ذاتی استعمال کے نام پر کمرشل سامان کی منتقلی پر یومیہ لاکھوں روپے کی ٹیکس چوری ہو رہی ہے،فائل فوٹو
 ذاتی استعمال کے نام پر کمرشل سامان کی منتقلی پر یومیہ لاکھوں روپے کی ٹیکس چوری ہو رہی ہے،فائل فوٹو

پوسٹ آفس عملہ کھیپیوں کا مددگار بن گیا

عمران خان :
ملکی ایئرپورٹس پر سختی ہونے کے بعد لگژری غیر ملکی آئٹم کے اسمگلرز نے پاکستان پوسٹ آفس کے بین الاقوامی میل آفسوں (آئی ایم اوز) کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ کرپشن اور اسمگلنگ کا راستہ کھلا رکھنے کیلئے جدید اور کمپیوٹرائزڈ دور میں بھی بیرون ملک سے پاکستان پوسٹ آفس کے ذریعے آنے اور جانے والے پارسل کے سامان کی کلیئرنس اور ان پر نافذالعمل ڈیوٹی کا تعین کسٹمز کے آن لائن وی بوک سسٹم کے بجائے پرانے مینول سسٹم سے کیا جا رہا ہے۔ جس میں پرانے طریقہ کار کے ذریعے رجسٹروں پر حساب کتاب کا اندراج جاری ہے۔

جبکہ نجی کوریئر کمپنیوں کے ذریعے آنے اور جانے والے پارسلز کی کلیئرنس کسٹمز کے آن لائن سسٹم وی بوک کے ذریعے کلیئرنگ ایجنٹوں سے کروائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین اور دبئی سے پاکستان پوسٹ آفس کے ذریعے ذاتی استعمال کے نام پر کمرشل سامان کی منتقلی اور اس پر یومیہ لاکھوں روپے کی ٹیکس چوری بے تحاشا بڑھ چکی ہے۔

’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق پاکستان پوسٹ کے ذریعے بیرون ملک سے ذاتی اور گھریلو استعمال کے نام پر سامان کے پارسل منگوانے اور بجھوانے کیلئے کراچی سمیت ملک کے مختلف ایئرپورٹس پر انٹرنیشنل میل آفس (آئی ایم اوز) قائم ہیں۔ جہاں سے قوانین کے مطابق شہری زیادہ سے زیادہ 30 کلو وزنی سامان کے پارسل بیرون ملک سے پاکستان اور پاکستان سے بیرون ملک بھیج سکتے ہیں۔ اگر کسی شہری کے نام پر بک کرائے گئے سامان کا وزن زیادہ ہو تو پھر 30 کلو کے بعد دوسرا پارسل بنایا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر کوئی 120 کلو سامان منگواتا ہے تو اس کی ایک کھیپ میں 4 پارسل ہوں گے۔ اس سروس کی مختلف درجہ بندیاں ہیں۔ جن میں خطوط اور دستاویزات کی سہولت کے علاوہ ذاتی اور گھریلو سامان کی پارسل سروس (یو ایم ایس) اور (سی پی) شامل ہیں۔

اطلاعات کے مطابق اس سروس کے تحت لگژری (پرتعیش) قیمتی غیر ملکی سامان کی گھریلو اور ذاتی استعمال کے نام پر کمرشل آمد کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ تاہم حالیہ ایک برس میں جب ملک میں زر مبادلہ کی قلت اور ڈالرز کے مقابلے میں روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے غیر ملکی کرنسی کا زیادہ سے زیادہ استعمال روکنے کیلئے حکومت کی جانب سے لگژری سامان کی کمرشل درآمد پر پابندی عائد کی گئی اور بعد ازاں جب اس پابندی کو ہٹایا بھی گیا تو اس پر ڈیوٹی اور ٹیکس کی شرح کو 25 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ایئرپورٹ کے آئی ایم او سے کھیپ کا سامان کمرشل بنیادوں پر فروخت کرنے والی مافیا نے اسے بے تحاشا استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔

اسی عرصہ میں کسٹمز انفورسمنت کلکٹریٹ کے تحت جب ایئر پورٹ کے شعبہ بین الاقوامی آمد پر سختی کی گئی اور کھیپ لانے والوں کے خلاف متواتر کارروائیاں کرکے اس چین کو توڑا گیا تو زیادہ تر کام آئی ایم او پر منتقل کردیا گیا۔ اس وقت آئی ایم او کراچی ایئرپورٹ کے انچارج کسٹمز افسر بشیر بھٹو ہیں۔ جنہوں نے کچھ عرصہ قبل یہاں پوسٹنگ حاصل کی ہے۔ ذرائع کے بقول اس کے بعد سے محکمہ پوسٹ آفس کے پرانے اور بااثر تعینات افسران نے معاملات طے کرنے شروع کر دیے ہیں۔

کسٹمز ذرائع کے بقول اس وقت جو سامان آئی ایم او پوسٹ آفس پارسلوں سے ذاتی اور گھریلو استعمال کے نام پر کمرشل فروخت کیلیے لایا جا رہا ہے۔ اس میں موبائل فونز، ہتھیار، جوتے، ڈیکوریشن کی چیزیں، دروازوں اور کھڑکیوں کے فریم، ساسز، فروزن گوشت، پھل، کارپٹس، ٹشو پیپر، فرنیچر، میک اپ، شیمپو، چشمے، سگریٹ، چاکلیٹ، بیکری مصنوعات، موسیقی کے آلات، جیم، جیلی، شیونگ کے سامان، میٹرس، سلیپنگ بیگز، ہیٹر، کچن کا سامان، جوسز، آئس کریم، سینیٹری آئٹمز اور چمڑے سے بنی اشیا شامل ہیں۔ یہ سامان مقامی الیکٹرانک مارکیٹوں، ڈپارٹمنٹل اسٹورز، شاپنگ سینٹرز اور پوش علاقوں کی بڑی دکانوں پر سپلائی کردیا جاتا ہے۔

جہاں ہول سیل تاجر اور ریٹیل کے دکاندار اس کو مہنگے داموں فروخت کرکے کئی گنا زائد منافع کماتے ہیں اور اس طرح قومی خزانے کو بھاری چونا لگا کر اسی میں سے پوسٹ آفس اور محکمہ کسٹمز کے ملوث افسران کو کمیشن دیا جاتا ہے۔ جبکہ سامان منگوانے والی مافیا کے کھیپی اور کیریئرز بھی اپنا حصہ رکھ رلیتے ہیں۔

کراچی ایئرپورٹ کے انٹرنیشنل میل آفس (آئی ایم او) کیلئے بنائے گئے دفتر اور گودام میں محکمہ کسٹمز کے ایئرپورٹ کلکٹریٹ کے تحت اسکینر نصب ہے۔ جس سے سامان گزار کر پارسلوں کی چھان بین کی جاتی ہے اور ان پر لگنے والی ڈیوٹی کے تعین اور ان میں موجود ممنوعہ سامان کی ضبطگی کیلیے یہاں پر کسٹمز انفورسمنٹ کے پریونٹو افسران تعینات ہوتے ہیں۔

حیرت انگیز طور پر اس وقت ملک بھر میں تمام بندرگاہوں، خشک گودیوں اور ایئرپورٹس سے درآمد اور برآمد ہو کر آنے اور جانے والے سامان کی کلیئرنس اپریزمنٹ کلکٹریٹس کے ذریعے کی جاتی ہے۔ جس کیلئے کسٹمز آٹو میشن کا آن لائن نظام وی بوک استعمال ہوتا ہے۔ جس میں سامان منگوانے اور بھجوانے والی کمپنیاں اور افراد کسٹم ایجنٹوں کے ذریعے جی ڈیز یعنی گڈز ڈکلریشن کی دستاویزات جمع کراکر کلیئرنس کرواتے ہیں۔ اور یہی عمل نجی کوریئر کمپنیوں کے ذریعے آنے اور جانے والے پارسلز کی کلیئرنس کسٹمز کے آن لائن سسٹم وی بوک کے ذریعے کلیئرنگ ایجنٹوں سے کروائی جاتی ہے۔

جبکہ پاکستان پوسٹ آفس کے ذریعے آنے اور جانے والے پارسل کے سامان کی کلیئرنس اور ان پر نافذالعمل ڈیوٹی کا تعین کسٹمز کے آن لائن وی بوک سسٹم کے بجائے پرانے مینوئل سسٹم سے کیا جا رہا ہے۔ جس میں پرانے طریقہ کار کے ذریعے رجسٹروں پر حساب کتاب کا اندراج جاری ہے۔

کسٹمز ذرائع کے بقول گزشتہ برس مئی کے مہینے میں کسٹمز نے آئی ایم او کی کھیپ کیلئے استعمال ہونے کی مصدقہ اطلاعات پر ایک ہفتے کی کارروائیوں میں تلاشی کے دوران کھانے پینے کی 76 کلو مصنوعات، 127 کلو فروٹ، 42 کلو سینیٹری کا سامان، 213 موبائل فون اور 96 برانڈڈ جوتوں کے جوڑے ضبط کیے تھے۔ جس کے بعد کئی حلقوں کی جانب سے اس پر تنقید بھی کی گئی کہ حکومت کی جانب سے پرتعیش سامان کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کے بعد ذاتی استعمال کیلئے منگوانے والوں کا یہ سامان بھی کسٹمز اہلکار ضبط کر رہے ہیں۔ جو درست عمل نہیں۔

کسٹمز حکام کا کہنا تھا کہ ایک شخص اگر کپڑوں کے 20 جوڑے منگوا رہا ہے یا 10 سے 15 کلو گرام چاکلیٹ منگوا رہا ہے تو یہ لازمی کمرشل فروخت کیلئے ہوتا ہے۔ گھروں میں اتنا سامان استعمال نہیں ہوتا۔ تاہم بعد ازاں حکومت نے تنقید سے بچنے کیلئے خود ہی کسٹمز حکام کو کھانے پینے کی اشیا سمیت ذاتی سامان سے چیزیں ضبط نہ کرنے کی ہدیات جاری کردیں۔ جس کے بعد یومیہ لاکھوں روپے مالیت کی کھیپ کے سامان کی کلیئرنس کا دروازہ دوبارہ کھل گیا۔