اسلام آباد: سپریم کورٹ میں خیبر پختونخوا اور پنجاب میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران پی ڈی ایم نے بینچ میں شامل جسٹس اعجا زالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر اعتراض اٹھا دیا ۔
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران (ن) لیگ کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ حکم کی کاپی ابھی تک دستیاب نہیں ہوئی ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج اکٹھے ہونے کا مقصد تھا کہ سب کو علم ہو جائے ،مختلف فریقین کے وکلاءعدالت میں دیکھ کر خوشی ہوئی ، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں کوئی نوٹس نہیں ملا، درخواست ہے سب کو نوٹس جاری کیے جائیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بینچ کی تشکیل پر ہمیں 2 ججز پراعتراض ہے ،دونوں ججز کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے بینچ میں شامل ہونے پراعتراض ہے ،نہایت احترام سے ججز کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض کر رہاہوں ، اعتراض کرنے کا فیصلہ قائدین نے کیاہے ۔ جے یو آئی ایف ، مسلم لیگ( ن) اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے 2 ججز پراعتراض اٹھایا گیاہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج پہلے سب کی حاضری لگائیں گے ، سوموار کو سب کو سنیں گے ،4 صوبائی وکلاءکی نمائندگی عدالت میں موجود ہے ،سپریم کورٹ بار کسی اور وکیل کے ذریعے اپنی نمائندگی عدالت میں کریں ، صدر کی جانب سے ان کے سیکریٹری عدالت میں پیش ہو رہے ہیں ، مجھے لگتاہے ہم نے سب سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کیے ، سب موجود ہیں، عدالت میں گورنر پنجاب کے وکیل مصطفیٰ رمدے پیش ہوئے ہیں ۔
فاروق ایچ نائیک نے( ن) لیگ ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ایف کا مشترکہ بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا ، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ (ن) لیگ ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کا متفقہ بیان پڑھ رہاہوں، تینوں سیاسی جماعتیں احترام سے کہتی ہیں کہ 2رکنی بینچ کا از خود نوٹس کا حکم سامنے ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل کا عدالت میں پڑھا گیا بیان بھی ہے ، انصاف کی فراہمی ، فیئر ٹرائل کے تناظر میں دونوں ججز صاحبان کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا یہ مناسب نہیں ہو گا معاملہ فل کورٹ سنے ۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیف جسٹس سے درخواست کرتاہوں معاملے پر فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے،عدالت سے استدعا ہے کہ فل کورٹ تشکیل دیاجائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ میرے مطابق 184/3 سے متعلق سمجھتاہوں کیوں نہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے ۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس وقت میں گہرائی میں نہیں جاﺅں گا، میرا بھی یہی خیال ہے معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے۔چیف جسٹس نے عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم پہلے کیس میں قابل سماعت ہونے پر بات کریں گے ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلی چیز کہ فاروق نائیک نے جو حکم پڑھا وہ 16 فروری کا ہے جبکہ از خود نوٹس 22 فروری کو لیا گیا، اسی دوران بہت سنجیدہ معاملات سامنے آئے کہ ایک صدر کی جانب سے تاریخ دینا اور دوسرا اسپیکرز کی جانب سے درخواست آنا، عام طور پر شہری انصاف کے لیے عدالت آتے ہیں لیکن کیا آپ کو معلوم ہے اس بار آئین نے دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ازخود نوٹس لینا چیف جسٹس کا دائرہ اختیار ہے، آرٹیکل 184 تین کے ساتھ اسپیکرز کی درخواستیں بھی آج سماعت کے لیے مقرر ہیں۔ عدالت اسپیکرز کی درخواستوں میں اٹھائے گئے قانونی سوالات بھی دیکھ رہی ہے۔سپریم کورٹ نے سماعت پیر ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔