محکمہ صحت کے شعبہ جات غیر فعال ہونے سے عالمی معیار کے بڑے اسپتال بھی لوٹ مار میں مصروف ہیں ، فائل فوٹو
محکمہ صحت کے شعبہ جات غیر فعال ہونے سے عالمی معیار کے بڑے اسپتال بھی لوٹ مار میں مصروف ہیں ، فائل فوٹو

جعلی ادویات مافیا کے 10 گروپ قانون کے شکنجے سے آزاد

عمران خان :
ایف آئی اے کی جانب سے ڈریپ حکام کے ساتھ حالیہ دنوں میں جعلی ادویات مافیا کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں اور تحقیقات کے بعد پورے نیٹ ورک سے منسلک صرف بڑے ایک گروپ کو گرفت میں لایا جا سکا  جبکہ دیگر 10 گروپ ان کارروائیوں سے بچنے میں تاحال کامیاب ہیں اور اپنی انسان دشمن سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کراچی میں میڈیکل اسٹورز پر بڑی مقدار میں کھلے عام جعلی ادویات پینا ڈول ( penadol)، پینا ڈول سی ایف، سائٹوٹیک (cytotec)، لیپی ٹور (lipitor)، پیلوکس (plavix)، کلومڈ (clomid)، ڈوفاسٹون (duphaston)، ویاگرا (viagra)، پیناگرا ( penagra)، وورن (voren) گولیاں، انجکشن اور کیپسول سپلائی کرکے فروخت کئے جا رہے ہیں۔

تحقیقات میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ جناح اسپتال کے سامنے قائم میڈیکل اسٹوروں سے جنسی ادویات جن میں ویاگرا اور پیناگرا شامل ہیں، عارضہ قلب میں مبتلا بچوں کو بھی دی جا رہی ہیں۔ تاہم ان کے جعلی ہونے کی وجہ سے الٹا بچوں کی جان کو خطرات لاحق ہیں۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے انسپکٹرز اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز کی ملی بھگت سے میڈیکل اسٹورز مالکان کو 50 ہزار سے ڈھائی لاکھ روپے کے عوض جعلی لائسنس جاری کئے جا رہے ہیں۔ اس کے لئے مختلف تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل بی فارمیسی کرنے والے شہریوں کی ڈگریاں ماہانہ 10 ہزار روپے کے عوض خریدی جاتی ہیں۔

ڈگریاں بیچنے والے نوجوانوں کو 2 سال کی یکمشت ادائیگی ایڈوانس میں ڈرگ انسپکٹرز کے ذریعے کردی جاتی ہے۔ جس کے بعد وہ ان میڈیکل اسٹورز پر آتے ہی نہیں۔ جعلی دوائیاں سپلائی کرنے والوں نے کراچی کی میڈیسن مارکیٹ، کچھی گلی، نظامیہ گلی، نیو کراچی نالا اسٹاپ اور گودھرا کیمپ میں مراکز بنائے ہوئے ہیں۔ صرف مرکزی میڈیسن مارکیٹ میں اس نیٹ ورک کے 10سے زائد بڑے گودام ہیں، جنہیں اب تک سیل کرکے مال ضبط نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ ایک ماہ قبل ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل نے ڈریپ کے ساتھ مشترکہ کارروائی میں معروف فارماسوٹیکل کمپنیوں کی جعلی ادویات، اسمگل شدہ اور غیر معیاری ادویات فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں جناح اسپتال کے سامنے واقع 4 میڈیکل اسٹوروں پر چھاپے مار کر متعدد افراد کو گرفتار کیا تھا۔

گرفتار ملزمان میں ملک نوید اللہ دتہ و عبدالرشید اور عاصم رشید شامل تھے۔ مذکورہ میڈیکل اسٹوروں سے بھاری تعداد میں اسمگل شدہ غیر رجسٹرڈ ادویات مزید تعداد میں بر آمد کرکے 4 مقدمات درج کئے تھے ۔

مقدمات کی تفتیش میں معلوم ہوا کہ ان اسٹوروں پر غیر ملکی جعلی اور غیر معیاری ادویات کے ساتھ ہی اسپتالوں کو فارما کمپنیوں سے سپلائی ہونے والی سرکاری ادویات کو ری پیکنگ کرکے بھی سپلائی کیا جاتا ہے۔ اس دھندے میں سرکاری اسپتالوں کے افسران بھی شامل ہیں۔ یہ جعلی اور سرکاری ادویات کچھی گلی کے گوداموں سے بلال غفار، بابر اور اسماعیل نامی ادویات ڈیلر سپلائی کرتے ہیں اور سالانہ کروڑوں روپے کا ناجائز منافع اس انسانیت دشمن دھندے سے کماتے ہیں۔ جبکہ میڈیکل اسٹور مالکان بھی سستی ادویات خرید کر ناجائز منافع بٹور کر غریب شہریوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔

تحقیقات میں معلوم ہوا کہ زیادہ تر کینسر اور بچوں کے دل کے امراض میں استعمال ہونے والی ادویات کچھی گلی میں قائم امان اللہ ٹریڈرز نامی کمپنی کے گودام سے آتی ہیں، جس پر ایف آئی اے اینٹی کرپشن کی ٹیم نے گزشتہ روز چھاپہ مارکر اس گودام سے 50 لاکھ روپے تک کی کینسر کی جعلی اور مشکوک ادویات بر آمد کرلیں۔ گودام کو سیل کردیا گیا، جبکہ اس کے مالک بلال غفار کو گرفتار کرلیا گیا۔ تحقیقات میں دو مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ تاہم دیگر بڑے سپلائر اسماعیل اور بابر سمیت 10 سے زائد بڑے گروپوں کے سرغنہ تاحال ایف آئی اے کی گرفت سے باہر ہیں۔ جنہوں نے صرف ایک ہفتے میں کروڑوں روپے کی جعلی ادویات ایڈوانس ادائیگی لئے بغیر سپلائی کردیں تاکہ مال کو ضبط ہونے سے بچایا جاسکے۔

ذرائع کے بقول اس معاملے میں پولیس کے صدر میں قائم ایک تفتیشی شعبے کے افسران نے اہم کردار ادا کیا۔ اور وفاقی ادارے میں موجود پیٹی بند بھائی کی معلومات پر جعلی ادویات کے دھندے میں ملوث ان تمام مئیڈیکل اسٹوروں کے مالکان اور سپلائرز کو فون کرکے بلانے کے بعد انتہائی پرکشش اور بھاری معاملات طے کرنے کے بعد انہیں گوداموں میں موجود ادویات کا اسٹاک منتقل کرنے کا موقع فراہم کردیا گیا۔

ذرائع کے مطابق اس وقت پورے شہر میں جعلی، غیر معیاری، غیر رجسٹرڈ اور اسمگل شدہ دوائیاں سپلائی کرنے والے بلال غفار، بابر اور اسماعیل سمیت 11 بڑے سپلائرز عرصہ دراز سے سرگرم ہیں جو کراچی کے علاوہ اندرون سندھ کے علاقوں نواب شاہ، سکھر، حیدرآباد، لاڑکانہ سمیت دیگر کئی شہروں اور ان کے نواحی علاقوں میں جعلی اور غیر معیاری ادویات سپلائی کر رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں جعلی ادویات تیار کرنے کے 5 کار خانے کام کر رہے ہیں۔ جن میں سے 3 لیاری کے مختلف علاقوں میں قائم ہیں۔ جبکہ دو کارخانے نیو کراچی کے علاقوں میں قائم ہیں۔ جبکہ جعلی، غیر معیاری اور غیر رجسٹرڈ دوائیوں کی 80 فیصد مقدار لاہور کے نواحی علاقوں کے علاوہ کوئٹہ، پشاور اور روالپنڈی کے اطراف کے علاقوں سے تیار ہو کر کراچی سپلائی کی جا رہی ہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ بیرون شہر تیار ہونے والی ادویات انٹر سٹی مسافر بسوں کے ذریعے کراچی منتقل کی جا رہی ہیں۔ ان بسوں میں کئی معروف ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی بسیں بھی شامل ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک لاہور ،کوئٹہ اور پشاور سے کراچی آنے والی انٹر سٹی بسوں میں صدر اسٹاپ، سہراب گوٹھ بس اڈے، قائد آباد بس اڈے کے علاوہ کینٹ اسٹیشن پر قائم بس اڈے پر بھی ان دوائیوں کی بھاری مقدار مختلف کھیپوں میں سپلائی کی جا رہی تھی۔ تاہم اب سپلائی کا دائرہ شہر میں قائم تین بڑے بس ٹرمنلز کے ساتھ ہی صدر کے قریب انٹر سٹی بس اڈوں تک پھیل چکا ہے، جہاں کراچی منتقل ہونے والی ادویات کی کھیپوں کو اتارا جا رہا ہے۔ جبکہ سہراب گوٹھ پر پر آنے والی معروف ٹرانسپورٹ کمپنی کی بسوں میں بھی غیر معیاری اور غیر رجسٹرڈ ادویات کی کھیپ اتاری جا رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق میڈیسن مارکیٹ میں سرگرم غیر معیاری اور غیر رجسٹرڈ ادویات کے 6 سپلائرز کھلے عام شہر کے میڈیکل اسٹوروں کے علاوہ اندرون سندھ مال سپلائی کرنے میں مصروف ہیں۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان سپلائرز سے ڈرگ ڈپارٹمنٹ، ایف آئی اے اور تھانہ پولیس کے بعض اہلکاروں کے علاوہ پولیس کی چند اہم تفتیشی ایجنسیوں سی آئی ڈی اور ایس آئی یو کے اہلکار بھی باقاعدگی سے ہفتہ وصولی کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہ سپلائرز بے خوف و خطر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ 11 بڑے سپلائرز میں سے دیگر 5 نیو کراچی کے دو علاقوں اور لیاری میں اپنے گودام اور میڈیکل اسٹورز قائم کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان سے ڈریپ اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے اہلکاروں کے علاوہ پولیس اور فارما ہول سیلر ایسوسی ایشن کے بعض سابق اور موجودہ عہدیدار فنڈز اور جرمانوں کے نام پر رقوم وصول کر رہے ہیں۔