ڈھائی ماہ گزرنے کے باوجود بحالی کے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے-فائل فوٹو
 ڈھائی ماہ گزرنے کے باوجود بحالی کے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے-فائل فوٹو

گورنرکی کمیٹی عباسی شہید اسپتال میں فساد کا سبب بننے لگی

محمد اطہر فاروقی :
عباسی شہید اسپتال کی بحالی کیلیے گورنر سندھ کی بنائی گئی کمیٹی فساد کا سبب بننے لگی۔ ری ہیبلی ٹیشن کمیٹی نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے غیرقانونی طریقے سے اسپتال کے ملازمین کو ہٹاکر من پسند افراد کی تعیناتیاں کر دیں۔ ڈھائی ماہ گزرنے کے باوجود کمیٹی کی جانب سے اسپتال میں بحالی کیلیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

اسپتال کے ایم ایس، ایڈیشنل ایم ایس، ڈی ایم ایس سمیت دیگر اہم عہدوں پر سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے برعکس او پی ایس افسران کو تعینات کیا گیا۔ کمیٹی کے چیئرمین متحدہ کے سابق سینیٹر ہیں۔ جبکہ ہٹائے جانے والے ملازمین میں بھی بیشتر کا تعلق متحدہ سے ہے۔ بہادرآباد میں شکایت کے بعد معاملہ حل کرنے کیلئے کمیٹی چیئرمین سے ملاقات کرنے والے وفد کی بات تک نہیں سنی گئی۔ تلخ کلامی کے بعد متحدہ کے دونوں فریقین کے آپس میں جھگڑے سے عباسی شہید اسپتال میدان جنگ بن گیا۔ کمیٹی ممبر نے ایڈمنسٹریٹر کی اجازت کے بغیر لیڈی ڈاکٹر کو اسپتال میں تعینات کرکے اپنے شعبے میں کمرہ بھی فراہم کر دیا۔

لیڈی ڈاکٹر نہ ہی کے ایم سی کی ملازمہ ہیں اور نہ ہی کے ایم ڈی سی کی ملازمہ ہیں۔
کراچی بلدیہ عظمی کے تحت چلنے والے شہر کے تیسرے بڑے اسپتال میں گورنر کی بنائی گئی کمیٹی فساد کا سبب بن رہی ہے۔ گورنر سندھ اور متعلقہ اتھارٹی کی منظوری کے بعد عباسی شہید اسپتال کیلئے ری ہیبلی ٹیشن کمیٹی تشکیل دی گئی۔ 28 نومبر 2022ء کو کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے محکمہ ہیومن ریسورس مینجمنٹ کی جانب سے جاری لیٹر نمبر No. Sr. Dir/(HRM)/Dir/(Serv)/KMC/2022 میں 7 افراد پر مشتمل عباسی شہید اسپتال کی بحالی کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جس میں متحدہ کے سابق سینیٹر عبدالحسیب خان کو چیئرمین، سید سیف الرحمن کو کوآرڈینیٹر، میونسپل کمشنر کے ایم سی کو کوآرڈینیٹر، ریٹائرڈ ڈاکٹر ناصر جاوید شیخ، ریٹائرڈ ڈاکٹر ندیم احمد، ڈاکٹر سراج الحق اور پروفیسر محمد جمال الدین کو ممبر بنایا گیا۔

ڈھائی ماہ گزرنے کے بعد کمیٹی کی جانب سے عباسی شہید اسپتال میں کسی قسم کی بحالی کا کوئی کام نہیں کیا گیا۔ ’’امت‘‘ کو عباسی شہید اسپتال سے حاصل معلومات کے مطابق کمیٹی کی تشکیل کے بعد دسمبر کے شروع میں پہلی بار کمیٹی نے اسپتال کا وزٹ کیا۔ تاہم اسپتال میں گزشتہ کئی برس سے الٹرا ساؤنڈ، سٹی اسکین مشین اور ادویات موجود نہیں۔ جس پر کمیٹی کی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اسپتال میں نرسنگ اسکول، نیورو سرجری وارڈ، کارڈک وارڈ، برنس وارڈ اور پلاسٹک سرجری وارڈ کی بحالی تو دور ان وارڈز کا وزٹ تک کمیٹی کے کسی ممبر نے نہیں کیا۔

البتہ کمیٹی نے اسپتال کے اہم عہدوں پر تعینات افسران سمیت پیرامیڈیکل اسٹاف کو ہٹا کر دیگر لوگوں کو ذمہ داریاں سونپ دیں۔ حالانہ اس کا اختیار کمیٹی کے پاس نہیں تھا۔ کیونکہ 17 سے 20 گریڈ کے ملازمین کے تبادلوں کا اختیار ایڈمنسٹریٹر کے پاس ہے۔ کمیٹی نے او پی ایس افسران کو اہم عہدوں پر تعینات کر دیا۔ جو سندھ ہائیکورٹ کے یکم ستمبر 2021ء کے آئینی درخواست نمبر 2020 D-4443/ کے حکم نامے کے خلاف ہے۔ جس میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ گریڈ 19 اور 20 کی نشست پر گریڈ 18 کے افسر کو تعینات کیا گیا ہے۔ ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ گریڈ 19 کی نشست ہے۔ جس پر گریڈ18 کے ڈاکٹر نسیم ثقلین جعفری تعینات کیے گئے۔

گریڈ 18 کے ڈاکٹرعلی مرزا اور ڈاکٹر طارق کے پاس ڈی ایم ایس کلینکل اور پریمیسسز کے چارج تھے۔ تاہم اس کے باوجود بحالی کمیٹی نے خلاف ضابطہ ان ڈاکٹروں کو ایڈیشنل ڈی ایم سی ٹیچنگ ٹریننگ اور اسٹور کا چارج دے دیا ہے۔ جبکہ اسپتال میں گریڈ 19 اور 20 کے افسران موجود ہیں۔ جو مذکورہ نشستوں کیلئے اہل بھی ہیں۔

کمیٹی کی سفارش سے ایڈمنسٹریٹر کے لیٹر کے مطابق اسپتال کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر جمال الدین کو تعینات کیا گیا ہے۔ جبکہ پروفیسر کے ایم سی کے ملازم نہیں اور وہ کے ایم ڈی سی کے ٹیچنگ فیکلٹی کا حصہ ہیں۔ بلدیہ عظمی کے کونسل سیکریٹریٹ کے سیریل نمبر 8 کے مطابق کے ایم ڈی سی کا ملازم کسی صورت کے ایم سی کا ملازم تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس حیثیت سے وہ محض کے ایم ڈی سی میں کسی عہدے پر تعینات ہو سکتے ہیں۔ لیکن کے ایم سی کے کسی عہدے پر نہیں۔

اسپتال ذرائع نے بتایا کہ کمیٹی میں شامل چیئرمین سمیت چند ارکان کا تعلق متحدہ سے ہے۔ جبکہ جن ڈاکٹرز کے تبادلے کیے گئے۔ ان میں سے بھی بیشتر کا تعلق متحدہ سے ہے۔ جن ملازمین کو عہدوں سے ہٹایا گیا۔

انہوں نے متحدہ رہنما خالد مقبول صدیقی سے شکایت بھی کی۔ جس کے بعد معاملے کو سنبھالنے کیلئے ایم کیو ایم کے رہنما کی جانب سے ایک وفد کو کمیٹی کے چیئرمین متحدہ کے سابق سینیٹر عبدالحسیب سے بات چیت کرنے کیلئے بھیجا گیا۔ 16 فروری 2023ء کو مذکورہ وفد عباسی شہید اسپتال پہنچا۔ لیکن کمیٹی چیئرمین بات سنے بغیر میٹنگ سے اٹھ کر واپس چلے گئے۔ جس کے بعد عباسی شہید اسپتال میدان جنگ بن گیا۔ آنے والے وفد کے حامی ملازمین کے ایک گروپ اور کمیٹی کے حامی ملازمین آپس میں جھگڑ پڑے۔

اسپتال کے ایم ایس سمیت دیگر افسران نے ایڈمنسٹریٹر کراچی کو تمام صورتحال سے تحریری طور پر آگاہ کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا او کہا کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی غنڈہ گردی کا نوٹس لیں۔ واضح رہے کہ اسپتال انتظامیہ کے اہم عہدوں پر فائز افسران کو بحالی کمیٹی نے ہی اپنی پسند سے تعینات کیا ہے۔

عباسی شہید اسپتال کی بحالی کمیٹی نے غیر قانونی طور پر ملازمین کے تبادلے کیے۔ جن میں سے چند ملازمین نے ایڈمنسٹریٹر کو تحریری طور پر شکایت بھی کیں۔ جس کی کاپی ’’امت‘‘ کو بھی موصول ہوئی ہے۔ ملازمین کی شکایات کے بعد گزشتہ روز ایڈمنسٹریٹر کراچی نے سرکلر جاری کیا۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سید سیف الرحمن نے بلدیہ عظمی کراچی کے اسپتالوں، طبی انسٹیٹیوٹ اور دیگر شعبہ جات کے سربراہان کی طرف سے اختیارات کے بغیر افسران و دیگر عملے کو دفتری حکم نامے جاری کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ محکمہ جاتی حکم نامے صرف مجاز اتھارٹی کی اجازت سے اور محکمہ ہیومن ریسورس مینجمنٹ کے ذریعہ ہی جاری کئے جائیں گے۔ لہٰذا سینئر ڈائریکٹر میڈیکل اینڈ ہیلتھ سروسز کے ایم سی کسی بھی طبی ادارے، اسپتال، شعبے کی طرف سے اختیارات کی تفویض کے حوالے جاری کی گئی دفتری یادداشت سے ہٹ کر افسران و عملے کے تبادلے و تعیناتی سے گریز کو یقینی بنائیں۔

معلوم ہوا ہے کہ ری ہیبلی ٹیشن کمیٹی نے اپنی بحالی کے بعد اسپتال کے سرجیکل وارڈ 2 کے ایچ او ڈی جو کمیٹی کے ممبر بھی ہیں، اسپتال کے ڈائریکٹر کے عہدے پر ایڈمنسٹریٹر کے لیٹر کے بعد تعینات کروایا۔ پروفیسر ڈاکٹر جمال الدین نے عباسی شہید اسپتال میں ایسے ڈاکٹرز کو بھی اہم ذمہ داریاں سونپی ہیں جو کے ایم سی اور کے ایم ڈی سی کے ملازم بھی نہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر جمال الدین نے ڈاکٹر حاجرہ نامی خاتون کو سینئر رجسٹرار کے عہدے پر تعینات کیا۔

جبکہ اسپتال میں ان کے نام کا کمرہ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ جبکہ وہ اسپتال کی ملازمہ بھی نہیں۔ ایڈمنسٹریٹر کی جانب سے اس حوالے سے کسی قسم کا نہ کوئی لیٹر جاری کیا گیا اور نہ ان کی کوئی تنخواہ جاری کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود ڈاکٹر حاجرہ کی ڈیوٹی بھی لگائی جاتی ہے۔ ’’امت‘‘ کو موصول جنوری کی ماہانہ ڈاکٹرز کی ڈیوٹی کا لیٹر موصول ہوا ہے۔ جس میں پروفیسر ڈاکٹر جمال الدین کے دستخط اور مہر بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر حاجرہ کی جمعہ اور اتور کے روز کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ جبکہ اسپتال ذرائع کے بقول ڈاکٹر حاجرہ مریضوں کی سرجری بھی کرتی ہیں۔

مذکورہ معاملے پر مؤقف دیتے ہوئے سابق سینٹر عبدالحسیب خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کمیٹی 28 نومبر کو بنائی گئی تھی۔ جس کے بعد پیپر ورک کیا گیا اور ہم نے کا فروری میں شروع کیا ہے۔ اب تک ہم پیر ورک مکمل کر چکے ہیں۔ باقی اسپتال میں بحالی کا کام بہت جلد شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ گورنر کی جانب سے ہمیں اجازت دی گئی ہے کہ اسپتال میں کسی جگہ پر کسی ڈاکٹر کی ضرورت ہو تو ہم اسے تعینات کر سکتے ہیں۔ اس اجازت کی تصدیق گورنر آفس میں ہماری بنائی گئی کمیٹی کے قواعد و ضوابط میں 4 صفحات پر مشتمل مکمل تحریر ہے۔ جس کی کاپی انہیں کی آفس میں موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عباسی شہید اسپتال کو بحال کرنے کیلئے کمیٹی میں میرے اپنے لوگ موجود ہیں۔ جنہوں نے پہلے بھی عباسی شہید اسپتال کو ایک انٹرنیشنل طرز کا اسپتال بنایا تھا۔ لیکن جو لوگ یہاں تعینات تھے۔ انہوں نے اسپتال کو خراب کیا۔ تاہم اب ہم دوبارہ اس اسپتال کو پہلے جیسا بہتر بنا رہے ہیں۔ میں یہاں بغیر کسی لالچ کے محض اللہ کی رضا کیلئے مریضوں کو بہتر علاج فراہم کرنے کی غرض سے کام کر رہا ہوں۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ’’ڈاکٹر حاجرہ کون ہیں، میں نام سے کسی کو نہیں جانتا۔ یہ معاملات ایڈمنسٹریٹر دیکھیں گے۔ کسی کی تعیناتی اور تبادلے کے حوالے سے میرا کوئی تعلق نہیں‘‘۔

اس ضمن میں عباسی شہید اسپتال کے ڈائریکٹر اورکمیٹی کے ممبر پروفیسر محمد جمال الدین نے بتایا کہ ’’میں کے ایم سی کا ملازم ہوں اور کے ایم ڈی سی میں پروفیسر آف سرجری ہوں۔ عباسی شہید اسپتال میں میری پوسٹنگ ہے اور میری تنخواہ کے ایم سی جاری کر رہا ہے۔ جو کے ایم ڈی سی کے تھرو دی جاتی ہے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر حاجرہ کے ایم ڈی سی کی اعزازی سینئر رجسٹرار کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ جس کا لیٹر ایڈمنسٹریٹر نہیں، کے ایم ڈی سی کا پرنسپل جاری کرتا ہے اور ڈاکٹر حاجرہ ہی لیٹر کے بارے میں بتا سکتی ہیں۔ واضح رہے کہ کے ایم ڈی سی کی پرنسپل نرگس انجم ہیں۔ جن کا ذکر پروفیسر نے کیا ہے۔ تاہم بلدیہ عظمی کے کونسل سیکریٹریٹ کے سیریل نمبر 8 کے مطابق کے ایم ڈی سی کا ملازم کسی صورت کے ایم سی کا ملازم تصور نہیں کیا جا سکتا۔