اسلام آباد: چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے سامنے صورتحال کھول کر رکھ دی۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ مجھے اپنے اختیارات اور آئینی تقاضے پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہے، آرمی سے سیکیورٹی مانگی تو انکار کر دیا گیا، عدلیہ سے آر اوز مانگے تو انہوں نے انکار کر دیا اور انتخابات کے لیے پیسہ مانگا اس سے بھی انکار کر دیا گیا،میرے اختیارات کو کم کیا جا رہا ہے، ایسے حالات میں کس طرح فری فیئر الیکشن کروائے جائیں۔ اگر عدالت ٹرانسفرز کو فری الیکشن میں رکاوٹ سمجھتی ہے تو نہیں کریں گے۔ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر ٹرانسفرکیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے فوری طلب کیے جانے پر چیف الیکشن کمشنر عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سی سی پی او لاہور غلام محمد ڈوگر تبادلہ کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا پھر بھی سی سی پی او کو تبدیل کیوں کیا گیا ؟ علام محمد ڈوگر کو ٹرانسفر کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟۔
جس پر پنجاب حکومت کے وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ الیکشن کمیشن کی اجازت سے غلام محمود ڈوگر کو دوسری مرتبہ تبدیل کیا گیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے الیکشن کمیشن کے کردار کا سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ افسران کی تبدیلی میں الیکشن کمیشن کا کیا کردارہے؟۔ جسٹس مظاہرعلی اکبرنے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کردار انتخابات کے اعلان ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے مؤقف دیا کہ پنجاب میں نگراں سیٹ اپ آنے کے باعث الیکشن کمیشن سے اجازت لی گئی ، آئین کے مطابق 90 روز میں انتخابات ہونا ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریماکس دیے تو پھر بتائیں الیکشن ہیں کہاں ہے؟۔ جسٹس مظاہر علی نے ریمارکس دیے کہ آدھے پنجاب کو ٹرانسفر کردیا گیا، کیا پنجاب میں ایسا کوئی ضلع ہے جہاں ٹرانسفر نہ ہوئی ہو۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے حکم کا علم نہیں تھا؟ الیکشن کمیشن اپنے کام کےعلاوہ باقی سارے کام کررہا ہے۔
عدالت نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد غلام محمد ڈوگر تبادلہ کیس کی وقفے کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی تو ججز نے استفسار کیا کہ کیا چیف الیکشن کمشنر پہنچ گئے ہیں؟ جس پر عدالتی عملے نے بتایا کہ ابھی تک سرکاری وکلاء واپس آئے نہ چیف الیکشن کمشنر۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ معمول کے مقدمات ختم ہوچکے، چیف الیکشن کمشنر پہنچیں تو آگاہ کیا جائے، جس کے بعد چیف الیکشن کمشنر کے پہنچنے تک سماعت ملتوی کی گئی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے سپریم کورٹ پہنچنے کے بعد سماعت دوبار شروع ہوئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین ہر صورت 90 دن میں انتخابات کروانے کا پابند کرتا ہے اور انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، مقررہ وقت میں انتخابات نہ ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید ریمارکس دیے کہ 90 دن میں انتخابات کے حوالے سے آئین میں کوئی ابہام نہیں اور شفاف انتخابات کروانا صرف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، نگراں حکومت تقرر و تبادلے نہیں کر سکتی اور نگراں حکومت کو تبادلہ مقصود ہو تو ٹھوس وجوہات کے ساتھ درخواست دے گی، الیکشن کمیشن وجوہات کا جائزہ لیکر مناسب حکم جاری کرنے کا پابند ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عدالت حکم دے تو تبادلے روک دیں گے، الیکشن کی تاریخ خود دیں تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی، مجھے موقع ملا ہے تو کچھ باتیں عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ سلندر سلطان راجہ نے عدالت کو بتایا کہ مجھے اپنے اختیارات اور آئینی تقاضے پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہے، آرمی سے سیکیورٹی مانگی تو انکار کر دیا گیا، عدلیہ سے آر اوز مانگے تو انہوں نے انکار کر دیا اور انتخابات کے لیے پیسہ مانگا اس سے بھی انکار کر دیا گیا، میرے اختیارات کو کم کیا جا رہا ہے، ایسے حالات میں کس طرح فری فیئر الیکشن کروائے جائیں۔ اگر عدالت ٹرانسفرز کو فری الیکشن میں رکاوٹ سمجھتی ہے تو نہیں کریں گے۔