بارکھان واقعے کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج

کوئٹہ(امت نیوز) بلوچستان کے علاقے بارکھان سے خاتون اور دو بیٹوں کی لاشیں ملنے کے بعد سے لواحقین نے کوئٹہ کے ریڈ زون میں گزشتہ دو روز سے دھرنا دیا ہوا ہے اور چھ مطالبات پیش کردیے ہیں جبکہ قبائلی جرگے نے دو روز کا الٹی میٹم دے دیا جبکہ بارکھان تھانے میں واقعے کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف  درج کرلی گئی ہے۔

لواحقین کا الزام ہے کہ مقتولین کو صوبائی وزیر عبدالرحمان کیتھران نے قتل کیا جبکہ اسی گھرانے کے پانچ افراد بھی اُن کے عقوبت خانے میں قید ہیں۔ واضح رہے کہ خاتون کی چند روز قبل سوشل میڈیا پر ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں وہ قرآن مجید کا واسطہ دے کر رہائی کا مطالبہ کررہی تھی اور بتا رہی تھی کہ وہ اور بچے کیتھران کی نجی جیل میں قید ہیں۔

بعد ازاں خاتون اور اُن کے دو بیٹوں کی لاشیں کنویں سے برآمد ہوئیں، جس کے بعد مری قبیلے کے لوگوں نے احتجاج کیا اور نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ پہنچ کر دھرنا دیا

بارکھان واقعے کی گونج صوبائی اسمبلی، سینیٹ میں بھی رہی اور اراکین نے واقعے کی شفاف تحقیقات سمیت ملوث عناصر کیخلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے واقعے کی تحقیقات کیلیے کمیٹی تشکیل دی جبکہ پولیس نے گزشتہ شب کوئٹہ میں عبدالرحمان کیتھران کے گھر پر چھاپہ بھی مارا تاہم کسی کی بازیابی ہوسکی اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔

بارکھان واقعے پر بلوچستان بار کونسل نے عدالتی کاروائیوں کا بائیکاٹ کیا۔ کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر قاری رحمت اللہ نے کہا کہ بارکھا ن واقعہ افسوسناک ہے، عوام کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، مظلوم عوام کو انصاف فراہم کرنے کے لیے جدو جہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

دوسری جانب بارکھان واقعے پر کوئٹہ میں قبائلی عمائدین نے جرگے کا انعقاد کیا، جس کی صدارت خان آف قلات کے بھائی سینیٹر پرنس آغا عمر احمدزئی نے کیا جبکہ جرگے میں پشتون اور بلوچ قبائل کے سرداران شریک ہوئے۔

جرگے میں شریک عمائدین نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت کو 2 روز کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ دھرنے کے تمام شرکاء کے تمام مطالبات تسلیم کئے جائیں۔