بعض سرکاری ملازم ڈیوٹی اوقات میں این جی اوز کی نوکریاں بھی کر رہے ہیں-فائل فوٹو
 بعض سرکاری ملازم ڈیوٹی اوقات میں این جی اوز کی نوکریاں بھی کر رہے ہیں-فائل فوٹو

کراچی میں بچوں کا سب سے بڑا اسپتال مسائل کی آماجگاہ

محمد اطہر فاروقی :
صوبے سندھ میں بچوں کے سب سے بڑے اسپتال (قومی ادارہ برائے اطفال) کی نصف اسامیاں خالی ہونے سے طبی معاملات درہم برہم ہو گئے۔ 500 بستروں پر مشتمل اسپتال میں 8 سو سے 9 سو بچوں کو داخل کیا جاتا ہے۔ عملے کی کمی سے بچوں کے دیکھ بھال بہتر انداز سے نہیں ہو رہی ۔

ایمرجنسی میں یومیہ 400 سے 500 جبکہ وارڈز میں یومیہ 30 سے 40 بچوں کو داخل کیا جاتا ہے۔ شہر کے دیگر سرکاری اسپتالوں سے بھی خصوصاً نومولود بچوں کو این آئی سی ایچ بھیجا جاتا ہے۔ این آئی سی ایچ میں صوبہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب سمیت دیگر شہروں سے بھی بچوں کو علاج کے لایا جاتا ہے۔ ایمرجنسی میں آکسیجن کے 20 بیڈز ہونے کے باوجود 15 کو فعال کررکھا گیا ہے۔ دیگر 5 میں صرف سفارشی افراد کے بچوں کو فلو میٹر فوری فراہم کر کے بروقت ضرورت فعال کیا جاتا ہے۔

اسپتال کی ایمرجنسی میں انکیوبیٹر اور وینٹی لیٹر موجود نہیں، تاہم ضرورت پڑنے پر ٹیوب کے ذریعے بچوں کے تیماردار کو پمپنگ کرنے کا کہہ کر مصنوعی سانس دی جاتی ہے۔ اسپتال کی نرسری میں ایک اندازے کے مطابق 69 انکیوبیٹر اور 36 وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔ انچارج نرسری پروفیسر مرتضی علی گووا کی اجازت کے بغیر کوئی ڈاکٹر کسی بچے کو وینٹی لیٹر اور انکیوبیٹرز پر نہیں رکھ سکتے۔ چاہے بچے کی حالت کتنی ہی نازک کیوں نہ ہو۔ بعض سرکاری ملازم ڈیوٹی کے اوقات میں اسپتال میں ہی این جی او میں پرائیویٹ نوکریاں کرتے ہیں۔

سندھ کے سب سے بڑے بچوں کے اسپتال این آئی سی ایچ میں نصف سے زائد اسامیاں خالی ہونے کی وجہ سے طبی معاملات کے تمام انتظامات درہم برہم ہو چکے ہیں۔ اسپتال میں مجموعی طور پر سرکاری اسامیوں کی تعداد 700 سے زائد ہے ، جس میں ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل اسٹاف، ٹیکنیشن اور نرسنگ اسٹاف سمیت دیگر طبی عملہ شامل ہے۔ تاہم ان اسامیوں میں سے 350 اسامیاں خالی پڑی ہیں۔

وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے آپسی تنازع کی وجہ سے اسامیوں پر بھرتیاں نہیں کی جا سکی ہیں۔ 350 ملازمین کے ساتھ مختلف این جی او کے بھی درجنوں افراد اسپتال کے مختلف وارڈز میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔ تاہم افرادی قوت کی کمی کے باعث اسپتال میں آنے والے مریض بچے اور وارڈز میں داخل بچوں کا علاج بہتر انداز سے نہیں کیا جارہا۔

500 بستروں پر مشتمل قومی ادارہ برائے اطفال میں 800 سے 900 بچوں کو داخل کیا جاتا ہے۔900 بچوں کے علاج، میڈیسن اور دیکھ بھال کے لئے تقریبا 350 افراد کا عملہ موجود ہے جو کہ 3 شفٹوں میں اسپتال میں کام کرتا ہے۔ تاہم 900 بچوں کے لئے مذکورہ عملہ کافی نہیں ہے۔ جبکہ اسپتال کی ایمرجنسی میں یومیہ 400 سے 500 بچوں کو علاج کے لئے لایا جاتا ہے، جس میں نومولود بچوں سمیت 15 سال کے بچے شامل ہیں۔

اسپتال 6 منزلہ عمارت پر مشتمل ہے جس میں پہلی اور دوسری منزل میں سرجیکل وارڈ اور میڈیکل آئی سی یو قائم ہے۔ جبکہ تیسری، چوتھی اور پانچویں منزل میڈیکل وارڈ پر مشتمل ہے اور آخری اور چھٹی منزل میں نرسری قائم ہے۔

ایمرجنسی میں آنے والے بچوں کا بنیادی طبی معائنہ کرنے کے بعد اگر اسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت پیش آئے تو مذکورہ وارڈز میں داخل کرنے کے لئے بھیج دیا جاتا ہے۔

یومیہ 30 سے 40 بچوں کو ایمرجنسی سے وارڈز میں شفٹ کرتے ہیں۔ اسپتال میں صوبہ سندھ کے علاوہ، صوبہ بلوچستان اور صوبہ پنجاب سے بھی بچوں کو علاج کے لئے لایا جاتا ہے۔ جبکہ شہر قائد کے دیگر بڑے اسپتال، انڈس، سول، لیاری جنرل، سندھ گورنمنٹ کے دیگر اسپتالوں سے بھی بچوں کو علاج کیلئے لایا جاتا ہے جس میں خصوصاً نومولود بچے شامل ہوتے ہیں۔

اسپتال ایمرجنسی ذرائع کے مطابق ایمرجنسی میں آکسیجن کے لئے مجموعی طور پر 20 بیڈز ہیں ،جس میں سے 15 بیڈز پر بچوں کو آکسیجن کے لئے رکھا جاتا ہے۔ تاہم اس میں سے 5 بیڈز سفارشی افراد کیلئے مختص رہتے ہیں جہاں وی آئی پی افراد کے بچوں کے لئے فوری طور پر فلو میٹر لگا کر انہیں آکسیجن فراہم کی جاتی ہے۔ لیکن مذکورہ 5 بستروں پر کسی غریب کے بچوں کو نہیں رکھا جاتا ہے۔

قومی ادارہ براے اطفال میں ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر 69 اینکیوبیٹرز اور 36 وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔ نرسری کے وارڈ میں57 اینکیوبیٹرز اور 20 وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔ جس میں 2 اینکیو بیٹرز اور 2 وینٹی لیٹر خراب پڑے ہوئے ہیں۔

میڈٰکل آئی سی یو میں 13 وینٹی لیٹر موجود ہیں۔ تاہم میڈٰیکل آئی سی یو کے انچارج پروفیسر ڈاکٹر مرتضی علی گووا کی اجازت کے بغیر کسی بچے کو ڈاکٹر داخل نہیں کرتے ہیں، چاہے بچے کی حالت کتنی نازک ہی کیوں نہ ہو۔

اس حوالے سے ‘‘امت ’’کی جانب سے پروفیسر ڈاکٹر مرتضی کو بذریعہ میسج اور فون رابطہ کیا گیا، تاہم انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ سرجیکل آئی سی یو میں 5 انکیو بیٹر اور 3 وینٹی لیٹر، سرجیکل آئی ٹی یو میں 7 انکیو بیٹر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اسپتال کی ایمرجنسی اور گردے کے وارڈ میں نہ اینکیوبیٹراور نہ ہی وینٹی لیٹر موجود ہیں۔ تاہم ایمرجنسی میں آنے والے مریض بچوں کو اینکیوبیٹر کی ضرورت پڑنے پر انہیں وارڈ میں شفٹ نہیں کیا جاتا۔ جبکہ مصنوعی سانس کے لئے بچوں میں نالی لگا کر ان کے تیماردار کو پمپنگ کے لئے بلالیا جاتا ہے۔

ایمرجنسی کی بات کی جائے تو وہاں بچوں کی کیئر کے لئے انتظامات بہتر نہیں ہے، بچوں کی صفائی اور ان کو ڈرپ وغیرہ لگانے کے لئے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اسپتال میں عملے کی تعداد میں واضح کمی ہے۔

ذرائع سے حاصل معلومات کے مطابق اسپتال میں مختلف سرکاری ملازمین اپنے سرکاری اوقات میں این جی او میں پرائیویٹ ملازمت بھی کرتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں دونوں اداروں سے تنخواہیں بٹور رہے ہیں، جس میں ڈائلیسسز وارڈ کے انچارچ مائیکل نامی شخص بھی شامل ہیں جو صبح کے اوقات میں اپنی سرکاری نوکری کے ساتھ ذیابطیس کے وارڈ کے بھی انچارج ہیں ،جو کہ ایک این جی او کے ماتحت ہیں ایک ہی وقت میں دونوں جگہ ملازمت کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے ’’امت‘‘ نے جب گردے کے وارڈ کے انچارج مائیکل سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ یہ بات غلط ہے، تاہم میں اس پر مزید بات نہیں کر سکتا ہوں۔

واضح رہے کہ اسپتال کی لیبارٹری میں سی آر پی ،ای ایس آر اور سی ایس سمیت مختلف ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں۔ مریضوں کو جناح اسپتال سمیت نجی لیبارٹریز میں بھیجا جاتا ہے۔ لیبارٹری میں بلڈانفیکشن کے لئے سی آرپی اور ای ایس آر ٹیسٹ، بچوں کو تیز بخار مسلسل رہنے کی وجہ سے ہونے والا بلڈ ٹیسٹ سی ایس، بچوں کی کمزوری کی وجہ سے آئرن پروفائل ٹیسٹ، یورین ڈی آر اور یورین سی ایس ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں ہے، جس کے لئے ڈاکٹرز کی جانب سے مریضوں کو جناح اسپتال، کڈنی سینٹر سمیت مختلف نجی لیبارٹریز میں ٹیسٹ کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ جبکہ لیبارٹری میں ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ ٹیسٹ بھی سادے کاغذ پر لکھ کر نجی لیبارٹری ریفر کیے جاتے ہیں۔

’’امت‘‘ نے قومی ادارہ برائے اطفال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ناصر سلیم صندل سے موقف جاننے کے لئے ان کے آفس کا رخ کیا، تو انہوں نے بتایا کہ وفاق اور صوبائی حکومت کا اسپتال کے حوالے سے اپنے تنازع کے تحت اسپتال میں 350 اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود میں اسپتال کی ٹیم اور یہاں ہونے والے علاج سے مطمئن ہوں۔ کیونکہ میری ٹیم بہتر انداز میں کام کر رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اسپتال میں صوبہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب سے بھی بچے لائے جاتے ہیں، ان کے علاج کے لئے جتنی بہتر سہولت ہوتی ہے ہم مریضوں کو فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے 500 بستروں پر 900 مریض بچوں کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب بچوں کا علاج کرتے ہیں۔ کسی بچے کو واپس نہیں بھیجتے ہیں۔

گردے کے وارڈ کے انچارج مائیکل کے حوالے سے کیے جانے والے سوال پر ان کا کہ کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ سرکاری اوقات میں پرائیویٹ جاب بھی کر رہے ہیں۔ تاہم نمائندہ امت کے اصرار پر انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو دیکھا جاؤں گا۔ ایمرجنسی میں آکسیجن کے 20 بیڈز موجود ہیں، جہاں تک فلو میٹر کی بات ہے تو اس کے لئے عملہ بھی ہوناچاہیے۔

اس لیے جتنا ممکن ہوسکتا ہے بچوں کو بہتر سہولت فراہم کرتے ہیں۔ اسپتال کے ڈائریکٹر کے بقول اسپتال کی ایمرجنسی میں جو لیبارٹری موجود ہے۔ اس کو محض کلیکشن سینٹر بنایا ہوا ہے، جو ایمرجنسی میں آنے والے بچوں اور باہر سے آنے والے سیمپل جمع کیے جاتے ہیں۔ جبکہ ٹیسٹ کے لئے اسپتال میں قائم کمسٹری لیب میں بھیجا جاتا ہے اور لیب میں تمام بنیادی ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔