہ معاف کرانے چاہیے تھے۔ ان ری شیڈول قرضوں سے ہم نے انڈسٹری نہیں لگائی۔
ہمیں اسپیس ملی لیکن ہم نے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس اسپیس کو ہم نے کنزومر فنانسنگ کی نذر کردیا۔ موبائل، ٹی وی، کار، وغیرہ بینکوں سے قسطوں میں لینا شروع کردیا۔ اگر اس وقت انڈسٹری لگا دی جاتی تو آج ہمارے یہ حالات نہ ہوتے۔ خیر آئی ایم ایف کی طرف آئیں تو1991ء میں بھارت کی یہی حالت تھی جو اس وقت ہماری ہے۔ من موہن سنگھ فارمولا ایسا شاندار تھا کہ اسے ایک جملے میں بیان کیا جاسکتا ہے جو معیشت کو سنبھالنے کے لیے آب زر سے لکھا جانا چاہیے’’میڈ ان انڈیا پالیسی‘‘ یعنی آپ انڈیا میں بیچنا چاہتے ہیں تو اسے انڈیا میں بنائیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب انڈسٹری لگتی ہے تو ایک تو اس سے روزگار ملتاہے۔ دوسرے بجائے امپورٹ کرنے کے آپ کچھ عرصہ بعد ایکسپورٹ کی طرف چلے جاتے ہیں۔ آج اسی لیے تو چھ سو بلین کے ان کے ریزرو ہیں۔
آئی ایم ایف کی دلچسپی صرف اس پر ہوتی ہے کہ یہ ملک مستقل ہمارے ٹریپ میں رہیں، اس لیے جن شرائط پر تحفظات ہیں وہ یقیناً ختم ہوجائیں گے۔ سبسٹڈی ختم ہوگی، مڈل کلاس مزید پریشر میں آجائے گی اور کچھ نہیں ہوگا۔‘‘
سینئر صحافی اور معیشت پر گہری نگاہ رکھنے والے رانا ابرار خالد کا کہنا تھا کہ ’’آئی ایم ایف سے معاہدہ تو آل موسٹ ہوچکا تھا، سب سے پہلے تو ڈالر سے حکومت کا کنڑول ہٹوایا گیا۔ 225 سے اچانک 275 پر ہوگیا۔ جب بھی پاکستان نے آئی ایم ایف کا پروگرام لیا تو روپے کی قدر میں بیس سے تیس فیصد کمی ہوئی۔ لیکن اس مرتبہ یہ کمی پچاس فیصد ہوئی ہے۔ پہلا منی بجٹ تو یہی ہے کہ عوام کو بجلی، پٹرول اور گیس وغیرہ مہنگی ملے گی۔ دوسری طرف ایک ڈیڈ لاک تو یہ ہے کہ فوج کی پینشن سول بجٹ سے نکال کر ڈیفنس بجٹ میں ڈالی جائے اور بجلی کا سرکلر ڈیڈ میں حصہ دفاعی بجٹ سے بھی لیا جائے۔
ایسے عالمی مالیاتی ادارے حکومتوں کو چھوٹ دے دیتے کہ اس شرط پر کہ ہم عوام سے ٹیکس لے کر پیسہ بنا لیں گے۔ چنانچہ یہ ادارے خاموش ہوجاتے ہیں، ابھی تھوڑی سی سختی دکھائی گئی ہے لیکن غیر مصدقہ خبر ہے کہ 2650 ارپ روپے بجلی کے گردشی قرضے میں سے600 ارب روپیہ وزارت دفاع پر ڈالا جائے۔ وہاں سے پورا چھ سو تو نہیں شاید آدھا نکالا جائے، باقی ڈیویلمپنٹ لیوی جو کہ ڈیزل پر ابھی کم ہے وہ بھی بڑھا دی جائے گی۔ جو پچاس روپے تک ہے۔
دوسری طرف سپر ٹیکس کا مسئلہ کورٹ میں پھنسا ہوا ہے اسے بھی حکومت حل کرنے کی کوشش کرے گی، اگر ہو حل ہوگیا تو عوام پر بوجھ تھوڑا کم ہوجائے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پچھلی قسط جو کہ ستمبر اکتوبر میں ملی تھی، تو حکومت نے یہ کہا تھا کہ دوست ملکوں سے اور دیگر اداروں سے قرضہ مل جائے گا، معیشت چل پڑے گی۔ لیکن اس وقت یہ نہیں ہوا، اب دوبارہ حکومت نے یہی سوچ کر توقعات بہت زیادہ باندھ رکھی ہیں۔ یہ تو چھوٹی سی قسط ہے۔ چار پانچ ارب ڈالر اگر مہینے دو مہینے میں نہیں آتے تو دوبارہ مئی جون میں ہم ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہوں گے۔
اس کا مستقل حل آئی ایم ایف دے رہا ہے اور نہ ہی حکومت کے اکنامکس منیجر نے ڈھونڈا ہے۔ یہی صورت حال رہی تو ان بڑے فیصلوںکا کیا فائدہ جو عوام کی جیب پر مسلط کیے گئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جنہوں نے معیشت کو لوٹا ہے ان سے یہ وصول کیا جائے۔ عوام پر بوجھ ڈالنا آسان فیصلہ ہے مشکل نہیں ہے عوام نے کیا کرنا ہے، رودھوکر ادا کردے گی۔‘‘