عمران خان کےوکلا نے شام 5بجے پیش ہونے کی یقین دہانی کرادی۔فائل فوٹو
عمران خان کےوکلا نے شام 5بجے پیش ہونے کی یقین دہانی کرادی۔فائل فوٹو

عمران خان نے اپنے ڈاکٹرز اور وکلا کو پھنسا دیا

نواز طاہر :
عمران خان کی ہٹ دھرمی نے اپنے وکلا اور ڈاکٹر کو بھی مشکل میں پھنسادیا ہے۔ وکلا ان کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر زخمی ہونے کا بودا جواز دیتے رہے۔

پی ٹی آئی چیئرمین کے ذاتی معالج نے بھی دو ٹوک جواب دینے کے بجائے گول مول موقف اپنانے پر اکتفا کیا۔ تحریک انصاف کے رہنما سیکیورٹی مسائل کا راگ الاپتے رہے۔ پیش نہ ہونے پر عدالت عالیہ کے ڈویژن بنچ نے عدم پیروی کی بنا پر چیئرمین پی ٹی آئی کی حفاظتی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔

واضح رہے کہ حفاظتی ضمانت کی درخواست عدالتِ عالیہ میں ساڑھے پانچ بجے شام دائر کی گئی تھی۔ جس میں اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے عمران خان کو پیش کرنے کیلئے وقت مانگا تھا۔ لیکن مقررہ وقت پر نہ تو عمران خان خود پیش ہوئے اور نہ ہی ان کے وکیل عدالت میں پہنچے۔ جس پر ڈویژن بنچ نے عدم پیروی پر یہ درخواست مسترد کر دی۔

واضح رہے کہ بدھ کو اسلام آباد میں ضمانت خارج ہونے پر عمران خان کی درخواست ضمانت لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی تھی۔ جس میں مسٹر جسٹس طارق سلیم شیخ نے عمران خان کو خود پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن وہ دن بھر عدالت میں پیش نہ ہوئے اور عدالت کو دو روز کے دوران سات بار سے زائد کارروائی ملتوی کرنا پڑی۔ جبکہ اسی دوران پی ٹی آئی کے تمام وکلا اور رہنما یہ واضح کرتے رہے کہ عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہوں گے۔ لیکن اس کے باوجود عدالت نے انہیں شام ساڑھے چھ بجے تک پیش ہونے کا موقع دیا۔ مگر اس وقت بھی عدالت میں موجود نہ ہونے پر عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

اس سے پہلے دوپہر کی کارروائی کے دوران عدالت نے نوٹس لیا کہ عدالت کے سامنے پیش کی جانے والی دستاویزات میں عمران خان کے دستخطوں میں فرق ہے۔ عدالت نے اس کی وضاحت مانگی۔ عمران خان کو خود تصدیق کرنے کیلئے بھی طلب کیا اور ساتھ ہی توہین عدالت کی کارروائی کا بھی عندیہ دیا۔ جس پر پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل اظہر صدیق نے مزید مہلت مانگی تھی۔

اس درخواست کی سماعت کے دوسرے روز بھی دن بھر لاہور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کے وکلا اور رہنما پیش ہوتے رہے اور عمران خان کو عدالت کے تقاضے کے مطابق پیش ہونے کے برعکس انہیں پیش کیے بغیر ضمانت کی درخواست منظور کرنے کی استدعا کرتے رہے۔ کمرہ عدالت کے باہر اور احاطہ عدالت میں وکلا اور رہنمائوں نے باربار موقف تبدیل کیا۔ احاطہ عدالت میں کیمروں کے سامنے وکلا اور رہنمائوں نے عدلیہ کے بارے میں سوال اٹھایا کہ مسلم لیگ ’ن‘ کے رہنمائوں کو ذاتی طور پر طلب کیے بغیر ہی ان کی ضمانت کی درخواستیں منظور کی گئیں۔ لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔

تاہم کمرہ عدالت میں ڈویژن بنچ کے روبرو یہ موقف اختیار نہیں کیا گیا۔ بلکہ عدالت میں موقف اختیار کیا گیا کہ ڈاکٹروں نے عمران خان کو چلنے پھرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اگر وہ چلیں گے تو ان کے زیر علاج زخم متاثر ہوسکتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کی سیکورٹی کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔ دوپہر کو سماعت کے وقت جبکہ عدالت نے عمران خان کو پیش ہونے کا وقت دینے کیلئے کارروائی ملتوی کی تو سماعت شروع ہونے پر بھی عمران خان پیش نہیں ہوئے اور اپنے معالجین کو عدالت میں اپنی طبی حالت کی وضاحت کیلئے بھیج دیا۔ تاہم عدالت نے معالج کا موقف سننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اس معاملے میں فریق نہیں۔

کمرہ عدالت کے باہر جب ’’امت‘‘ نے عمران خان کے معالج ڈاکٹر فیصل سلطان سے یہ دریافت کیا کہ عمران خان کے زخم کس نہج پر ہیں اور میڈیکل یا عام آدمی کی زبان میں زخموں کی اس حالت کو کن الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ نیز وہ کب تک چلنے پھرنے کے قابل ہو سکتے ہیں؟ تو ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ ’’میڈیکل کی زبان میں اسے نو طریقوں سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ ابھی یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ کب تک چلنا پھرنا شروع کرسکتے ہیں‘‘۔

اسی دوران عمران خان کے وکلا اور رہنمائوں نے ڈاکٹر فیصل سلطان کو کسی بھی میڈیا پرسن سے بات کرنے سے منع کر دیا۔ جبکہ اس سے پہلے ڈاکٹر فیصل سلطان اور ان کے ساتھی عمران خان کے علاج سے متعلق ممکنہ طور پر عدالتی جرح کے حوالے سے بھی تحفظات کا شکار تھے۔ یہ بات بھی کی جارہی تھی کہ میڈیکل بورڈ بننے کی صورت میں کیا صورتحال پیش آسکتی ہے؟

اس موقع پر وکلا کی جانب سے کمرہ عدالت کے باہر یہ بھی بتایا گیا کہ ضمانت کی درخواست واپس لے کر نئی درخواست بھی دائر کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے وکلا عدالت کی طرف سے عمران خان کے عدالتی ریکارڈ پر مختلف دستخطوں کا نوٹس لینے سے بھی کنفیوژن کا شکار دکھائی دے رہے تھے۔

اس ضمن میں بتایا گیا ہے کہ ایک درخواست پر عمران خان نے خود تو دستخط کیے ہی نہیں۔ تاہم وہ ان دستخطوں کو تسلیم کریں گے اور یہ وہ نکتہ تھا جس پر وہ عدالت میں جانے کیلئے تیار ہوئے تھے۔ لیکن عدالت کے مقررہ وقت تک وہ زمان پارک میں اپنے گھر میں موجود تھے۔

کمرہ عدالت کے باہر وکلا اور پی ٹی آئی رہنمائوں نے دو ٹوک کہا تھا کہ عمران خان کسی صورت پیش نہیں ہوں گے؟ جب ان سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ عمران خان کیوں پیش نہیں ہونا چاہتے؟ تو ان کا ایک ہی جواب تھا کہ کیا مسلم لیگ ’ن‘ کے رہنمائوں کو ریلیف دیتے وقت عدالت نے انہیں اس طرح طلب کیا تھا۔ جبکہ آف دی ریکارڈ گفتگو میں وکلا کو اندیشہ تھا کہ اگر عمران خان آج اس عدالت میں پیش ہوئے تو پھر دیگر عدالتوں میں بھی پیش ہونا پڑے گا اور اس دوران معلوم نہیں مزید کتنے مقدمات درج ہوسکتے ہیں اور گرفتاری عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

ان تحفظات کی بنیاد پر ہی پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب اور فواد چودھری نے عمران خان کی پیشی کے حوالے سے سیکورٹی کا موقف اپنایا اور معالجین کا موقف سننے سے ود ڈرا کرتے ہوئے عدالت میں سیکورٹی ہی کے موقف پر زور دیا گیا۔

عدالت نے نوٹس لیا کہ عمران خان کے دستخط مختلف ہیں تو عمران خان کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ وہ یہ درخواست واپس لے کر دوسری درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر عدالت نے واضح کیا کہ دستخطوں کی تصدیق ہوگی۔ یہ سنجیدہ معاملہ ہے۔ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آخری بار جب چار بجے کارروائی ملتوی کی گئی تو اس سے پہلے عمران خان کے وکیل اظہر صدیق کے بجائے غلام عباس نے دستاویزات پر عمران خان کے دستخط دوبارہ کرانے کی تجویز پیش کی جو عدالت نے تسلیم نہیں کی۔

جسٹس طارق سلیم شیخ واضح کیا کہ عمران خان میرے سامنے آکر دستخط کی وضاحت کریں۔ یہ معاملہ بہت زیادہ سنجیدہ ہے۔ جس پر عمران خان کے وکیل اظہر صدیق نے تجویز پیش کی کہ بیلف یا ویڈیو لنک کے ذریعے کنفرم کروا لیں۔ لیکن فاضل جج نے واضح کیا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ وہ خود آکر وضاحت کریں۔ ورنہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جائے گا۔ اس پر اظہر صدیق نے کہا کہ وقت دے دیں۔ وہ عمران خان سے ہدایات لینا چاہتے ہیں۔

عدالت کمیشن مقرر کرا دے۔ اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کمیشن کے سامنے حلف ہو سکتا ہے؟ اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ عدالت کے پاس اختیارات ہیں۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر توہین عدالت کا نوٹس ہوا تو پھر ہر تاریخ پر آنا پڑے گا۔ اس کے بعد عمران خان کو پیش ہونے کیلئے کارروائی ساڑھے چھے بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

ذرائع کے مطابق عمران خان نے حالات کے پیشِ نظر سوا چھ بجے کے قریب عدالت میں جانے پر آمادگی ظاہر کی۔ لیکن ساڑھے چھ بجے تک زمان پارک ہی سے نہ نکل سکے تو مقررہ وقت پر کارروائی شروع کردی گئی اور عمران خان کو زمان پارک میں ہی اپنی درخواست مسترد ہونے کی خبر دی گئی۔ لیکن یہ درخواست ضمانت ڈویژن بنچ نے مسترد کی۔ جبکہ مسٹر جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست ضمانت پر عمران خان کو دستخط کی تصدیق کیلئے پیش ہونے کیلئے پیر تک ملہت دیدی۔

زمان پارک میں چوہدری پرویز الٰہی کی لیک ہونے والی آڈیو ریکارڈنگ بھی زیر بحث رہی۔ عمران خان کو ضمانت نہ ملنے میں اس آڈیو کو بھی ایک وجہ تصور کیا جاتا رہا۔ آٹھ بجے شب یہ سطور لکھے جانے تک زمان پارک میں کارکنان عدلیہ اور دیگر اداروں کیخلاف اور عمران خان کے حق میں نعرے لگارہے تھے۔