پرانے رہنما سائیڈ لائن، متحدہ کو مصطفیٰ کمال کے کنٹرول میں دینے کی تیاری

کراچی : رپورٹ: علی عباس : ایم کیو ایم پاکستان کی مکمل کمان پی ایس پی سے ضم ہونے والے مصطفیٰ کمال اور ان کے ساتھی انیس قائمخانی کے حوالے کرنے کی تیاری ہو رہی ہے، دونوں رہنمائوں نے سرگرمیاں تیز کردیں۔

پارٹی کے کنوینر خالد مقبول صدیقی بیرون ملک چلے گئے جبکہ الطا ف حسین کے خلاف بغاوت کرکے پارٹی کی قیادت سنبھالنے والے عامر خان کو بھی ساتھیوں سمیت مصطفیٰ کمال کی اطاعت کرنے کا واضح پیغام دے دیا گیا ہے اور انکار کرنے والوں کی گرفتاریاں کی جائیں گی، عامر خان گروپ کا ایک اہم کارندہ لاپتہ بھی ہوگیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم کے دھڑوں کو متحد کرانے کے بعد اب پارٹی کو سابق مئیر مصطفیٰ کمال کے کنٹرول میں دینے کیلیے سرگرمیاں تیز کردی گئی ہے، الطاف حسین سے بغاوت کرکے پارٹی کو چلانے والے ایم کیوایم کے اہم رہنما بشمول عامر خان کھڈے لائن لگادیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر کشیدگی بھی پائی جاتی ہے۔

ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کے پرانے کارکنان کا موقف ہے کہ جنہوں نے آپریشن کے دوران کارکنان کی مخبریاں کیں اور وفاداریاں تبدیل کیں، اب پارٹی متحد کرنے کے نام پر انہیں عہدے دے کر ان کے اوپر مسلط کیا جارہا ہے، سینٹرل آرگنائزنگ کمیٹی میں بھی مصطفیٰ کمال اور انیس قائمخانی سے قربت کے حامل خطرناک دہشت گرد شامل کردیے گئے ہیں، جس کا مقصد متحدہ کے پرانے کارکنان کو خوفزدہ کرنا بھی ہے، تاکہ وہ مصطفیٰ کمال کی قیادت پر اعتراض نہ کرسکیں۔

ذرائع کے مطابق انضمام کے بعد دونوں دھڑوں کے کارکنان میں عہدوں پر کشیدگی شدت اختیار کرتی جارہی ہے، تاہم مصطفیٰ کمال کا گروپ اہم قوتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے حاوی ہوچکا ہے، ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ اور سینئر کنو ینر خالد مقبول صدیقی اچانک عمرہ کی ادائیگی کا کہہ کر سعودیہ روانہ ہوگئے ہیں۔

دوسری طرف مصطفی کمال اور انیس قائمخانی 2008 کی طرح دوبارہ ایم کیو ایم پاکستان پر اپنے مکمل کنٹرول کے لئے رہنماؤں ،عہدیداران اور کارکنان سے الگ الگ ملاقاتیں کررہے ہیں۔ عامر خان اور ان کے ساتھیوں پر دباو ڈالا جارہا ہے کہ وہ بھی مصطفی کمال کی قیادت قبول کرلیں۔

عامرخان کے فرنٹ مین آصف علی خان جو 2011 میں حقیقی سے عامر خان کیساتھ ایم کیو ایم میں شامل ہوئے تھے، انہیں لاپتہ کر دیا گیا ہے،آصف علی خان تین دن سے لاپتہ ہے۔ اور اس حوالے سے پارٹی میں بھی خاموشی ہے جبکہ آصف علی کی گمشدگی کو دیگر کارکنوں کے لیے پیغام قرار دیا جارہا ہے کہ اگر ان میں سے کسی نے مصطفیٰ کمال کے خلاف مزاحمت کی کوشش کی، تو اس کا انجام بھی آصف علی کی طرح ہوگا۔